کھچڑی پکی ہے خوب شگفتہ خیال کی

کھچڑی پکی ہے خوب شگفتہ خیال کی

کھچڑی پکی ہے خوب شگفتہ خیال کی


کھچڑی پکی ہے خوب شگفتہ خیال کی
سو سالٹی غزل بھی ہوئی ہے کمال کی
دولت کی آرزو ہے نہ خواہش ہے مال کی
کھیتی گھنی اگا دے مرے سر پہ بال کی
جب باس نے ڈپٹ کے پکارا تو دوستو
اردو سمجھ میں آگئی مجھ کو تعال کی
ٹوپی پہن کے جاتا ہوں سسرال کیا کروں
رہ جائے کچھ تو آبرو گنتی کے بال کی
چلنے لگا ہے آپ ہی ٹیڑھا مرا قلم
صورت اتارتا ہوں تری چال ڈھال کی
مطلب پرست لوگ ہیں مخلص بنے ہوئے
کیسے رکے گی اب یہ ترقی زوال کی
جاتے ہی اس کے خیر کی برسات ہو گئی
بے شک ہمارے واسطے وہ شخص تھا لکی
کیسی بھی ہو زمین چلا کر ٹریکٹر
حضرت اگا ہی لیتے ہیں غزلیں دھمال کی
ملتا ہوں تم سے رات میں چشمہ اتار کے
تعریف کیا کروں میں تمھارے جمال کی
الٹے ہی آکے چور کو یہ ڈانٹنے لگا
ہمت تو دیکھ لیجئے اس کوتوال کی
جنتا کو لوٹنے کے ارادے سے تو نہیں
سوغات لے کے آئے ہیں جن لوک پال کی
دے کر جواب خود کو میں نیچا دکھاں کیا
بھرمار ہو رہی ہے تو ہو مِسڈ کال کی
راغب وہی مچاتا ہے محفل میں آ کے شور
ہمت نہیں ہے گھر میں جسے قیل و قال کی
افتخار راغب

اپنا تبصرہ لکھیں