میں اولاد پر بوجھ ہوں شاید !

ہوراحیلہ ایک خاتون کیساتھ میرے کمے میں آکر کہنے لگی ابو!یہ گل جانہ ہیں ہماری پڑوسی اپنے بھائی اور بھابھی کیساتھ رہتی ہیں ۔آپ سے ملنے کی خواہش مند ہیں ۔میں احتراماً کھڑا ہوگیا وہ میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں راحیلہ یہ کہتے ہوئے چلیں گئیں ابو !آپ ملاقات کریں میں چائے لے کر آتی ہوں ۔خاتون مذہبی لباس میں ملبوس کوئی 50سال کے لگ بھگ تھیں ۔خاتون کہنے لگیں میں آپ کو آپ کی تحریروں میں پڑھتی ہوں آپ کی ہر تحریر معاشرتی دکھوں کی نشاندہی اور اُن پر مرہم کی تصویر ہوتی ہے آپ کے مذہبی ،معاشرتی احساسات سے متاثر ہوں میں بھی لکھا کرتی تھی جب پاکستان میں ایک سکول کی پرنسپل تھی ۔میں نے والدین سے محبت میں والدین کی خدمت کیلئے خود کو وقف کیا تھا ۔والدین کے مجبور کرنے کے باوجود میں نے شادی نہیں کی میری سوچ کے مطابق عمررسیدہ والدین کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے ۔میرے بھائی امریکہ میں تھے اس لے میرے والدین کو میری ضرورت تھی ،تین سال قبل والدہ انتقال کر گئیں تو ذمہ داری کے بوجھ کا احساس ہوا ،میں والد کی خدمت میں گم ہوگئی ۔میرے سوا اُن کا دوسرا تھا ہی کون ۔رشتے اُس وقت تک اپنے تھے جب تک والد سرکاری ملازم تھے ۔میں نے ملازمت چھوڑدی ابو کی پنشن سے گھرچل رہا تھا ابو بضد تھے کہ میں شادی کر لوں لیکن اگر میں شادی کر لیتی تو ابو کا کیاکرتی اور جب ابو کو فالج کا دورہ پڑا تو اُن کی زندگی چارپائی تک محدود ہو کر رہ گئی اُ س وقت احساس ہوا کہ عورت اور مرد کو زندگی کے آخری عشرے میں ایک دوسرے کی ضرورت کی کیا اہمیت ہوتی ہے میں بیٹی تھی لیکن تیمارداری میں اکثر اوقات ابو رونے لگتے تھے میں کہتی ابو میں آپ کی بیٹی ہوں ،آپ کچھ بھی محسوس نہ کریں خدمت میرا فرض ہت یہ میری عبادت ہے بس دعا کریں ۔
بھائی اپنی بیوی کیساتھ یہاں امرکہ میں تھے میں تنہاءتھی تنہائی کو سوچتی لیکن اپنے ابو کے کمرے کو گلشن کی طرح سجائے رکھا ،تیماردارآتے اور کہتے بیٹی ہو تو ایسی ،میرے ابو مسکراتے اور خوشی سے میرے پر پھیل جاتے ،وہ دن میری زند گی کا انتہائی المناک تھا جب ابو جی کی زندگی نے اُس کا ساتھ چھوڑدیا یہ کہتے ہوئے خاتون آبدیدہ ہوگئیں میری آنکھیں بھی بھیگ گئیں ۔راحیلہ چائے لے کر آگئیں ہمیں دیکھ کر کہنے لگیں باتوں کیلئے کہا تھا رونے کیلئے نہیں ،اچھے بچے رویا نہیں کرتے اور ہم دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ کھیل گئی۔راحیلہ اور گل جانہ کی آنکھیں ملیں تو گل جانہ شرما سی گئیں ۔راحیلہ چائے بنا کر چلی گئیں تو گل جانہ کہنے لگیں میں والدین کی اکلوتی بیٹی اور ایک بھائی کی چھوٹی بہن ہوں میرے بھائی نے میرے لےے وہ سب کچھ کیا جو بہن کا بھائی پر حق ہے لیکن میرے بھائی کا مزاج میرے بھائی سے بالکل مختلف ہے ۔بھائی نے امریکہ بُلالیا اور گذشتہ چھ ماہ کے دوران میں نے بھابی کو جس رو پ میں دیکھا ناقابل بیان ہے بھائی جان مجبور ہیں اور میں محصور ،بھائی اور بھابی کی خدمت کرتے ہوئے میں خوش ہوں لیکن گھر میں میری حیثیت ملازمہ سے کم نہیں اور میں اُس وقت ٹوٹ کر بکھر جاتی ہوں جب میری انا مجروح ہوتی ہے ۔کل کا علم نہیں لیکن میں اپنے آج میں پریشان ہوں ۔راحیلہ میرے دکھ کو بخوبی جانتی ہیں مجھے وہ بات نہیں کرنی چاہےے جو میں کہنے جارہی ہوں گل جی مجھے سہارے کی ضرورت ہے اور میں جانتی ہوں کہ آپ مجھے سہارا دے سکتے ہیں ۔
میں نے گل جانہ کی شخصیت کا جائزہ لیا اُس کے چہرے پر لکھی تحریر اور آنکھوں میں التجاءکو میں نے پڑھا اور محسوس بھی کیا لیکن میں نے کہا گل جانہ آپ بخوبی جانتی ہیں کہ میں اگر چاہوں بھی تو آپ کو سہارا نہیں دے سکتا ۔شریک ِحیات کی وفات کے بعد میں تنہاءتھا اس لے میرے بیٹے شہزاد نے مجھے یہاں بُلالیا راحیلہ میری بہو ہے لیکن میری نظر میں میرے احساس میں میری بیٹی سے کم نہیں اس کے باوجود مجھے احساس ہے کہ میں اپنے بیٹے اور بہو پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتا ۔گل جانہ کہنے لگی میں کب کہہ رہی ہوں ،میں بھی نہیں چاہتی اس لےے کہ مشرقی معاشرے میں ایسے سہارے عام طور پر مشکوک ہوتے ہیں ۔وہ کچھ دیر خاموش رہیں ۔میں اُسے دیکھ رہا تھا وہ سر جھکائے بولیں ممکن ہو تو آپ مجھے اپنی زوجیت میں لے لیں ۔میں کانپ گیا ،کیا کہہ رہی میں آپ ،میں زندگی کے آخری عشرے میں ہوں ،سوچا ہے آپ نے؟سوچ کر ہی بات کی ہے گل جانہ بولی!لیکن آپ جانتی ہیں بحیثیت شوہر میرے پاس تمہیں دینے کیلئے کچھ نہیں ۔
جانتی ہوں مجھے اس عمر میں سہارے کے علاوہ کسی بھی چیز اور حق کی کوئی ضرورت نہیں میں نے اپنے جذبات کو اُس وقت نہیں سوچا جب میں جوان تھی اپنے حصے کی جائیداد ابوجی کے علاج کیلئے فروخت کر دی تھی ۔تن پر کپڑے ہیں عزت نفس کے علاوہ میں بھی خالی ہاتھ ہوں ،اس سے قبل کہ میں کوئی جواب دیتا وہ کہنے لگی اپنے مذہبی معاشرے میں زندگی کا آخری عشرہ زادِ راہ کیلئے عبادت میں گزارنا چاہتی ہوں ۔پہلے ابو کی خدمت کی اب شوہر کی خدمت چاہتی ہوں ۔راحیلہ میرے بیٹے شہزاد اور ایک شخص کیساتھ آئی اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی شہزاد کہنے لگا یہ گل جانہ کے بھائی گل زمان ہیں گل جانہ اور ہم تینوں میں بات ہوچکی ہے یہ ہمارا مشترکہ فیصلہ اور خواہش ہے مسئلہ درپیش تھا بات کون کرے گل زمان اپنی بہن سے بہت پیار کرتا ہے لیکن اس کی بیوی نے گل جانہ کو اُس کا مقام نہیں دیا ۔آپ سے بات کا ارادہ تھا لیکن ڈرتے تھے کہ کہیں آپ یہ محسوس نہ کریں کہ میں اولاد پر بوجھ بن گیا ہوںشاید!اس لےے گل جانہ کو خود بات کرنے پر مجبور کیا ۔گل زمان کہنے لگا میری بہن کو سہارے کی ضرورت ہے میں اس اعزاز سے محروم کیا جارہا ہوں میں اپنے گھر میں اپنی بہن کو وہ مقام نہین دے سکا جس کی یہ حقدار ہیں ۔میں نے چاروں کا بغور جائزہ لیا میں اپنی نشست پر سے اُٹھا ۔چاروں سرجھکائے احتراماًمیرے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اگر آپ یہی چاہتے ہیں تو مجھے منظور ہے ،چاروں کے چہرے کھل اُٹھے ،راحیلہ آگے آئیں ۔ابو پھر دیر کس بات کی وہ دوپٹے میں چھپائے مٹھائی کا ڈبہ کھولتے ہوئے بولی یہ لیں منہ میٹھا کرلیں گل جانہ شرماگئیں اور تینوں بچے مجھ سے بچوں کی طرح لپٹ گئے ۔

میں اولاد پر بوجھ ہوں شاید !“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں