ژینت

ژینت

ژینت


قیصر تمکین
سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر شکیل عادل زادہ نے نوے کی دہائی میں اپنے شہرہ آفاق ڈائجسٹ “سب رنگ” میں قیصر تمکین کی کہانی “ژینت” شائع کی تھی۔ “ژینت” ایک جداگانہ نوعیت کی تحریر ہے، سفاک بھی ہے، دلچسپ بھی۔ ع۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک, راقم کی نظر میں اگر یہ عموان بھی ہوتا تو کچھ ایسا برا معلوم نہ ہوتا۔ بچپن میں لڑکے لڑکیوں کا اپنے کسی نوجوان کزن کو آئڈئیل بنا لینا ایک عام سی بات ہے۔ ژینت کا مسئلہ بھی کچھ اسی نوعیت کا تھا۔ ہمارے سامنے اس کی ایک حالیہ مثال تو نواب پٹودی کے اکلوتے چشم و چراغ سیف علی خان کی ہے۔ کرینہ سے دھوم دھام سے شادی کی۔ یہ وہی لڑکی ہے جو چھوٹی سی عمر میں اکیس برس قبل “چھوٹے نواب” کی شادی میں اسٹیج پر دلہن و دولہا کو دیکھنے کے شوق میں چلی گئی تھی۔ روای کے مطابق جب کرنیہ نے نوبیاہتا جوڑے کو مبارکباد دی تو چھوٹے نواب نے جواب میں کہا تھا ” تھینک یو بیٹا”

لکھن اور لندن کے گرد گھومتی اس کہانی کے کردار ایسے ہیں جیسے حقیقی ہوں، انداز بیان سادہ مگر دلنشین ہے۔ کہانی میں دلچسپی کا عنصر آغآز ہی سے قائم ہوجاتا ہے۔ بقول شکیل عادل زادہ، “زینت” میں کیا نہیں ہے، دھیمے دھیمے لہجے میں کیسی سوزش اور شورش ہے، وہ بڑی بڑی بات کیسے چپکے چپکے کہہ جاتے ہیں۔ ژینت اودھ کے کھنڈروں کی بازگشت ہے۔”
واقعہ تو یہ بھی ہوا تھا کہ شکیل عادل زادہ کے جریدے سب رنگ کے جن اراکین   نے انتخاب، کتابت اور پروف ریڈنگ کے دوران “ژینت” کو پڑھا، انہوں نے قیصر تمکین کی درازی عمر کے لیے دعا کی تھی۔ اور اسد محمد خان تو یہ کہہ بیٹھے تھے کہ ” کسی تحریر میں ایسی جاں سوزی ہو ہی نہیں سکتی جب تک مصنف خود اس کا جزو، اس کا کردار نہ ہو۔”

شکیل عادل زادہ کا، قیصر تمکین کے بارے میں کہنا ہے کہ:
“ایک ادیب، ایک آدمی اور ایک صحافی۔ بہت نرم و نازک، نہایت معتبر و محترم۔”

یکم جنوری 1938 کو لکھن میں پیدا ہونے و الے شاعر، ادیب و صحافی شریف احمد قیصر تمکین علوی نے 25 نومبر 2009 کو لیڈز برطانیہ میں آخری سانسیں لیں۔ برطانیہ میں وہ 1965 میں جابسے تھے لیکن تازہ بستیاں آباد کرنے کے باوجود ان کا دل “نکھلئو” ہی میں دھڑکتا رہا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کہنے والے نے کہا کہ لکھن پہلے ایک تہذیب تھا، اب محض ایک شہر ہے۔ گومتی ایک دریا اور شام اودھ بس ایک افسانہ۔ وہ شبستاں نہ پری چہرگاں . . . . جس دن جان عالم پیا تخت سے اترے تھے، لکھن کو اسی دن خزاں نے آلیا تھا۔ نہ جنوں رہا نہ پری رہی یہاں تک کہ شاخ نہال غم بھی کمھلا گئی۔
راقم الحروف کا خیال قدرے مختلف ہے۔ لکھن میں اور کچھ ہو نہ ہو، اردو زبان کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف سید ظفر ہاشمی اور ان کا “گلبن” تو ہے۔ بزم قلم کے لکھنوی احباب گواہ ہیں۔
ایک انٹرویو میں قیصر تمکین سے سوال کیا گیا:

۔ ۔ س : افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ آپ بطور صحافی بھی مختلف اخبارات سے وابستہ رہے ہیں آپ نے اپنی افسانہ نگاری کو صحافتی اثبات سے کس طرح محفوظ رکھا؟

جواب ملاحظہ ہو:
جب کوئی شخص سائیکل سے گر کر کسی حادثے سے دوچار ہوتا ہے تو ایک صحافی اس واقعے کی رپورٹ لکھ کر خبر بنا دیتا ہے اور جب ایسا واقعہ کسی حساس شخص یا لکھنے والے کے ذہن کو جھنجھناکے رکھ دیتا ہے تو پھر وہاں صحافت ختم ہو جاتی ہے اور کہانی آ جاتی ہے ۔ میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ میری کہانیوں میں جرنلزم نہ آئے اور ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی بات کہہ جاں میں نے اس ضمن میں خواجہ احمد عباس اور کرشن چندر سے سبق حاصل کیا ہے کیونکہ یہ دونوں لکھنے والے اپنی کہانیوں میں نعرے بازی کرتے ہیں اور اپنی بات ٹھیک سے نہیں کہہ پاتے اور اپنی باتوں کو بڑے خوبصورت پیرائے میں شفیق الرحمن کہہ جاتے ہیں۔ ان کے ایک ایک جملے پر انسان سوچتا رہ جاتا ہے ، فنکار وہی ہوتا ہے جس کی تحریر چونکا دے اور انسان تنہائی میں اس کے بارے میں سوچتا رہے جب کوئی شخص مشاعرے میں جاتا ہے تو وہ کئی اشعار سن کر واہ واہ کرتا ہے لیکن دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا وہ اشعار اسے تنہائی میں بھی یاد آتے ہیں۔ تنہائی میں تو صرف غالب یاد آتا ہے، اقبال یاد آتا ہے۔
قیصر تمکین کی تخلیقات میں مندرجہ ذیل کتب شامل ہیں:
جگ ہنسائی (افسانے) 1957
سواستگا (افسانے) 1987
اللہ کے بندے (افسانے) 1989
یروشلم، یروشلم (افسانے) 1993
او یاسمین (افسانے) 1997
شعر و نظر (تنقید) 1997
صدی کے موڑ پر – افسانے
پس نوشت – افسانے

کفن کھسوٹ کو قیصر تمکین اپنا بہترین افسانہ قرار دیتے ہیں۔ کفن کھسوٹ، بریڈ فورڈ کے مجلے مخزن کے دوسرے (2002) شمارے میں شائع ہوا تھا۔

ان کے علاوہ قیصر تمکین نے اپنی خودنوشت بھی “خبر گیر” کے عنوان سے تحریر کی۔ خبر گیر، اورینٹ پبلشر لاہور سے جون 1987 میں شایع ہوئی تھی۔

“ژینت” پیش خدمت ہے۔ ایسے سینکڑوں فن پارے “ڈائجسٹی ادب” میں بکھرے پڑے ہیں۔ وہ ڈائجسٹی ادب جسے ادب عالیہ کے سنگھاسن کے قدموں تلے بھی کہیں جگہ نہ ملی، یہ الگ بات ہے کہ یہ معتوب ادب اپنے لاکھوں قارئین کو زبان سکھا گیا۔

خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے

اپنا تبصرہ لکھیں