سری لنکاکی بلند چوٹی کوہ آدم یا سمندر کا ہیرا

adams peakadam33
adam55تحریر سرور منیر رائو
سری لنکا میں کوہ آدم کی چوٹی جہاں ایک پتھرپر انسانی پائوں کا نقش موجود ہے کے حوالے سے مختلف مذاہب کے لوگ مختلف روائتیں بیان کرتے ہیں۔سری لنکا کی پہاڑی چوٹی پر پائوں کے نشان کوحضرت آدم علیہ السلام کے نقش پا سے منسو ب کیا جاتا ہے۔اسے کوہ آدم یا آدم کی چوٹی کا نام بھی دیاجاتاہے۔اس پہاڑ کو سراندیپ بھی کہاجاتا ہے۔
سات ہزارتین سو فٹ بلند یہ چوٹی سری لنکا کے دارلحکومت کو لمبو سے دو سو بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔سری لنکا کے ضلع رتنا پور میںواقع اس چوٹی تک پہنچنے کے لیے کولمبو سے کینڈی اور پھر ڈلہوزی آنا پڑتا ہے۔ڈلہوزی شہر کے قریب سے یہ پہاڑی شروع ہوتی ہے۔
کوہ آدم کی پہاڑی سری لنکا کی دوسری بڑی پہاڑی ہے۔اس چوٹی میں ایک گڑہا بنا ہوا ہے جو پانچ فٹ سات انچ لمبا اور دو فٹ سات انچ چوڑا ہے۔اس گڑہے میں ایک پائوں کا نقش ہے۔جو تقریباً پانچ فٹ لمبا اور دو فٹ چوڑا ہے۔اس نقش کی لمبائی اور چوڑائی سے کسی انسان کے جسم کے قد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو کہ پینتیس فٹ ہے۔
بہت سے مسلمانوں کے ننزدیک یہ نقش پاحضرت آدم علیہ السلام کا ہے ۔بدھ مت کے مطابق یہ نشان بدھا کا ہے۔اور ہندو دھرم کے مطابق یہ نشان سیوا جی کا ہے۔ایشیاء کے بعض عیسائی اسے سینٹ تھامس Saint Thomas کا معجزہ قراردیتے ہیں۔الغرض دنیا بھر کے ذائرین اور سیاح یہاں کی رونق دوبالا کرتے ہیںاور یہاں کی تجارت پر خوشگور اثرڈالتے ہیں ۔جشن کے دنوں میںساحل پہ کھڑے ہو کے دیکھا جائے تو چوٹی صاف اور نمایا نظر آتی ہے۔جب کہ سال کے باقی دنوں میںیہ اتنی دور سے نظر نہیں آتی۔گو کہ یہ موسمی تبدیلیوں کا اثر ہوتا ہے لیکن مقامی باشندوں میں اس کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور ہیں۔آج کے مواسلاتی دورمیں بھی یہاں تک پہنچنے کے لیے چار گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔مقامی زبان میں اس پہاڑی کو سری پاڈا کہا جاتا ہے۔اور انگریز اسے ایڈمز Adams peak پیک کہتے ہیں۔

adam22
کوہ آدم کے نقش پا تک پہنچنے ک لیے کئی آرام گاہیں بنائی گئی ہیں۔اکثر زائرین یہ سفر را کے وقت کرتے ہیں۔پہاڑ کی بلندی سے دریا کا منظر بھی انتہائی خوبصورت ہے۔طلوع آفتاب کا منظر تابناک ہے۔سورج کی کرنوں میں آسمان کے بدلتے رنگ انتہائی خوشگوار ہوتے ہیں۔زائرین اپنے اپنے عقائد کے مطابق فجر اور طلوع آفتاب کے وقت یہاں عبادات کرتے ہیں۔تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم دور میں تین سو پچیس 325 قبل مسیح میں عظیم فاتح سکندر اعظم اور تیرہ سو پانچ 1305 میںمعروف سیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں اسکا انتہائی دلچسپ پیرائے میں ذکر کیا ہے۔اس کے بیان میںہے کہ میں نے جزیرہء سیلان یعنی سری لنکا آنے کے بعد جزیرہ کے راجہ سے کہا کہ میں قدم شریف کی ذیارت کرنا چاہتا ہوں۔

adam1010adam99
سری لنکا میں آدم کو باوا اور حوا کو ماما کہتے ہیں۔سیلان کے راجہ نے میرے سفر کا اہتما م کیا ۔اس نے کئی غلام ایک ڈولہ اور چار جوگی میرے ہمراہ روانہ کیے۔جوگی ہر سال قدم کی زیارت کو جاتے تھے اس لیے راستے سے خوب واقف تھے۔اس کے علاوہ تین براہمن اور دس اہلکاروں کے علاوہ پندرہ آدمی بھی میرا ڈولہ اٹھانے کے لیے ساتھ روانہ کر دیے۔پانی اس راستے میں بکثرت ہے۔پہلے دن ہم ایک دریا پہ پہنچے اور بید کی بنی ہوئی کشتی میں بیٹھے۔وہاں سے ہم منار منڈلی پہنچے۔اس کے پاس پہاڑ کا دروازہ ہے۔جس کو جبل سرا ندیپ کہتے ہیں۔یہ پہاڑدنیا کے بلند پہاڑوں میں سے ہے۔جب ہم وہاں گئے توبادل ہم سے نیچے تھے۔اس پہاڑپر بہت سے ایسے درخت ہیں جن کے پتے نہیں جھڑتے اوررنگ برنگے نکلتے ہیں۔سرخ گلاب کا پھول ہتھیلی کے برابر ہوتا ہے۔لوگوں کا یقین ہے کہ اس پھول پر اللہ اور رسول ۖ کا نام قلم قدرت سے لکھا ہوا ہے۔
پہاڑکو دو راستے جاتے ہیں ۔ایک کو باپ کا راستہ اوردوسرے کو ماما کا راستہ کہتے ہیں۔یعنی آدم اور حوا کے راستے۔باپ کا راستہ جانے کے لیے اور ماما کا راستہ آنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔باپ کا راستہ دشوار جبکہ ماما کا اراستہ آسان ہے ۔اگر ماماکے راستے سے جائیں تو زائرین کہتے ہیں کہ زیارت ہوئی ہی نہیں۔یہاں دشوارراستے پر زائرین کی سہولت کے لیے سیڑھیاں بنوائی گئی ہیں۔ان سیڑہیوں کو بچانے کے لیے پہاڑ میںمیخیں گاڑی گئی ہیں۔اوردس زنجیریں لٹکائی گئی ہیں۔دسویں زنجیر کو زنجیر شہادت کہتے ہیںاس زنجیرکے پاس پہنچ کر جب مسافر نیچے کی طرف دیکھتا ہے تو خوف سے کلمہء شہادت پڑھنے لگ جاتا ہے۔اس زنجیر کے پاس ہی ایک غار ہے جسے سکندر اعظم سے منسوب کیا جاتاہے ایک چشمہ بھی ہے جہاں سے مچھلیاں پکڑنا آسان نہیں۔
چشمے سے سات میل کے فاصلے پر غار خضر ہے۔یہ غار حضرت خضر علیہ ء السلام سے منسوب ہے۔اس غار سے دو میل اوپر قدم کا نشان ہے۔یہ قدم باوا آدم کے پائوں کا نشان بتایا جاتا ہے۔یہ نقش ایک سخت سیاہ پتھر میں ہے۔قدم کا نقش پتھر کے اندر ہے۔اس کی لمبائی گیارہ بالشت ہے۔
ابن بطوطہ کے مطابق دو ہزاردو سو ترتالیس 2243 میٹر کی بلندی تک پہنچنے کے لیے نو میل کی چڑہائی چڑہنی پڑتی تھی۔چھ میل چڑہائی کے بعد بھی اصل چوٹی نظرنہیں آتی۔اس کے بعد اگر راستے میں مسافر کا ہاتھ چھوٹ جائے تو اس کاکچھ پتہ نہیں چلتا۔اس لیے کہتے ہیں کہ نیچے نہ دیکھیں اور سنبھل کر قدم رکھیں۔اس کے بعد ایک لوہے کا زینہ آتا ہے جو چالیس فٹ اونچا ہے۔یہاں زمین اور سمندر کا نظارہ قابل دید ہے۔بدھ کی سب سے پرانی کتاب مہاوس میںبھی اس قدم کا ذکر ہے۔
مشہور ایرانی شاعر اشرف نے اپنے سکندر نامے میں لکھا ہے کہ جب سکندر اعظم سیلان کی زیارت کے لیے گیا تو اس نے پہاڑ پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بنوائی تھیں۔ابن بطوطہ کی روائیت کے مطابق اس مقام کو باب سکندر کہتے ہیں۔ابن بطوطہ کے مطابق یہاں اہل چین بھی زیارت کے لیے آتے تھے۔یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے چین کے زائرین پائوں کے انگوٹھے کے نشان کا پتھر توڑ کر لے گئے اوراسے چین کے شہر زیتون کے ایک مندر میں جا کر رکھا۔
قدم کے پاس پتھر کے نو گڑھے کھدء ہوئے ہیں۔ہندو زائر ان میں سونا یاقوت موتی اور دوسرے جواہ ڈال دیتے ہیں۔زائرین کا ایک طبقہ جس میں فقیروں کی اکثریت ہے۔ان گڑہوں میں جو کچھ بھی ہو اٹھا لیتے ہیں۔
ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ اہل سیلان میں یہ مشہور ہے کہ ہرشخص کو قدم کی لمبائی اس کے ایمان کے مطابق نظر آتی ہے۔ابو زین بن سیراتی
نے اس کی لمبائی ستر ہاتھ لکھی ہے۔بدھ مذہب کے پیروکار کہتے ہیں کہ بدھا اسی پہاڑ سے آسمان پر چڑہے۔قرآن شریف یا حدیث میں اس قدم کی بابت کوئی سند موجود نہیں ہے۔

adam6
ابن بطوطہ کے زمانے میں سری لنکا کا نام سیلان تھا۔عرب اس خطے کو سراندیپ بھی کہتے ہیں۔سیران سے ہی سیلان کا لفظ بنایا گیا ہے۔خوبصورتی کے باعث اس جزیرے کو سمندر کا ہیرا بھی کہا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں