شادی نا پسند کی

  1. صدف مرزا کوپن ہیگن
    حصہ اول

یک نا مکمل کہانی…. یورپ کی فضائوں سے…
…………
اس نے قصوروار بچے کی طرح جھجکتے ہوئے کہا
“”میرا چکن کے پکوڑے کھانے کو جی چاہتا ہے””
میں اس کی منمناتی اواز اور عجیب منحوس سی صورت سے نفرت کی حد تک بیزار تھا
تو میں باورچی ہوں ؟
میں نے جھلا کر کہا…..
جائو کھائو مرو جو جی چاہے…
جملے کا دوسرا حصہ میں نے دل ہی دل میں چیخ کر کہا
اس کے خطرناک حد تک زرد چہرے پر مزید مردنی چھا گئی.
کچھ دیر تک وہ پلنگ کے کونے پر زبردستی ٹکی رہی….
پھر۔۔۔۔
مردہ قدموں سے اٹھ کر چلدی
میں نے چونک کر اس کو دیکھا وہ عام لڑکیوں کی نسبت زیادہ دراز قد تھی۔اس کی بے حد دراز چٹیا کسی گائے بھینس کی طرح کمر پر لہراتی تھی۔
پتا نہیں ایشیائی ادب اس بد مزاق حسن پر کیسے لکھتا ہے۔۔۔ اور سرداروں کے بھنگڑوں میں بھی یہ گائے کی دم کیسے لہراتی رہتی ہے.
تو یہ عورت جسے ابا اپنا شملہ اونچا رکھنے کے لیے۔۔۔ گائوں میں واہ واہ کروانے۔۔۔ اور اپنے بھائی کو احسا ن مند کرنے کے لیے یہاں لے آئے تھے … تھی توخاصی حسین . ۔۔۔۔
اور اگر ہمارے والدین اسے زبردستی میرے سر نہ منڈتے تو اس پر یقینا کوئی نہ کوئی عاشق ہو سکتا تھا۔۔
میں چونک کر اس بے ڈھب سی لڑکی کو دیکھتا رہا.
اس کی چال میں ایک بھاری پن تھا۔

بات سنو.

اس کے قدم میری اچانک آواز سے تھم سے گئے ۔۔۔
لیکن وہ مڑی نہیں…
ادھر آئو…
وہ بیرونی دروازے کی طرف منہ کیے کھڑی رہی…
میں اٹھ کر اس کے مقابل جا کھڑا ہوا اور غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔۔۔
اوہ مائی گاڈ..
یو پریگننٹ ؟
میں نے جلدی جلدی دل میں حساب لگایا…
آخری دفعہ میں کرسمس کی چھٹیوں پر مانچسٹر آیا تھا۔۔۔
اور شاید اس دن میں کچھ زیادہ ہی پی گیا تھا۔۔.
ابا کی یہ بھتیجی میرے ہی کمرے میں سوتی تھی۔۔۔یہ مجھے بعد میں علم ہوا جب میں گھر آتا تب وہ اس کمرے میں سونے آتی ورنہ اوپر بنی چھوٹی سی اٹک میں …
اس رات شاید میں نے اسے نیم خوابیدہ و نیم بیداری کی حالت میں کہہ دیا تھا۔۔
“” بات سنو””
اور پھر۔۔ نشہ اترتے ہی بات آئی گئی بھی ہو گئی. کچھ یاد رکھنے کے قابل ہوتا تو خیال بھی آتا
اب ایسٹر کی چھٹیوں میں اسے دیکھ کر میرا چونکنا لازمی تھا۔۔۔
مجھے کسی نے کچھ بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔۔. ابا اسی بات پر خوش تھے کہ میں نے ان کے جبر پر ہتھیار ڈالتے ہوئے نکاح کر لیا ہے … میرے رسے تڑا نے کی سب کوششیں ناکام تھیں۔۔.
ان کی ایک ہی رٹ تھی کہ نکاح کر لو اسے یہاں لے آئو باقی زمہ داری ہماری.
اماں اس بات پر خوش تھیں کہ میں ابا کی بھتیجی کو در خور اعتنا نہیں سمجھتا۔۔
وہ گھر میں ایسا اضافہ تھی۔۔جیسے کوئی نئی اور اضافی میز کرسی آجائے.
میرا اس سے کوئی سروکار نہیں تھا. وہ کیا پہنتی ہے
کیا کھاتی ہے
کیا کرتی ہے

….جاری ہے۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں