یوں ہی پڑا رہوں میں درِ اعتبار پر

افتخار راغبؔ
دوحہ قطر

غزل

یوں ہی پڑا رہوں میں درِ اعتبار پر
گردش کرے حیات وفا کے مدار پر

پتّھر بہ صد خلوص رہیں آئنے کے سنگ
شبنم کے قطرے رقص کریں نوکِ خار پر

جی چاہتا ہے آنکھیں مری اشک بار ہوں
الزامِ التفات لگے چشمِ یار پر

کتنی توقّعات ہیں وابستہ آپ سے
کیا رفتہ رفتہ سب کو پہنچنا ہے دار پر

کتنا ہے دھیان کام پہ کچھ غور کیجیے
کتنی توجّہ صرف ہوئی اشتہار پر

کب تک ہواے زرد کی یہ زرد رنگیاں
کچھ التفات ابرِ کرم سبزہ زار پر

مجھ سے ہٹے نہ چشمِ توجّہ تری کبھی
لبیک دل کے لب سے کہوں ہر پکار پر

مختاریت کا لطف کہاں عشق کو نصیب
پہرا نگاہِ یار کا ہر اختیار پر

راغبؔ خودی کے رُخ پہ رہے دائمی دمک
دستارِ انکسار سرِ افتخار پر

اپنا تبصرہ لکھیں