ہم جنس پرستی ایک مہلک وباء‎

تحریر۔ طارق محمود علوی اور عقیل قادر اوسلو۔ناروے
Aqil Qadir 1
ہم جنس پرستی کے حق میں  مختلف ملکوں میں قانون بن رہے ہیں اور پاکستان میں بھی کچھ حلقے اس کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔ مسلمان یہ مت بھولیں کہ ہم اللہ پاک کے بنائے ہوئے قانون کے پابند ہیں اور اسی میں خیر ہے ، مغرب کے بنائے ہوئے کلچر کی پیروی ہمیں جہنم میں اور عذاب کی طرف لے جائے گی۔ فحاشی کا دور دورہ ہے۔ ہر قسم کی فحاشی انٹرنیٹ کے ذریعے ہر بندے کی پہنچ میں ہے ایسے حالات میں اسلامی نقطہ نظر سے اگاہ ہونا بے حد ضروری ہے۔
ہم جنس پرستی وہ قابل نفرت اور خلاف فطرت فعل ہے جس کی ابتداء حضرت لوط علیہ السلام کی 
   قوم نے کی جس کا قرآن پاک میں بھی ذکر کیا گیا ہے ۔پچھلے دس سے بیس سالوں  میں تمام مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کو جائز قرار دینے کے لیے قانون سازی کی گئی اور اسے انسانی حقوق، آزادی، برداشت اور جدیدیت کے نام پر اسکے فروغ کے لیے کام جاری ہے جبکہ اس کے جراثیم مسلم ممالک باالخصوص پاکستان میں مغربی معاشرے سے متاثرہ خواتین و حضرات میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں ہم جنس پرستوں کی تعداد ایک کڑوڑ کے قریب ہے۔ اس برائی میں پائے جانے والے افراد اپنے عمل کی توجیہ کے لیے کہتے ہیں کہ یہ ایک فطری عمل ہے جبکہ قرآن پاک میں اسے گناہ کبیرہ اور برائی سے تعبیر کیا گیا اور مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا اس بات پر یقین ہے کہ اللہ پاک انسانی فطرت میں وہ چیز نہیں رکھ سکتا جسے وہ خود برائی سے تعبیر کرتا ہو۔ انسان نہ تو ہم جنس پرست پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی ہم جنس پرستی کے سبب دنیا میں آتا ہے۔ انسان فطری اور طبعی طور پر اپنے صنف مخالف کی طرف میلان رکھتا ہے اور یہ میلان ہی انسانی نسل کی بقاء کا ضامن ہے۔ آئیے ہم قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ پاک ہم جنس پرستی کے بارے میں کیا فرماتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ ؕ قُلۡ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الۡہُدٰی ؕ وَ لَئِنِ اتَّبَعۡتَ اَہۡوَآءَہُمۡ بَعۡدَ الَّذِیۡ جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ ۙ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۲۰﴾ؔ اور یہود و نصارٰی آپ سے (اس وقت تک) ہرگز خوش نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار نہ کر لیں، آپ فرما دیں کہ بیشک اللہ کی (عطا کردہ) ہدایت ہی (حقیقی) ہدایت ہے، (امت کی تعلیم …کے لئے فرمایا:) اور اگر (بفرضِ محال) آپ نے اس علم کے بعد جو آپ کے پاس (اللہ کی طرف سے) آچکا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لئے اللہ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار۔[2:120] Al-Baqarah-الْبَقَرَة ۔
حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی کہ۔
[26:169] Al-Shu‘arā- ﴿۱۶۹﴾ اے رب! تو مجھے اور میرے گھر والوں کو اس (کام کے وبال) سے نجات عطا فرما جو یہ کر رہے ہیں۔
[26:170] Al-Shu‘arā-ا ﴿۱۷۰﴾ۙ پس ہم نے ان کو اور ان کے سب گھر والوں کو نجات عطا فرما دی۔”
[26:172] Al-Shu‘arā-ا ﴿۱۷۲﴾ۚ پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا۔”

[7:28] Al-A‘rāf-الْأَعْرَاف “‏وَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً قَالُوۡا وَجَدۡنَا عَلَیۡہَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا ؕ قُلۡ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ ؕ اَتَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۸﴾‏ ‏اور جب وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں (تو) کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی (طریقہ) پر پایا اور اﷲ نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ فرما دیجئے کہ اﷲ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم اﷲ (کی ذات) پر ایسی باتیں کرتے ہو جو تم خود (بھی) نہیں جانتے۔‏”

[7:81] Al-A‘rāf-Humjins (1)11
﴿۸۱﴾‏ ‏بیشک تم نفسانی خواہش کے لئے عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں کے پاس آتے ہو بلکہ تم حد سے گزر جانے والے ہو۔

[7:83] Al-A‘rāf-الْأَعْرَاف “‏فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَہٗ ۫ۖ کَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ ﴿۸۳﴾‏ ‏پس ہم نے ان کو (یعنی لوط علیہ السلام کو) اور ان کے اہلِ خانہ کو نجات دے دی سوائے ان کی بیوی کے، وہ عذاب میں پڑے رہنے والوں میں سے تھی۔ قرآن پاک سے تمام حوالاجات ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری صاحب کے ترجمہ قرآن عرفان القرآن سے لیے گئے ہیں۔

آئیے قارئین اب ہم حدیث مصطفیﷺ کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیسے

ایک مسلمان مرد اور عورت کا جسمانی تعلق صرف اس کی بیوی اور خاوند تک ہو سکتا ہے۔ ایک اور بہت بڑی غلط فہمی جس کی طرف نوجوان نسل کو بچانا ہے اور ان میں اس کی اہمیت اور آگاہی پیدا کرنی ہے وہ یہ ہے کہ بیوی سے کس طرح سے تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔ اسلام نے دو چیزیں سختی سے منع کی ہیں
1۔ بیوی سے اس وقت ازدواجی تعلق قائم نہیں کرنا جب وہ حیض کی حالت میں ہو۔ جب تک وہ نہا کر صاف ستھری نہ ہو جائے اس سے ہم بستری نہیں کرنی۔
2۔ بیوی سے تعلق قائم کرنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ اور وہ اگلا راستہ ہے پچھلے راستے سے تعلق قائم کرنا شدید گناہ ہے اور عذاب کا موجب ہے۔
ابن المکندر کا بیان ہے کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہود کہا کرتے تھے کہ جو آدمی پیچھے کی جانب سے عورت کے ساتھ جماع کرتا ہے، تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ بھینگا ہوتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی
نِسَـآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّـکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ط وَاتَّقُوا اﷲَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْه ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo البقرة، 2: 223
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں اس لیے تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ، اور اپنے لیے آئندہ کا کچھ سامان کر لو۔ اور اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ تم اس کے حضور پیش ہونے والے ہو، اور (اے حبیب!) آپ اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیں (کہ اﷲ کے حضور ان کی پیشی بہتر رہے گی)۔
(کھیتی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں جب بیج بویا جائے تو فصل اگتی ہے، یعنی جس راستے تعلق قائم کرنے سے بچہ پیدا ہو، دوسری نہیں)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے حضرت عمر رضیٰ اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضر خدمت ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! میں ہلاک ہوگیا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہیں کس چیز نے ہلاک کیا؟ عرض کیا گذشتہ رات میں نے اپنی سواری کا رخ بدل دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلیٰ اللہ عیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ’’نِسَاءکُمْ حَرْثٌ لَکُمْْ‘‘ آگے کی طرف سے آؤ یا پیچھے کی طرف سے ہوکر لیکن پاخانے کی جگہ اور حیض سے بچو۔
ترمذي، السنن، 5: 214
حضرت خزیمہ رضیٰ اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ عورتوں سے ان کے پیچھے کی جگہ میں جماع نہ کرو۔
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 214، رقم: 21914، مؤسسة قرطبة مصر
ترمذي، السنن، 3: 468، رقم: 1164
ابن ماجه، السنن، 1: 619، رقم: 1924
حضرت ابوہریرہ رضیٰ اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ عیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنی بیوی کے پاخانے کے مقام میں صحبت کرنے والا ملعون ہے۔
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 444، رقم: 9731
أبي داؤد، السنن، 2: 249، رقم: 2162، دار الفکر
نسائي، السنن الکبری، 5: 323، رقم: 9015
أبي عوانة، المسند، 3: 85، رقم: 4292
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی بیوی کے پاس اس کی دبر میں جائے، اﷲ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت نہیں کرے گا۔
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 272، رقم: 7670
عبد الرزاق، المصنف،11 :442 ، رقم: 20952، المکتب الاسلامي بیروت
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ا س شخص کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھتا جو کسی مرد یا عورت سے غیر فطری عمل کرے۔
ترمذي، السنن، 3: 469، رقم: 1165
نسائي، السنن الکبری، 5: 320، رقم:
9001 ۔
حب رسول  ایمان کی شرط ہے اس کے بغیر کوئی مومن نہیں ہو سکتا ہے۔ محبت رسول کا تقاضا ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں۔ نبی پاک ﷺ کی آمد سے نہ صرف کائنات مکمل ہوئی بلکہ قافلہ نبوت بھی اختتام پذیر ہوگیا۔ آج ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے اس کی اصل وجہ دین اسلام سے دوری اور آپ ﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہونا ہے۔
اگر ہم نے نبی پاکﷺ کی تعلیمات کو مشعل راہ نہ بنایا تو ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ہوگی۔اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ ہم کو قرآن اور صاحب قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم کو اور ہماری نسئلووں کو شیطان اور بدی کے ہر شَر سے محفوظ رکھے۔ امین۔

اپنا تبصرہ لکھیں