سفر ہے شرط (قسط نمبر7)

ڈاکٹر شہلا گوندل
میں اپنے گھر میں منعقدہ محفل کی ویڈیوز دیکھ رہی تھی تو رضوانہ اور عابدہ بھی پاس آگئیں- نعت اور عارفانہ کلام سن کے میرے شوہر نامدارکی آواز کی بہت تعریف کی۔ اب انکو کیا بتاتی کہ تیئیس سال پہلے اس آواز نے ہی تو مجھے بے حد متاثر کیا تھا۔ انکی آواز نے ایسا جادو کیا کہ میں خود فراموشی میں ان کے ساتھ عمر بھر کے بندھن میں بندھنے کے لیے تیار ہو گئی تھی- میرے جیسی خودسر اور خود مختار لڑکی دل و جان سے اس اکھڑنوجوان پہ فدا ہو چکی تھی اورجانثاری کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
باتوں میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا اور سیمینارکا وقت ہو گیا۔ ہم لوگ سیمینارروم میں پہنچے تو وہاں پر شاہدہ اور ساجدہ باجی ہمیں ذہنی سکون سے آراستہ کرنے کے لیے تیار تھیں۔ ساجدہ باجی نے مثبت سوچ کی اہمیت اورشخصیت سازی میں اس کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی- شاہدہ نے اپنی مسحور کن آواز میں دھیمے لہجے کے ساتھ ہماری آنکھیں بند کروا کے سانس کی مشقیں کروائیں اور ساجدہ باجی نے بند آنکھوں کے پیچھے ہمارے تصورات کو مثبت بنایا۔ سب سے پہلے انہوں نےدائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنے چہرے پر نرم ضربیں لگا کریہ الفاظ دہرانے کی مشق کروائی۔”میں خوبصورت ہوں۔ میں نے خود کو معاف کیا “۔ ہم سب نے ان کی تقلید میں اپنے ماتھے اور تھوڑی پر انگلیوں کی پہلی پوروں سے ہلکی سی ضربیں لگا کر اپنے آپ کو حسین تصور کیا اور خود کو اپنے تمام کردہ اور ناکردہ گناہوں سے آزاد کروایا۔

پھر آنکھیں بند کروا کے، انتہائی نرم اور شفیق لب و لہجے کے ساتھ انہوں نے ہمیں ایک خوبصورت ہرے بھرے قطعہ ارض  پہ پہنچایا اور اپنی  پسند کا لباس زیب تن کرنے کو کہا۔ میں نے تصور میں اپنے آپ کو ایک جھیل کے کنارے سرسبزگھاس پہ شفون کی پیلے رنگ کی بالکل سادہ ساڑھی میں ملبوس دیکھا- ینگ اورسمارٹ جیسے میں 1998 میں تھی۔ بائیس سال کی عمر، جب میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں تھرڈ ایئر کی طالبہ تھی اور پیکیجزلاہور میں انٹرنشپ کر رہی تھی۔ تب میں نے کاٹن کا ایک بالکل سادہ پیلے رنگ کا شلوار، قمیص اور دوپٹہ بنایا تھا- بس اسی رنگ کی پلین ساڑھی اوروہی شکل و صورت میرے تصور میں تھی۔ پھرانہوں نے ہمیں ایک اڑن کھٹولا دکھایا جو افق کے اس پار سے آیا تھا۔ اس میں ہمارے لئے انعام کے طور پر کچھ بھی تھا جو ہم تصور کر سکتے تھے۔ میرے انعامی لفافے میں سے راضی برضا اللہ ہونا نکلا۔ اپنے سارے دکھ ہم نے اس اڑن کھٹولے میں ڈالنا تھے۔ میں نے اپنے اندرچھپا مستقبل کا خوف اور ناامیدی کا کوئی بھی شائبہ اپنے دل سے نکال کرچپکے سے اس میں ڈال دیا-اڑن کھٹولا میرے سارے خوف اور ناامیدی لے کر دور افق پہ ایک نقطے کی شکل اختیار کر چکا تھااور بلآخر غائب ہو گیا۔ آنکھیں کھولیں تو خود کو باقی سب خواتین کے ساتھ سیمینار روم میں پایا۔ ان سب نے کیا کھویا اور کیا پایا، یہ میں نہیں جانتی لیکن میں اندیشۂ فردا سے آزاد،پرامید اور پہلے سے زیادہ راضی برضاۓ الہی انسان تھی۔ مطمئن،خوبصورت اور حسین بھی——
اس کے بعد ادبی محفل تھی۔ باجی شازیہ نے اردو فلک کا سرسری سا تعارف کرایا۔ بظاہر سنجیدہ نظر آنے والی لیکن انتہا کی بذ لہ سنج ، سمارٹ سی باجی شازیہ عندلیب نے کہا کہ آپ لوگ اس ٹور کے بارےمیں ضرور کچھ لکھیے گا۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ میں لکھوں گی۔ پھر ہم سب نے اپنی ذاتی زندگی کے لطیفے سناۓ۔باجی شازیہ کے ایک جملے نے میری زندگی بدل دی اور وہ یہ تھا کہ”جھوٹی کہانیاں لکھنے کا دور گیا، سچ لکھنے اور سچ پڑھنے کا زمانہ ہے-“
بس پھر کیا تھا، اسی دن میں نے سچی کہانیاں لکھنےکی ٹھان لی تھی۔پھر شاعری کا دور چلا اور میں نے اپنے بچپن کی سہیلی کی میرے لیے لکھی گئی نظم، ” برف “پڑھ کے سنائی۔ سب نے بہت پسندکی۔ مزاحیہ شاعری نے بھی خوب ہنسایا۔ جب نوشک کی بات ہوئی تو سب نے مجھے اس سے بے بہرہ پایا۔ باجی غزالہ نسیم نے مجھ سے پہلی بار مخاطب ہو کر کہا کہ”آپ کوتو نوشک میں سکھاؤں گی، آپ ہمارے نوشک کورس میں آؤ۔“ میں نے اس سلسلے میں کسی رضامندی کا اظہار نہیں کیا۔ کیا کروں میں؟نوشک تھوڑی بہت پڑھ اور سمجھ تو لیتی ہوں لیکن لکھنے اور خاص طور پر بولنے میں بڑی ہچکچاہٹ ہے۔ حالانکہ میرے سارے بچے،خاص طور پر چھوٹےدونوں اب آپس میں بھی فرفر نوشک بولتے ہیں۔غزالہ باجی کی بارعب لیکن شفیق شخصیت میں کچھ ایسا سحر تھا کہ میں کھل کے انکار نہ کر سکی۔ دریں اثناءرضوانہ کڑک والی بہترین چاۓ بنا لائی جس نے محفل کو چار چاند لگا دیے۔ میں نے بڑے دنوں کے بعد چاۓ پی تھی۔ کافی عرصے سے میں چاۓ کی بجاۓروزانہ صرف ایک کپ بغیر شکر کے بلیک کافی پر اکتفا کرتی ہوں۔ لیکن اس رات اپنی نئی سہیلیوں کے ساتھ چینی والی چاۓ کا لطف اٹھایا۔ شاعری کے بعد نارویجین معاشرے میں پاکستانیوں کے اختلاط پر بات چیت شروع ہو گئی۔ میں سیمینار ہال سے نکل کر کامن روم میں گئی اور پانی کا گلاس بھر کے پینے کے لیے ایک کرسی پہ بیٹھ گئی۔ بس پھر اٹھ نہیں سکی، رات کے تین بجے تک۔ غزالہ باجی میرے سامنے والی کرسی پر آ کے بیٹھ گئیں اورمجھ سے میرے بارے میں پوچھنے لگیں۔ عابدہ کی بہن ساجدہ سے بھی میرا تعارف ہوا۔ ہر طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ ہماری آوازیں سن کے اور لوگ بھی آ گۓ۔ رضوانہ، عابدہ، شفق، غزالہ باجی اوربھی خواتین، جن کے نام میں نہیں لکھ پائی، وہاں بیٹھ کے ہر طرح کے موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے۔ پاکستان، ناروے، بچوں اور خواتین کے حقوق اور مسائل، دونوں معاشروں کا تفاوت، پاکستانیوں کے ناروے میں مسائل، بچوں کی پیدائش سے لے کر تعلیم وتربیت اور شادی تک کے مراحل، نارویجین معاشرے اور ریاست کا کردار،این جی اوز اور ان کا کردار، سب کی ذاتی زندگی کے واقعات اور تجربات،نوواردوں کی مشکلات اور جدوجہد، الغرض ہر بات کی گئی۔ نیند کب کی اڑ چکی تھی اور گفتگو کے ساتھ میز پر موجود نمکو،بسکٹ اور پھل بھی کھاۓ جا رہے تھے۔ گفتگو ختم نہیں ہونے والی تھی لیکن اگر میرے رات بھر جاگنے کی خبر میرے شوہر نامدار کو ہو جاتی تو دوبارہ کبھی اس طرح باہر نکلنے کی اجازت نہ ملتی۔ اس لیے تقریبا تین بجے کے قریب میں نے سب دوستوں سے اجازت طلب کی اور اپنے کمرے میں آگئی۔ بن یامین کب کا سو چکا تھا۔اگلے دن صبح ناشتہ بنانے والی ٹیم میں میرا نام بھی شامل تھا۔اس لیےصبح ساڑےسات بجے کا الارم لگا کے بستر پہ دراز ہوگئی۔ رضوانہ اور عابدہ کب کمرے میں آئیں مجھے خبر نہیں البتہ انہوں نے میرے خراٹے ضرور سنے ہونگے۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں