ڈینش ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر پیا شاریگارڈ نے بیان دیا ہے کہ انکی پارٹی بدستور موجودہ حکومت کی حمائیت ہی کرے گی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ایسی صورتحال میں ڈینش انتخابات کی کو ئی خاص وجہ نہیں ۔ تاہم اگر یہی پارٹی بدستور برسر اقتدار رہی تو یہ ڈینش تاریخ کی
اس کیٹا گری میں 451 خبریں موجود ہیں
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان سےدورہ ناروے کے موقع پر اردو فلک سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوری تسلسل سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے. انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستانی کمیونٹی پر فخر ہے
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اپنے دورہ ناروے کے دوران پاکستانی کمیونیٹی کی طرف سے دئے گئے ایک عشائے میں شرکت کی
نارویجن صوبائی اور مقامی الیکشن کے ووٹوں کی گنتی کے بعد کئی نارویجن سیاستدانوں نے اپنے عہدے کھو دیے۔ان میں بائیں پارٹی کے لیڈ (Helge solum Larsen) ہیلگے سولوم لارشن بھی شامل ہیں۔انہیں مشترکہ صوبائی سطح پر ایک فعال رکن اور کلیدی فرد سمجھا جاتا تھا۔سن 2011 کے الیکشن اس پارٹی کے لیے ناکامی کا پیغام بن گئے۔ان الیکشنز میں پارٹی صرف اسمبلی کی دو سیٹیں ہی حاصل کر سکی۔ یہ تناسب 2005 کی نسبت بہت کم ہے۔اس مرتبہ پارٹی میں صرف بورگ ہلدے ( Borg Hilde) اور ٹرینے اسکائے گراندے Trene ski Granday)ہی پارلیمنٹ کی سیٹیں جیت سکی ہیں۔
اے پی پارٹی نے الیکشن میں اپنی خاتون پارلیمنٹ ممبر آنے مارت کو کھو دیا ہے۔جو کہ شمالی علاقہ کی نمائندگی کرتی تھیں اور وزیر اعظم کی مشیر خاص تھیں۔اس کے ساتھ ہی نارویجن اخبار داگ بلادے کے مطابق ایک اور خاتون
بیگم فردوس عاشق نے اپنے دورے میں نارویجن وزیر اطلاعات سے بھی ملاقات کی جس میں دو طرفہ منصوبوں کے تحت پاکستان کو مزید ٹیکنالوجی فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔ تاہم بیگم فردوس نے واضع کیا کہ گذشتہ کئی برسوں سے تشدد اور تخریب
یہ ایوارڈ کمیٹی ہر سال نمایاں کارکردگی دکھانے والے پاکستانیوں کو دیتی ہے۔صغراء بی بی اوسلو پولیس کے محکمے میں کام کرتی ہیں۔جبکہ ولید احمد نے
یورپین تارکین وطن صرف بائیس فیصد الیکشن میں ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔ایسی اسلیے ہے کہ وہ ناروے کو اپنا وطن نہیں سمجھتے اور مقامی سیاست میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔جبکہ پاکستانیوں کی اکثریت جو ناروے میں
تاہم انکا کہنا ہے کہ نارویجن سیاستدانوں کو اپنا پارٹی منشور بتانے کے لیے مسجدوں میں بھی آنا چاہیے تاکہ ہمیں بھی انکے مقاصد معلوم ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کئی نارویجن سیاستدان مسجدوں میں بھی آتے تو ہیں مگر بہت کم ٹائم کے لیے ۔ اس طرح ہمیں انکی پارٹی کے بارے میں ذیادہ معلومات نہیں ہوتی۔اگر وہ ذیادہ ٹائم دیں گے تو پھر پاکستانی اپنے
یس وے پارٹی ایک ایسے ویلفیر اسٹیٹ پر یقین رکھتی ہے جہاں ہر فرد کو امریکی شہریوں کی طرح انفرادی طاقت حاصل ہو۔جبکہ اس طرح معاشرے میں ناہمواری پیدا ہوتی ہے۔جبکہ اسکینڈینیوین ممالک فلاحی ممالک کے طور پر مشہور ہیں۔امریکہ میں ایسی سہولتیں نہیں۔ یہاں جاب ،بیروزگاری اور بچوں کی پیدائش پر شہریوں کو خصوصی مراعات