یہ پر کشش زمین میری ہے

 

یہ پر کشش زمین میری ہے

 

عثمان شیر

برصغیر (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) تاریخ کے ابتدائی دور سے ہی ہند کے نام سے جانا جاتاہے۔قدیم زمانے میں جب بھی کوئی قوم یہاں باہر سے آکر اباد ہوئی تو مغرب ہی کے راستے آئی، یا توبحیرہ عرب سے یا شمال مغرب کے پہاڑی دروں سے ہوتے ہوئے۔ چاہے جدھر سے بھی وہ لوگ آئے، اس سر زمین میں داخل ہوتے ہی انہوں نے دریائے سندھ کو چوڑے چکلے بہاو کے ساتھ اپنے سامنے موجود پایا۔ شمال سے جنوب مغرب کی طرف بہتے ہوئے بحیرہ عرب میں شامل ہوکر اس دریا نے ہمارے پرانے ابا واجداد، سنسکرت بولنے والے آریاوں ،کو حیرانگی اور خوف کی امیزش کے ساتھ پکارنے مجبور کردیا: سندھو !۔انہوں نے سنسکرت زبان میں لفظ دریا کا بدل کہا تھا، اورپر اس خطے کا نام ہی سندھ پڑ گیا۔ بعد میں یونانیوں نے اس کو انڈوس ، رومنوں نے انڈس ، عربوں اور ایرانیوں نے ہند اور یورپ والوں نے انڈیا کہا۔ اور یہ عر ب ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے ہند کے رہنے والوں کو ہندو کے نام سے پکارا ،اوربعد میں ان کے مذہب کے مبہم نام براہمنی کو اسی وجہ سے ہندو مت کہا گیا۔ لیکن دریائے سندھ کے اس پاس کی زمین تنہا قدیم ہندوستان کا پورا علاقہ نہیں تھی۔ وہ تو ایک بہت ہی وسیع علاقے کا صرف ایک چھوٹا سا ٹکڑاتتھی۔ ایسا اکثر ہوا ہے کہ ایک بڑے علاقے کا نام اس کے کسی خصوصی چھوٹے سے ٹکڑے کے نام پرپڑ گیا ہے۔ اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔پھر جب  میں ملک ہندوستان کو تقسیم کردیا گیا توقسمت کا کھیل دیکھئے کہ اس کو نام دینے والا علاقہ ایک نیا ملک پاکستان کا نام لے کر سامنے آیا، اور جہاں سندھ دریا موجود نہیں وہ بدستور  ہند ہی رہا۔

ا س زمین کی تاریخ کی دوسری بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ آریاوں کے یہاں قدم جمانے سے پہلے اسی سندھ دریا کے اس پاس دنیا کی بہت ہی قدیم تہذیبوں میں سے ایک موجود تھی جس کو ہم اب وادیِ سندھ کی تہذیب کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کے اثار صوبہ سندھ میں خصوصی طور پر موئن جو ڈارو (مردوں کا ٹیلہ) کے مقام پر موجود ہیں۔ یہ پڑھے لکھوں لوگوں کی ایک ایسی تہذیب تھی جہاں خصوصا شہر کی منصوبہ بندی اور دوسری سہولتوں کی فراہمی کا ایسا بندوبست کی گیا تھا کہ ہم اس زمانے کے لوگوں کی فراست کے قائل ہو جاتے ہیں۔ شہر کی گلیاں رات میں روشن رہتی تھیں ، شہر میں پانی کی فراہمی کا انتظام تھا، اور گندگی کے نکاس کے لئے نالے تھے۔ گھروں میں کنوئیں، غسل خانے، باورچی خانے، اورصحن بھی ہوتے تھے۔ وہاں ایک عمارت ایسی پائی گئی ہے جو شاید ایک مدرسہ تھا یا خانقاہ۔ سردار، پجاری، اور رقاصہ کے مجسمیی بھی پائے گئے ہیں۔ اور پھر انہیں آریاوں نے جنہوں نے اسے اس زمیں کو سندھ کے نام سے پکاراتھا اس کی تہذیب کوتباہ و بربادکر کے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔ خشک سالی، بیماریوں کا حملہ، یا منگولوں کی یورش کی وجہ سے یوریشیا کے میدانوں سے اتر کر ، ق م میںیہ غیر تہذیب یافتہ قوم جتھے کا جتھہ مغرب میں یورپ اور جنوب مشرق میں ایران، ترکی اور ہندوستان میں نتقل ہو گئی اور دنیا کی تاریخ کوایک نیا رخ دے گئی۔ وہ بانس اور لکڑی کے بنائے گھروں میں رہتے تھے اور مویشی اور خصوصی طور پر گھوڑے انکی دولت تھے۔ہندوستان کو اس وقت گھوڑوں سے واقفیت نہیں تھی اور ان گھوڑوں نے وادی سندھ کے لوگوں کو مغلوب کرنے میں بڑی مدد کی۔ ان کا سب سے بڑا تہذیبی اثاثہ ان کی بولنے والی زبان سنسکرت تھی۔ وہ لکھنا نہیں جانتے تھے۔ تاریخ دان رومیلہ تھاپڑ ہسٹری اف انڈیا میں لکھتی ہیں : کچھ لوگوں کے نزدیک ہندوستان میں آریاوں کی آمد تہذیب کے پس منظر ایک پست قدم تھا کیونکہ شمالی ہندوستان کو زرعی اور اور خانہ بدوشی کے تمدن سے گزر کر ایک بار پھر تہذیب کی دنیا کی طرف انا پڑا ۔

برصغیر  لاکھ اسکوائر میل سے زیادہ علاقے پر محیط ہے۔ ہندو کش اور بلوچی پہاڑیوں کا سلسلہ مغرب میں اور برما کی پہاڑیاں مشرق میں ، اور ان دونوں کناروں کو ملاتے ہوئے شمال میں عظیم کوہ ہمالہ ایک پتھر اور برف کی دیواربن کرکھڑا ہے جو اس وسیع ملک کو قطب شمالی کی برفیلی ہواوں اورشمال سے حملہ اوروں سے محفوظ بنائے ہوئے ہے۔ اس تکونے ملک کی جنوبی نوک بحر ہند میں جاملتی ہے جس کے مغرب میں بحیرہ عرب اور مشرق میں بحیرہ بنگال ہے۔ لیکن یہ خطہ زمانہ قدیم سے لے کر اج تک سیاسی طور پر ایک ملک کی حیثیت سے شاذ و نادر ہی رہا ہے۔ چوتھی صدی ق م میں موریہ خاندان، دہلی سلطانوں اور مغلوں کے وقت اور پھر انگریزوں کی حکمرانی کے دوران۔لیکن پھر بھی پورا ہندوستان (ہند، پاکستان،بنگلہ دیش) کسی لمحے بھی ایک حکمران کے ماتحت نہیں رہا۔ کچھ نہ کچھ حصے اس کی دسترس سے باہر ہی رہے ہیں۔ بلا شبہہ، پھر بھی تاریخی طور پر ہندوستان ایک ملک کہلاتا رہا ہے اور یہ اسکی جغرافیائی حیثیت کا ایک تحفہ ہے۔ ایسی جغرافیائی ساخت کہ سارا علاقہ ایک علحدہ زمین کا ٹکڑا نظر آئے دنیا میں بہت کم ہی ملتا ہے۔

اس خطے کو تین جغرافیائی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ متوازی یا افقی طور پر مغر ب سے مشرق کی سمت شمال میں پہاڑی علاقہ ہے، درمیان میں دریائے سندھ اور گنگا کا میدانی علاقہ اور اسکے بعد جنوب میں دکن کا سطح مرتفع ہے جو وندھیا کی پہاڑیوں اور نرمدا ندی کی وجہ سے علحدہ کیا ہوا ہے۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب دونوں ہی سمت بر صغیر تقریبا ، میل تک پھیلا ہو ہے۔اس وسیع زمین پر ہر طرح کی جغرافیائی خصوصیات دیکھنے کو ملتی ہیں: اونچے نیچے پہاڑ، سطح مرتفع ، ہر سمت میں بہتی ہوئی ندیاں، گھنے جنگلات، زرخیز میدانی علاقے، بارانی زمینیں، اورریگستان۔ بعض علاقوں میں حرارت  ڈگری ف ہوتی، تو شمالی خطے میں اکثر جگہوں پر برف باری ہوتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بارش کا علاقہ بھی یہاں ہی ہے: شمال مشرق کی طرف چیرا پونجی میں  انچ سالانہ بارش ہوتی ہے۔

ان جانے قدیم وقتوں سے ہی یہاں باہر سے انے والوں کا ایک سلسلہ لگا ہوا ہے۔ جیسے کہ یہ ایک پر کشش دنیا ہے جس نے ہر طرح کے لوگوں میں ایک جادو کی لہر دوڑا دی ہو اور وہ اس کی طرف کھینچتے چلے آتے ہیں: بلا مقصد انے والے، بس جانے والے، حملہ آور، تجارت کی غرض سے انے والے، فتح کرنے والے، اور اس کو اپنی کالونی بنانے والے سب ہی، جن میں شامل ہیں آریائی، یونانی، ساکا، اشکانیان، کشن، ہن، عرب، ترک، افغان، پرتگالی، ولندیزی، فرانسیسی اور انگریز۔ یہ بھی ایک خوبی کی بات ہے کہ ہر انے والے نئے رنگ ونسل، تہذیب و تمدن، ر سم و روایات، زبان اور مذہب کی دولت بھی اپنے ساتھ لائے۔ پھر یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس کی تصویر کے بڑے پردے پرمختلف رنگ کے چھوٹے چھوٹے بیشمار مناظر پھیلے ہوئے ہیں، اور ان میں ہر ایک اپنی خوبصورتی میں ڈوبا ہوا ہے۔
اس سلسلے میں دو متضاد کیفیتیں کام کر تی رہیں ہیں: خود اپنی طرف کھینچنا اور باہر سے اندرکی طرف دھکیلنا۔ ہر زمانے میں اس زمین کی زرخیزی، گھنے جنگلات، کم ابادی، ابلتی ندیاں، دودھ دینی والی گائیں اور بھینسوں کی بہتات، کھیتی میں مدد کرنے والے جانور، معدنیات کی فراوانی، تجارتی راستوں کی سہولت، اور سونے اورجواہرات کے ذخیروں کی کہانیاں باہر سے لوگوں کو اپنی طرف بلاتی رہیں اور دوسری طرف ہندوستان سے ملحقہ علاقوں میں ذرائع سے زیادہ ابادی اور خشک اور نا قابل زراعت زمینوں نے لوگوں کو اس کی ہریالی اور زرخیز زی کی طرف دھکیلا ہے۔
__._,_.___

اپنا تبصرہ لکھیں