نارویجن ایرلائن کو مالی فائدہ

یادرہے کہ پچھلے سال آئس لینڈ میں آتش فشاں کی راکھ کی وجہ سے اس ائیر لائن کو اور دوسری ائیر لائنز کی طرح مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔مگر اس سال کے شروع میں اس ائیرلائن نے چار ملین مسافروں نے ذیادہ سفر

اردو ایوارڈ یافتہ شاعر جمشید مسرور کی امریکہ روانگی

دو اکتوبر کو ویسٹ ہالی وڈ میں کتاب میلے میں چالیس منٹ کے لیے اپنی شاعری سنائیں گے۔اور اپنی کتاب پر دستخط کریں گے۔تین اکتوبر کو ڈبری یونیورسٹی میں اپنا کلام سنائیں گے۔
چھ اکتوبر کو کینیڈا میں وینکور یونیورسٹی روانہ ہونگے۔وہاں انہیں اسکینڈینیوین کمیونٹی نے مدعو کیا ہے۔جبکہ نیویارک

نارویجن پاکستانی طالبعلم کی زیورچ میں چا روزہ کانفرنس میں شرکت

نوجوانوں کی دنیا کی اس کانفرنس کے بعد سال دو ہزار بارہ کی کانفرنس امریکہ کے شہر پٹس برگ (Pittsburg) میں ہو گی۔ جبکہ سال دو ہزار تیرہ کی کانفرنس ( Johansburg) جوہانسبرگ کا شہر نوجوانوں کی دنیا کانفرنس کا میزبان بنے گا۔جوامشتاق اس کانفرنس میں شرکت کے بعد زیورچ سے امریکہ چلا گیا لیکن اب تھوڑی اس شہر کی سیر بھی

ناروے میں غیرملکیوں کے مسائل

نارویجنوں کا غیر ملکیوں کے مسائل کو سمجھنا اور انہیں مناسب مدد نہ دینا بھی مسائل کی وجہ ہے۔ایک جائزے کے مطابق ناروے میں بسنے والے بیشتر غیر ملکیوں کے بچوں کو اسکولوں میں زبان کی کمزوری کی وجہ سے تعلیمی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کو

نئی خاتون ڈینش وزیر اعظم کو چلنجز کا سامنا

سیاسی پنڈتوں اورقومی سیاست پر نگاہ رکھنے والے محققین کے مطابق، نئی وزیر اعظم ھیلے تھورنگ شمتھ کو اپنے انتخابی سیاسی ایجنڈے پر چلنا اور اسے پورا کرنا بہت ہی مشکل ہو جائے گا ۔ اور انہیں اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیشہ دوسری اتحادی پارٹیوں کے ساتھ لین دین اور سمجھوتے کرنے پڑیں گے ۔ اور ایسا کرنا ان کے لیے بہت

ناروے میں معروف شعرائ ا مجدا سلام امجد اور انور مسعود کا دورہ

الفلاح اسکالر شپ اسکیم کا بنیادی مقصد صاحب ثروت افراد کے مالی تعاون اور سرپرستی سے ضرورتمند طلباء و طالبات کو اسکول کالجوں یونیورسٹی میڈیکل کالج ، اور ٹیکنیکل اداروں کی سطح پر تعلیم دلوا کر معاشرے میں مربوط کرنا ہے۔

ڈنمارک : انتخابات میں سرخ بلاک کی جیت ۔ ھیلے تھورنگ سمتھ پہلی خاتون وزیر اعظم

ڈنمارک میں کرائے گئے پارلیمانی انتخابات کے بعد، نظام کی تبدیلی ایک حقیقت بن گئی ہے ۔ وینسٹرا پارٹی کے وزیر اعظم لارس لکے راسموسن نے اپنی پارٹی کی شکست تسلیم کرتے ہوئے، سوشل ڈیموکریٹ پارٹی چیئرپرسن ھیلے ٹھورنگ شمتھ کو ان کی پارٹی اور سرخ بلاک کی کامیابی پر مبارکباد دی ہے اور اب ھیلے تھورنگ سمتھ ڈنمارک کی پارلیمانی جمہوری تاریخ میں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر عہدہ سنبھال رہی ہیں ۔
پچھلے تین ہفتوں سے جاری انتخابی تحریک کے بعد، کل جمعرات کو کرائے گئے انتخابات کے نتیجے میں، سوشل ڈیمو خریٹ کی سربراہی میں سرخ بلاک کی فتح کے بعد، سوشل ڈیموکریٹ ارٹی کی چیئرپرسن، ھیلے تھورنگ شمتھ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا عہدہ سنبھال رہی ہیں ۔
مبصرین کے مطابق، انتخابی نتائج کے بعد اب، سوشل ڈیموکریٹ اور ایس ایف دونوں پارٹیاں اگرچہ کچھ ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھیں لیکن ریڈیکل اور انھد لسٹن دونوں پارٹیاں کی کامیابی کے بعد اب سرخ بلاک حکومت سنبھال رہا ہے اور ایک طرح سے یہ صرف بائین بازو کے دس سالہ اقتدار ی کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک بائیں بازو کی ایک نئی حکومت اور ایک نئے نظام کا آغاز بھی ہے ۔
ڈی آر نیوز کے مطابق، سرخ بلاک کو 89 پارلیمانی نشستیں ملی ہیں جبکہ اس کے مد مقابل دائیں بازو کے نیلے بلاک کو 86 نشستیں مل سکی ہیں ۔ اس کے علاوہ گرین لینڈ اور جزائر فیرو سے سرخ بلاک کے لیے تین ارکان پارلیمنٹ اور نیلے بلاک کے لیے ایک رکن چنا گیا ہے ۔
سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کی ھیلے تھورنگ شمتھ وزارت عظمی کا قلمدان تو سنبھالنے والی ہیں لیکن انہیں وزارتوں کی تقسیم کے معاملوں پر کچھ سخت مطالبات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اور بیشک وہ اقتدار سنبھال رہی ہیں لیکن وہ ایک ایسی پارٹی کی بنیاد پر حکومت بنا رہی ہے جس نے انتخابات میں اپنی ایک نشست کھو دی ہے اور 44 ارکان کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہوئی ہے اور یہ خود ان کی اپنی سوشل ڈیموکریٹ پارٹی ہی ہے ۔
سرخ بلاک میں شامل، ایس ایف پارٹی بھی، انتخابات کے نتیجے میں اپنی وہ پوزیشن کھو چکی ہے جس کی بنا پر وہ خود کو حکومت میں شامل ہونے والی دوسری بڑی پارٹی کہلوا سکتی تھی ۔ ایس ایف کے ایک تہائی امیدوار اپنی نشستیں کھو چکے ہیں اور اب اس کے پاس چوبیس سے گر کر صڑف سولہ پارلیمانی ارکان رہ گئے ہیں ۔ ایس ایف کے مقابلے میں، ریڈیکل وینسٹرا پارٹی کی پوزیشن بہت بہتر اور شاندار رہی ہے ۔
مبصرین اس پر متفق ہیں کہ ریڈیکل پارٹی کی چیئر پرسن مارگریٹھے ویسٹر گر نہ صرف حکومت سازی بلکہ حکومتی امور پر بھی نمایاں اثر و رسوخ حاصل کر سکتی ہیں ۔ ان کی پارٹی جو پہلے صرف آٹھ پارلیمانی نشستیں رکھتی تھی اب اس کے پاس سترہ نشستیں ہیں ۔
انتخابات کے بعد کل شام جب نتائج سامنے آنے شروع ہوئے تو سیاسی پارٹیوں کے حمایتیوں کی گہما گہمی اور پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر سیاسی ہلچل دید کے قابل تھی لیکن، جونہی نتائج سامنے آتے گئے تو بائیں بازو کے سرخ بلاک کے سامنے ، دائیں بازو کے نیلے بلاک کی خوشیاں ماند پڑنے لگیں ۔
حکمراں وینسٹرا پارٹی کے لارس لکے راسموسن نے اگرچہ پیشرفت کی اور ان کی پارٹی نے 47 پارلیمانی نشستیں حاصل کر لیں اور یوں ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کا اعزاز بھی پا لیا ۔
مستعفی ہونے والی حکومت میں وینسٹرا پارٹی کے ساتھ اقتدار میں شامل رہنے والی، بائیں بازو کی کنزرویٹوو پارٹی کے لیے موجودہ انتخابات ایک زبردست جھٹکا ثابت ہوئے اور پارٹی اپنے آدھے پارلیمانی ارکان سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔ اب اس کے پاس صرف آٹھ پارلیمانی نشستیں ہیں
غیر ملکیوں مخالف سخت ترین رویہ رکھنے اور خود کو مسلمانوں اور دین اسلام کے خلاف قرار دینے والی، انتہائی دائیں بازو کی ڈینش پیپلز پارٹی کو حالیہ انتخابات میں اپنے تین ارکان کو چھوڑنا پڑا اور اب اس کے پاس 22 پارلیمانی نشستیں ہیں ۔
لیبرل الائینس پارٹی اپنی نمایاں کامیابی پر خود بھی حیران ہے ۔ اس نے 9 پارلیمانی نشستیں حاصل کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔
بائیں بازو کی انھد لسٹن پارٹی بھی پیچھے نہیں رہی ۔ سنہ دو ہزار سات میں کرائے گئے انتخابات کے مقابلے میں اب کی بار انھد لسٹن پارٹی نے تین گنا زیادہ کامیابی کے ساتھ پارلیمنٹ میں بارہ نشستیں حاصل کر لی ہیں ۔
مسیحیت کی نمائندگی کرنے والی، کرسچلی ڈیموکریٹک پارٹی کوئی ایک بھی پارلیمانی نشست حاصل نہیں کر سکی ۔
اب تک کے انتخابی نتائج کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے والی نو سیاسی پارٹیوں کے کامیاب ہونے والے ارکان کی تعداد کچھ یوں ہے

۔ بائیں بازو کے سرخ بلاک کی حمایت کرنے والی پارٹیوں نے کل پچاس اعشاریہ دو فیصد ووٹوں کے ساتھ، 89 پارلیمانی نشستیں حاصل کی ہیں ۔

۔ دائیں بازو کے نیلے بلاک کی حامی پارٹیوں نے کل انچاس اعشاریہ سات فیصد ووٹوں کے ساتھ 86 پارلیمانی نشستیں حاصل کی ہیں

مختلف پارٹیوں کو ملنے والے ووٹوں کی شرح اور ان کے کامیاب ہونے والے امیدواروں کی تعداد

وینسٹرا ۔ چھبیس فیصد ووٹ اور، سنتالیس ارکان کامیاب
کنزرویٹوو ۔ چار اعشاریہ نو فیصد ووٹ اور، آٹھ ارکان کامیاب
ڈینش پیپلز پارٹی ۔ بارہ اعشاریہ تین فیصد ووٹ اور، بائیس ارکان کامیاب
لیبرل الائینس ۔ پانچ اعشاریہ صفر فیصد ووٹ اور، نو ارکان کامیاب
کرسچلی ڈیموکریٹ ۔ صفر اعشاریہ صفر آٹھ فیصد ووٹ اور، صفر رکن ۔ (یہ پارٹی پارلیمنٹ میں داخل نہیں ہو سکی )۔
سوشل ڈیموکریٹ ۔ چوبیس اعشاریہ نو فیصد ووٹ اور، چوالیس ارکان کامیاب
ایس ایف ( سوشلسٹ پیپلزارٹی) ۔ نو اعشاریہ دو فیصد ووٹ اور، سولہ ارکان کامیاب
ریڈیکل وینسٹرا ۔ نو اعشاریہ پانچ فیصد ووٹ اور، سترہ ارکان کامیاب
انھد لسٹن پارٹی ۔ چھ اعشاریہ سات فیصد ووٹ اور، بارہ ارکان کامیاب