ہائے مرغیاں‎

waseem hyder

وسیم ساحل
*ہماری خوشیوں اور غم میں رشتےداروں سے بھی زیادہ ساتھ دیتی ہیں ’’مرغیاں“۔
*نکاح ہو یا جنازہ،سالگرہ ہو یا برسی مرغیوں کی ٹانگیں کھینچنا ہماری روایت بن چکی ہے۔ ہم لوگوں کے چٹورپن کی وجہ سے کروڑوں مرغیاں انڈے دیئے بغیر ہی ’سفرِ ڈش‘ پہ روانہ ہوجاتی ہیںِ
*جس ڈش میں مرغی اور جس گھر پر بیوی نہ ہو وہ سونا سونا لگتاہے۔
 
*مرغی اور لڑکی پکڑنا بالترتیب بچپن اور جوانی کے کام ہیں۔
*ایک زمانہ تھا محلٌوں میں مرغیاں پھدکتی پھرتی تھیں اب دہشت گرد۔
*وجاہت صرف مردوں میں نہیں مرغوں میں بھی پائ جاتی ہے۔نوابی کلغی والے مرغوں کے پیچھے کئی کئی مرغیاں ماری ماری پھرتی ہیں کہ مرغا کم از کم چونچ ہی لڑالے۔
*میں حیران ہوں مرغیوں کے بھول پن پر کہ برسوں سے نسل کشی کرنے والے انسانوں پر دوبارہ بھروسہ کرلیتی ہیں۔لگتا ہے مرغیوں کو کوسنے اور بددعائیں دینا بھی نہیں آتا ورنہ انسان آج کافی مشکل میں رہتا۔
*مرغی اور انسان میں فرق یہ ہے کہ ایک کی نسل تیزی سے بڑھانے کی کوششیں ہوتی ہیں اور دوسرے کی گھٹانے کی۔
*مرغیوں میں انڈے کی ولدیت نہیں پوچھی جاتی۔ کامیاب انڈہ وہ کہلاتا ہے جو جابروں سے بچ کر چوزہ برآمد کرنے میں کامیاب ہوجائے۔
*اچھے صحت مند چوزے پر چیل اور بلٌی کے علاوہ بعض عورتوں کی بھی نظرِ بد ہوتی ہے۔
*آج کل مرغیوں کے انڈے اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ ہمیں ٹیکس کاٹ کر انڈہ دے رہی ہیں۔
*بانگ دینا اور اذان دینا ہر جوان مرغ اور مؤذن کا فرض ہے۔ اب مرغیاں اور نمازی آئیں نہ آئیں یہ ان کی قسمت
اپنا تبصرہ لکھیں