سفید پھول

سفید پھول

کلام : عباس خان

تم واحد شخص ہو جو ان سات سالوں میں یہاں اس قبر پر فاتحہ کے لیے آیا ہے

اُس نے نظر اُٹھا کر دیکھا سامنے ایک درمیانی عمر کا شخص کھڑا اُس سے کہہ رہا تھا، وہ یہاں کا گورکن تھا

“یہ جب یہاں لائی گئی تھی تو تقریباً چار ہی لوگ تھے جو دفنانے آئے تھے
اور ایک بہت عجیب بات ہے صاحب!
کیا؟

تو وہ بولا
“یہ جب دفنانے آئے تھے اس لڑکی کو تو اس کا کفن تو سفید تھا مگر چادر کالی تھی اور پھر جب دفنا دیا تو اس کے کتبے پر یہ نام دیکھو سید مستم حیدر لکھوا دیا بھلا عورت کی قبر پر مرد کا نام کیوں؟”
گورکن کی بات پر وہ بے بسی سے مُسکرا دیا!

اے مستو یہ چادر اپنی مجھے دے دو یہ

کالی چادر!

جب مروں گی تو اسی میں لپٹ کر دفن ہوں گی ایسے لگے گا کہ جیسے تمہاری پناہوں میں ہوں
پتہ ہے جب تم پاس ہوتے ہو تو کوئی ڈر کوئی خوف نہیں رہتا
جانتے ہو نہ اندھیرا کتنا ڈراتا ہے مجھے
تو بس اس چادر میں ہی قبر میں جاوں گی
تا کہ تمہارا احساس پاس رہے اور کوئی ڈر باقی نہ رہے اور

اپنی قبر کے کتبے پر بھی تمہارا نام لکھواؤں گی
تاکہ کبھی میں تم سے کھو جاؤں اور تمہیں کہیں نہ ملوں
تو کسی شہرِ خاموشاں میں تم اپنے نام کا کتبہ دیکھو
تو جان لینا وہاں میں ہی سو رہی ہوں! “صاحب؟”

ہاں؟

“ایک اور عجیب بات ہے
وہ کیا؟

” یہ دیکھو یہاں کسی قبر پر پھول نہیں ہیں مگر
نہ جانے کیسے بس اسی قبر پر یہ سفید پھول کھل گئے خود ہی
کسی نے لگائے بھی نہیں
وہ اب کی بار قہقہ لگا کے ہنس پڑا
جانتے ہو بابا وہ ایسی ہی تھی سب میں رہ کر سب سے مختلف
میری نازک سی معصوم آنکھوں والی گُڑیا
ہر بات پر ڈر جانے والی
اُسے سُرخ پھولوں سے ڈر لگتا تھا
کہتی تھی کہ اُسے لگتا ہے
جب کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں ہی مر جاتا ہے
تو اُس کے خون سے سُرخ گلاب بنتا ہے !

پاگل !!

اور سفید پھولوں سے اُسے عشق تھا
کہتی تھی کہ
سفید پھول محبت کرنے والوں کی پاک روحیں ہیں
اور وہ بھی جب مر جائے گی تو سفید پھول بن جائے گی

وہ اب اُن سفید پھولوں کی مہک اپنے اندر اترتی محسوس کر رہا تھا!

” تم اس کے کیا لگتے ہو صاحب؟”

میں؟

بظاہر کچھ بھی نہیں مگر سب کچھ!!

کچھ لوگوں سے بظاہر کوئی تعلق کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہ جسے کوئی نام دیا جا سکے

مگر تمام رشتوں کے احساسات اُسی کے پہلو میں سجدہ کرتے ہیں.

اپنا تبصرہ لکھیں