لوگ آج بھی راضی ہیں

لوگ مدد کرنے کو آج بھی راضی ہیں، بس اک اعتماد کی بات ہے


پہلے مئی 2012 کا دوسرا ہفتہ اور پھر 7 اکتوبر 2012 کی تاریخ۔ ان دونوں موقعوں پر ادب کی باتیں کرتے کرتے راقم الحروف نے غربت کی چکی میں پستے لوگوں کا احوال بیان کیا تھا۔ شاید احباب کے ذہنوں میں محفوظ ہو، شاید نہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مئی میں غربت کی چکی میں پستے لوگوں کا عمومی ذکر اور اکتوبر میں خصوصا” کراچی میں قیام پذیر شاعر محشر لکھنوی کی حالت زار احباب کے سامنے پیش کی گئی تھی۔ محشر لکھنوی جو رکشہ چلانے پر مجبور ہوئے تھے اور راقم نے ان کی داستان پڑھ کر اسے یہاں پیش کرتے ہوئے لکھا تھا
ہے ابھی گردشِ حالات سے جینا دو بھر
وقت یکساں نہیں رہتا ہے گُذر جائے گا

شاعر نے یہ شعر شاید ان لوگوں کے لیے کہا ہوگا جو اوائل عمری میں حالات کی سختی کا شکار ہوتے ہیں۔ وقت یکساں نہیں رہتا، گزر جاتا ہے، غم کے بعد خوشی، مصائب و آلام کے بعد راحت بھی ملتی ہے۔ لیکن 68 برس کی عمر میں کسی کے حالات خراب ہوجائیں تو اچھے وقت کے انتظار میں وہ حرماں نصیب بھلا کتنا جیے گا ?
آج (۵۲ مئی) کو علی الصبح ایک ٹی وی چینل پر ایک رفاہی و خیراتی ادارے پر ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں لوگوں کو مفت میں کھانا کھلایا جاتا ہے، کراچی کا ایک مشہور نام۔۔لوگوں کا جم غفیر تھا۔۔لمبی قطار میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ایک عورت پروگرام کی خاتون میزبان کو اپنا حال بتاتے بتاتے بری طرح رو پڑی ، اس کے آنسو تیزی سے بہہ کر نقاب میں جذب ہوتے جاتے تھے۔۔ فرط جذبات سے مغلوب وہ بار بار خاتون کو ’سر جی‘ کہہ کر پکار رہی تھی۔۔۔اسے تو اپنی بات بھی کہنی نہیں آتی تھی، ایک ہم ہیں کہ صبح سے شام لفظوں کے جال بنتے ہیں ، غلط کو صحیح ثابت کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔صبح سات بجے سے شام پانچ بجے کی محنت کے بعد اس عورت کو ڈھائی ہزار روپے ملتے ہیں۔دل کچھ ایسا خراب ہوا کہ ہاتھ سے لقمہ ایک جانب رکھ دیا۔
تم ہو یا میں یہاں بفضل خدا
سب شہیدوں کی صف میں شامل ہیں
سب یزیدوں کی صف میں شامل ہیں
دفتر کی ایر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے روزانہ بسوں میں جانوروں کی طرح ٹھنسے ہوئے لوگوں پر نظر پڑتی ہے، یہ منظر دیکھتے اب تو سات برس ہوچلے ہیں ، ایک ساتھی ہیں جو ساتھ والی نشست پر بیٹھتے ہیں، ان کی اور میری رفاقت طویل ہے۔مذہبی ہیں،ایک د ن بسوں کی چھتوں پر لوگوں کو بیٹھا دیکھ کر کہنے لگے : کیا سمجھتے ہیں آپ ، یہ لوگ جو بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے ہیں ، روز قیامت بھی اسی طرح نظر آئیں گے ؟ میں ان کی طرف دیکھتا رہا۔وہ گویا ہوئے: بھائی یہ اللہ کے مقرب بندوں کی صف میں ہوں گے کہ اپنے حصے کا دکھ تو یہ دنیا ہی میں جھیل چکے، آپ اور ہم سے سوال ضرور ہوگا ۔میں نے گھبرا کر پوچھا: تو کیا کیا جائے حضرت ؟ ۔۔جواب ملا: مستحق آپ کے پاس چل کر نہیں آئے گا، اسے ہمیں خود تلاش کرنا ہوگا۔
مستحق کو آپ کو خود ہی تلاش کرنا ہوگا

پھر یہ ہوا تھا کہ اس معمولی سے کام کے عوض جس میں نہ تو راقم التحریر کا وقت صرف ہوا اور نہ کسی طرح کی محنت، احباب نے حوصلہ افزاء جواب دیے تھے اور آخر میں کینیڈا میں مقیم ایک مہربان (یہاں موجود ہیں) نے ایک لاکھ تینتیس ہزار روپے محشر صاحب کو براہ راست بھیجے، ان کا قرض اترا اور داماد کے لیے ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لے کر روزگار کی سبیل ہوئی تھی۔
آج جو قصہ بیان کرتا ہوں وہ ایک چپراسی کا ہے، خیر صاحب “چپراس” تو کب کی ناپید ہوئی، پٹے والا کہیے یا “پی-اون” تو زیادہ بہتر ہوگا۔ چار برسوں سے ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھتا ہے، سانولا رنگ اور دراز قد، بات شیریں ہو یا تلخ، دوران گفتگو مسکرا دیتا ہے اور سفید سفید دانت نمایاں ہوجاتے ہیں۔ دو ننھے بچوں کا ساتھ ہے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ بیوی کم عمری ہی میں بلند فشار خون کا روگ پالے ہوئے ہے۔ بیوی کا ایسا وفادار ہے کہ اس کی دیکھا دیکھی خود بھی کم عمری میں یہ روگ لگا بیٹھا ہے۔  تنخواہ وہی جو ان تمام لوگوں کی ہوتی ہے جن کا جرم غریبی ہے۔ آٹھ ہزار۔ یہ بات ہمارے علم میں عرصے سے ہے کہ اس کے سر پر اپنی چھت نہیں ہے، اس کی سالی نے اسے ترس کھا کر اپنے گھر میں ایک کمرہ دے رکھا ہے سو یہ اپنی عزت نفس کو مار کر پڑا رہتا ہے۔ ان لوگوں کے نجی کام بھی اسے کرنے پڑتے ہیں۔
لیکن کل شام کی گفتگو میں ہم نے اس کی چند دن کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے کریدا تو معلوم ہوا کہ اب بچے شور کرتے ہیں تو مکینوں کو بھی تکلیف اور یہ خود بھی پریشان۔ یہ کراچی کا وہ علاقہ ہے جہاں گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے، نام اس کا کورنگی ہے۔ ایک روز دیر سے آیا تھا تو معلوم ہوا کہ رات بھر دونوں میاں بیوی مل کر بچوں کو ہاتھ کا پنکھا کرتے رہے اور وہ معصوم میٹھی نیند سوتے رہے۔ کل شام ہم نے کریدا
:
ہاں بھئی وسیم یہ بتاؤ کہ اکاونٹ میں کتنی رقم ہے ?
اس کے سانولے چہرے پر وہی روایتی مسکراہٹ آگئی
صاحب 43 روپے تھے پرسوں، کل دفتر اسی امید پر آگیا تھا کہ بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے اور مہینے کی آخری تاریخوں میں تو سو روپے کی سبیل نہیں ہوتی، پھر کچھ مدد آپ لوگوں نے کردی
تھی اور میں چلا گیا تھا
تمہارے ماں باب ?
“والدہ کا انتقال 1999 میں ہوا تھا اور اس کے بعد سے والد صاحب نے کوئی کام ہی نہیں کیا، کہتے تھے جس کے لیے یہ سب کرتا تھا وہی نہیں رہی تو اب کیا فائدہ۔ ایک برس قبل سیلانی ویلفئیر والوں کے پاس جا کر کچھ چھوٹا موٹا کام کرلیتے ہیں۔
“اور والد رہتے کہاں ہیں” ?
” وہیں قریب میں، وہ بھی ساٹھ گز کا “گھر” ہے، دو بھائی بھی رہتے ہیں اس میں۔ سانس لینے کو جگہ نہیں ہے۔ اسی لیے میں سالی کے گھر اٹھ آیا تھا۔”
ہم نے سوال کیا:
اچھا یہ بتاؤ کہ بیوی کے پاس کوئی ٹوم چھلا ہے ? “
“جی ہاں، وہی ایک آخری امید ہے”
“کیا مالیت ہوگی ? ”
” جی یہی کوئی تیس چالیس ہزار کا ہوگا”
“تو اب مسئلے کا حل کیا ہے” ? ہم نے پوچھا
ان نامساعد حالات میں گرفتار وسیم کے مسئلے کا بظاہر تو کوئی حل نہیں ہے لیکن ایک معقول حل
یہ ہے کہ اسے کہیں سے ساڑھے چار لاکھ روپے مل جائیں اور وہ ایک ساٹھ گز کا مکان لینے میں کامیاب ہوجائے۔
جی ہاں۔ ساٹھ گز رقبے کا۔ ساٹھ گز کی چھت۔ جو رقبہ جو عموما بڑے لوگوں کے گھر کے غسل خاکوں کا  ہوتا ہو۔ لیکن ایک کمرہ، ایک غسل خانہ اور ایک باورچی خانہ، یہ اس میں خوش رہے گا۔ چھت تو اپنی ہوگی۔ اس کے سر پر، اس کے بچوں کے سر پر۔ بچے جو بڑے ہورہے ہیں اور کچھ ہی عرصے میں انہیں اپنے ماں باپ کی بے بسی کا پتہ چل جائے گا۔

یہ سب قصہ، گفتگو ہمارے کمرے میں ہورہی تھی جہاں ایک خاتون بھی موجود رہتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں۔ اکثر گھر سے کچھ کھانے کی چیز لا کر وسیم کو دے دیتی ہیں اور وہ غریب بھوک مار کر اسے اپنے بچوں کے لیے لے جاتا ہے۔ وہ اسی نظام کا حصہ ہے جس کے تحت بڑی بڑی کمپنیوں میں بھی مستقل ملازمین کے لیے اچھی تنخواہیں، مفت طبی سہولیات کے رہتے ایسے لوگ ٹھیکیداری نظام کے تحت رکھے جاتے ہیں اور عرف عام میں “کچے” کہلاتے ہیں۔
وسیم کمرے سے نکلا تو ہم لوگ آپس میں بات کرنے لگے، کیا کیا جائے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے طے کیا کہ رازداری سے ایک مہم چلائی جائے۔ وہ اپنے عزیزوں سے کہیں، کچھ رقم جمع ہو، کچھ سلسلہ آگے بڑھے، کچھ ہم بھی حصہ ڈالیں۔ خاتون کو محشر لکھنوی کے قصے کا علم ہے، پرجوش انداز میں مجھ سے اسی انداز میں کچھ کرنے کو کہہ رہی ہیں۔ میں ان کو بتاتا ہوں کہ وہ معاملہ اور تھا اور یہاں ایسا ہے کہ ہمیں بینک اکاؤنٹ شاید اپنا ہی دینا پڑے اور ایسا کرنے میں مجھے ایک جھجک مانع ہے۔ وہ مجھے تسلی دیتی ہیں کہ محض اس اندیشے کے پیش نظر کیا ہم اس سلسلے میں آگے نہ بڑھیں ?
خاکسار کے پیش نظر حضرت علی کا قول رہتا ہے کہ خوشی (یا جذبات کی کیفیت) میں کسی سے کوئی وعدہ نہ کرو اور غصے کی حالت میں کوئی فیصلہ مت کرو کہ دونوں میں انسان بعد میں پچھتاتا دیکھا گیا ہے۔
نیت درست ہو تو اللہ کی مدد بھی شامل حال رہتی ہے۔ یہ طے بھی ہوا کہ اگر حکم ہوا اور یہ خواب پورا کرپائے تو خود چل کر جائیں گے، ساٹھ گز کا گھر اپنے سامنے دلوائیں گے، تصدیق کریں گے، کاغذات دیکھیں گے۔
خواب دیکھنے میں بھلا کیا حرج ہے ۔ ۔ ۔ ۔ راقم، کہ خواب دیکھنے میں ماہر ہے،  ۔ ۔ ۔ گھر واپسی پر تمام راستے آنکھیں موندے ایک خیال ، ایک گمان کے زیر اثر رہا۔ کچھ مہربان آگے آگئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اس حرماں نصیب کی مدد ہوگئی ہے، ساٹھ گز کی چھت اس کے سر پر مہیا کردی گئی ہے۔ وقت کی چکی میں پستے ماں باپ اپنے معصوم بچوں کے سامنے سرخرو ہوگئے ہیں۔ پھر منظر بدلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مدد کرنے والے میدان حشر میں جمع ہیں، حساب ہورہا ہے، یہ نہیں پوچھا جارہا کہ کتنا ادب پڑھا، کتنے شعر کہے، کتنی کتابیں اسکین کیں ۔ ۔ ۔ ۔ گناہ ثواب کی پڑتال ہورہی ہے۔……….  اچانک ایک جانب سے وہ ساٹھ گز کی چھت چلی آتی ہے اور مدد کرنے والوں کی لغزشوں کے بیچ ڈھال بن کر کھڑی ہوجاتی ہے، ساٹھ گز کی اس چھت کے چہرے پر مسکراہٹ ہے، وہسی ہی جیسی وسیم کے سانولے چہرے پر مصائب کے بیان کے وقت بھی کھیلتی رہتی ہے اور بات کرتے وقت اس کے سفید سفید دانت نمایاں ہوجاتے ہیں۔
لوگ مدد کرنے کو آج بھی راضی ہیں، بس اک اعتماد کی بات ہے۔۔۔۔۔!
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
اپنا تبصرہ لکھیں