”پیسے کا حساب”

بات وات
ارم ہاشمی
”پیسے کا حساب”
سرِشام ماسٹر صاحب ٹیوشن پڑھانے آیا کرتے ہیں۔
جب سے ہم دنیا میں تشریف لائے ”پیسہ” اپنی قدر کھو چکا ہے اب ”روپے”کا زمانہ ہے مگر ماسٹر صاحب اب بھی ”پیسے”کا حساب لیا کرتے ہیں۔
”10تک گن۔۔۔صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔جی چاہتا ہے کہ ایک ہتھوڑی لے کرکھٹاک کھٹاک ماسٹر صاحب کے سر پہ 100تک گن دیں۔حساب کے عبارتی سوال جان کو آگئے ہیں اوربے طرح روح کو جھنجوڑیاں دے ڈالتے ہیں۔
”اگر 50 پیسے کی دو نارنگیاں ہوں تو5روپے کی کتنی؟
50پیسے میں دو نارنگیاں؟؟(آپ خود ہی بتائیے ایسے ماسٹر صاحب سے پڑھنے کا فائدہ؟)بازار سے اب50روپے میں دو نارنگیاں آیا کرتی ہیں۔
تڑ سے چانٹا پڑتا۔”اچھاسُن اگر تجھے 500روپے دئیے جائیں تو کتنی نارنگیاں خریدے گی؟
سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔اگر خدا کی قدرت جوش مارتی ہے۔اور واقعی 500روپے مل جاتا ہے تو بھلا پاگل ہوئے ہیں جو کھٹی چونا نارنگیاں لیں؟ماسٹر صاحب تو سدا کے سڑیل ہیں خواہ مخواہ کھٹی نارنگیاں خریدواتے ہیں۔ہم کبھو کا فیصلہ کئے بیٹھے ہیں جب کبھی اتنے روپے ملے ہم پستہ خریدیں گے۔
”بول!کتنی نارنگیاں آئیں گی؟”
”نارنگیاں۔۔آں ۔۔وہ”ابھی ہم فیصلہ بھی نہیں کر چکتے کہ نارنگیاں لیںیاپستے کے لئے روپے اٹھا رکھیں کہ ماسٹر صاحب بے صبرے ہو جاتے ہیں۔
”کوڑھ مغز ۔۔ارے ہاں نارنگیاں۔۔50 پیسے کی دو نارنگیاں تو5روپے کی کتنی؟
20..20نارنگیاں۔۔۔
”ہاں اب پیسے بنا”۔
پیسے سے کب کچھ ملتا ہے؟ لیکن ماسٹر صاحب کے سامنے ”نہ”کی اجازت نہیں۔مجبورا پیسے بنانے لگتے ہیں۔
خاصے ڈھیر سے ہوں گے 5ٰروپے کے پیسے اور کیا۔۔۔یاد آیا پچھلی بار عید پہ 400روپے ملے تھے۔ہم خوشی سے بے قابوہو گئے۔مگر جب اماں نے کسی کام سے 100روپے مانگے تو جان ہی نکل گئی تھی۔اماں نادہندہ رہتی ہیں۔جہاں کسی کے پاس رقم دیکھی ان پر غریبی چھا گئی پھر واپس دینے کی نوبت نہیں آتی۔کون ہے جو ان سے تقاضا بھی کر سکے۔
”بول بھی اب۔۔۔5روپے کے کتنے پیسے ہوئے؟”
5روپے کے؟
”ہاں ۔۔نالائق”
35پیسے۔۔۔
ماسٹر صاحب کے اٹھے ہوئے ہاتھ سے بچنے کے لئے جھٹ بول اٹھتے ہیں لیکن ماسٹر صاحب پہ بھوت سوار ہو چکتا ہے جیسے کسی نے 35پیسے دے کر انھیںٹھگ لیا ہو۔پھروہ تین چار چانٹے مارنے کے بعد خود ہی پیسے بنا لیا کرتے ہیں۔
”اچھا اب تو ُبازار جاتی ہے”۔
ہاں۔۔۔گو یقین تھا کہ اماں کبھی بازار نہ جانے دی گی۔جب سے نکڑ کی مسجد میں بم پھٹا ہے ابا بھی کم کم ہی نکلتے ہیں لیکن ماسٹر صاحب کے اٹھتے ہاتھوں سے ڈر کر فرض کرنا ہی پڑتا ہے۔
”اب تُو وہاں 50 پیسے کی دو نارنگیاں خریدتی ہے”
چہ۔۔پھر وہی کٹھی نارنگیاں۔۔منہ کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے خیر! مجبورا خریدنی پڑتی ہیں۔
”کتنی ہوئیں؟”
نارنگیاں؟
”اور تیرا سر۔۔بتا کتنی نارنگیاں آئیں گی؟”
تین۔۔۔ہچکچا کر سوچتے۔”تین نارنگیاں ”بڑے وثوق سے کہتے ہیں۔
50پیسے میں تین نارنگیاں؟ماسٹر صاحب کا تھپڑ پڑتا ہے۔
نہیں۔۔نہیں
”تو پھر بتا”
اسی حساب میںشام ہو جاتی ہے اور ماسٹر صاحب تھکن سے نڈھا ل واپس لوٹ جایاکرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں