خالی آرزو سے کب آبرو بڑھتی ہے

خالی آرزو سے کب آبرو بڑھتی ہے

اختر عباس

میں لیپ ٹاپ پر سر جھکائے کافی دیر سے گم سم بیٹھا ہوں۔ میرے دونوں بچے کب کے سوچکے ہیں۔ اہلیہ نے بڑے دُلار سے پوچھا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟ سارے دن کے تھکے آئے تھے اب یقینا ٹی وی نے سردرد کردیا ہوگا…!
میں نے دھیرے سے کہا، ٹی وی نے تو نہیں ۸ ماہ کے لیے نئے وزیراعظم کے انتخاب نے جہاں سردردی عطا کی تھی وہاں ایک اشتہار نے مسرور کردیا ہے اس پر سوچے جا رہا ہوں۔ وہ اپنے رائٹنگ ٹبیل سے افسانہ لکھتے لکھتے اسے ادھورا چھوڑ کر میرے پاس آگئی ہے۔ مجھے اپنے لائف پارٹنر کی مزاج شناسی کی یہ خوبی بے حد عزیز ہے کہ وہ بن کہے جان لیتی ہے کہ کب مجھے کھانے پینے کو کچھ چاہیے اور کب کہنے سننے کو اس کا ساتھ چاہیے۔
اس کے آتے ہی میں نے کہنا شروع کیا ’’میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ میرا بچہ جو بھی بنے پہلے ایک سچا انسان بنے۔‘‘ میرا یہ جملہ سن کر وہ بے اختیار ہنس دی۔ ’’طبیعت واقعی خراب لگتی ہے آپ کی۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوچتی اور کہتی میں نے اسے بتانا شروع کیا یہ ایک انڈین کمرشل کے الفاظ ہیں۔ جسے ٹاٹا سالٹ بنانے والوں نے جاری کیا ہے۔ اللہ جانے کب بنایا۔ میں نے تو ابھی دیکھا ہے اور سرشاری کی کیفیت میں بیٹھا ہوں۔ میں نے کاغذ اٹھا کر اس پر جلدی سے لکھے آدھے پورے وہ لفظ پڑھنے شروع کیے جو اشتہار کے پس منظر میں بولے گئے تھے۔ اشتہار شروع ہوا تو ایک ماں گلاس میں تھوڑا سا نمک ڈالتی ہے۔
’’میں تو بس اتنا چاہتی ہوں کہ میرا بچہ جو بھی بنے پہلے ایک سچا انسان بنے۔‘‘ ۸ – ۱۰ سال کا ایک خوبصورت بچہ باپ کے ساتھ میز پر شطرنج کھیل رہا ہے۔ باپ نمکین لیموں پانی پینے لگتا ہے تو وہ چپکے سے مہرے ہلا کر اپنا مہرا آگے کر دیتا ہے۔ ماں کی آواز آتی ہے، ’’شیطانی کرے، بے ایمانی نہیں۔‘‘ (والد دیکھ کر مسکراتا اور بیٹا مہرہ واپس رکھ دیتا ہے۔) میوزیکل چیئر کا کھیل جاری ہے اور ہمارا ہیرو بچہ ایک چھوٹی لڑکی کو دھکا دے کر کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ ماں کی آواز آتی ہے ’’بدمعاشی کرے لیکن بدمعاش کبھی نہ بنے‘‘ اور وہ بچہ اٹھ کر اسی بچی کو کرسی پر بٹھا دیتا ہے۔ اگلا منظر اور بھی خوبصورت اور دل موہ لینے والا تھا۔ بچہ ایک دکاندار کے پاس کھڑا اور اپنے گلک سے نکال کر اسے پیسے دیتا ہے۔ دکاندار پیسے واپس کرتا ہے وہ زیادہ ہوتے ہیں۔ آواز آتی ہے، ’’اس کی گلک ہمیشہ بھری رہے مگر ایمانداری کے پیسوں سے۔‘‘ بچہ زیادہ ملا ہوا نوٹ واپس کرتا ہے۔ دکاندار خوش ہو کر مسکراتا ہے۔ اب کمپنی کی طرف سے پیغام شروع ہوتا ہے اور کیا لاجواب الفاظ (کاپی رائٹنگ) ہیں۔
’’اگر ہر ماں بچے کو چٹکی بھر ایمانداری روز دے تو دیش تو ایماندار بنے گا ہی۔‘‘ ماں کا مسکراتا چہرہ نمودار ہوتا ہے اور وہ کہتی ہے، ’آخر ہم نے بھی دیش کا نمک کھایا ہے۔‘‘ ’’ٹاٹا نمک۔ دیش کا نمک‘‘ وائو! اس نے بے اختیار داد دی۔ ’’بچوں کو دکھایا؟‘‘ میں نے بتایا ’’تین بار دکھایا، سمجھایا پھر ایک فضول سا اشتہار لگا، تو میں نے ٹی وی ہی بند کردیا۔ ’’ایک بات کہوں‘‘ اس نے معنی خیز انداز میں کہا ’’یہ تو آپ کے میڈیا والوں کو جو ہر خیال اور پروگرام چوری کرتے ہیں سبقاً سبقاً دکھانا چاہیے۔‘‘ ’’اور اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کابینہ کے اجلاس سے لے کر ہر تعلیمی اور کاروباری ادارے کے پالیسی سازوں کو بھی دکھانا اور سنانا چاہیے۔‘‘ میں نے لقمہ دیا۔
٭٭
رات نو دس بجے دفتر سے آ کر میں بالعموم ایک گھنٹہ ٹی وی دیکھتا ہوں۔ ایک زمانہ تھا ٹاک شوز کافی وقت لے جاتے تھے۔ بھلا ہو مہربخاری اور مبشر لقمان جیسے میزبانوں کا کہ انھوں نے اپنے جیسے کتنے پروگراموں کا کریز اور اہمیت ہی ختم کردی۔ راجہ پورس کے ہاتھیوں نے بھی اپنے لشکریوں اور سپہ سالاروں کے ساتھ اس جیسا ہی کچھ کیا ہوگا۔ پلانٹڈ اور پیڈ پروگرام دیکھنے میں بھلا کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ میزبان نے کسی سے پیسے لیے اور مفادات کمائے ہیں تو ایسے میں ناظرین کا کیا قصور کہ وہ آپ کے ارشادات عالیہ بھی سنیں اور آپ کے ممدوح کو بغور دیکھیں بھی۔ اس سے تو وہ اخبار سو درجے اچھے ہیں کہ ایسی سفارشی تصویروں اور خبروں کے نیچے لکھ دیتے ہیں ” اشتہار” یا ” ایڈورٹوریل”۔
میرے دونوں بچے اور میں باجماعت ’’کلر ٹی وی‘‘ کے ڈرامے تب تک دیکھتے ہیں جب تک کمردرد اور پتھر بیچنے کا بازار نہیں سج جاتا یا جب اچانک کوئی انتہائی فضول اشتہار چلنے لگے جس پر میں گھبرا کر چینل بدل دیتا ہوں۔ یہ اٹھنے کا اشارہ ہوتا ہے۔ حالانکہ دل میں کہیں ڈر اور شرمساری بھی ہوتی ہے کہ جاتے جاتے وہ یہ بھی تو سوچ سکتی ہیں کہ بابا اکیلے بیٹھ کر یہ اشتہار دیکھیں گے۔ ممکن ہے وہ کبھی نہ سوچیں صرف میرا ڈر ہی ہو مگر ایسے ڈر سے ڈرنا ہی بہتر ہے۔
میں نے اہلیہ کو بتایا کہ جب سیاسی نجومیوں کے تبصروں، خدشوں اور وسوسوں کی کوفت اور بے زاری سے بھر کر میں اٹھنے والا تھا تو اچانک ’’کلر‘‘ پر ٹاٹا نمک کا اشتہار سامنے آگیا اور میں حیرت سے اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ برسوں بعد کسی اشتہار کے آئیڈئیے، سلوگن اور الفاظ نے اس قدر خوشی دی تھی۔ اشتہار دیکھتے ہی میں نے لیپ ٹاپ آن کیا اور اس سے متعلقہ ساری معلومات ڈھونڈ نکالیں۔ یہ اس سے کہیں کم وقت میں دستیاب ہو گئیں جتنی راجہ پرویز اشرف نے نائین زیرو میں ایک پائوں پر کھڑے ہو کر الطاف بھائی کی تقریر سننے میں گزارے۔ بے چارے پہلی بار خیرسگالی کے لیے گئے اور الطاف بھائی ۴۰ منٹ سے پہلے رکنا ہی بھولے رہے۔
یہ اشتہار عام پاپولر سوچ سے ۱۸۰ ڈگری کے فرق سے بنا تھا۔ ہمارے ہاں بھی کبھی نورس والے بھول نہ جانا پھر پپا، نورس لے کر گھر آنا، کبھی ہمدرد نونہال کے ساتھ اخلاقی پیغام والا کوئی اشتہار ہوتا تھا۔ احمدفوڈ والوں کا جام اور جیلی کا اشتہار یوں شروع ہوتا تھا، ’’صبح سویرے اٹھنا ہے یہ اچھی عادت۔ اللہ کے آگے جھکنا ہے سب سے اچھا کام۔ پھر جام اور جیلی کا نام اور پیغام ہوتا تھا۔ ایک دوبار کراچی سے ٹپال چائے والوں کا بھی اچھا اشتہار آیا تھا مگر ٹیلی فون کی کمپنیوں کے اشتہاروں نے تو سب روایتوں اور قدروں کو بلڈوز کرکے رکھ دیا۔
ٹاٹا جن کا سلوگن ہے “لیڈر وید ٹرسٹ” کوئی چھوٹی موٹی جذباتی کمپنی نہیں ہے۔ ۱۹۳۹ء سے قائم یہ کمپنی اب ۴۰۰ بلین روپے کی قیمت اور ورتھ رکھتی ہے ہر ماہ ٹاٹا نمک کے ۳۰۰ ملین (۳ ہزار لاکھ یعنی ۳۰ کروڑپیکٹس) فروخت ہوتے ہیں۔ ۴۶۴۵ لوگوں کے ساتھ کام کرنے والی ٹاٹا کیمیکلز کا ہیڈآفس ممبئی میں ہے۔ اس کے کارخانے گجرات، مہاراشٹر، یو پی اور مغربی بنگال میں ہیں۔ ۲۰۰۶ء سے ایک کمپنی خریدی جس کے کینیڈا، چیشائر، یوکے اور نیوجرسی (امریکا) میں پلانٹس کام کر رہے تھے۔ ۲۰۰۸ء میں ایک امریکی کمپنی کے ۱۰۰ فیصد شیئر ۴۰۰۰ کروڑ میںخریدنے کے بعد دنیا میں سوڈاایش بنانے والی دوسری بڑی کمپنی بن گئی ہے۔ ۹۵۴۳ کروڑ روپے سالانہ ریونیو کی حامل ٹاٹا پیکٹ نمک بنانے والی بھارت کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس نے اس سال ’’دیش کا نمک‘‘ نام سے کی گئی طاقتور، مؤثر اور منفرد کمپیئن سے نمک کی برانڈ پوزیشننگ ہی بدل دی ہے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اپنے آپ نہیں ہوا۔ ٹاٹا کے نائب صدر سیلز اور مارکیٹنگ کیپل مہرہ نے کہا  ’’یہ درست ہے کہ سالوں سے ہم نمک کے خواص اور فوائد پر ہی فوکس کرتے رہے ہیں۔ ٹاٹا کو بطور لیڈر یہ ضروررت تھی کہ وہ بڑی سوچ کے ساتھ آئے۔ ہم نے جذبات کے ان پہلوئوں کو اس سے جوڑ دیا ہے جو بہت بنیادی اور ضروری ہوتے ہیں۔‘‘ تب اس نے زور دے کر کہا، اس سوچ نے ٹاٹا نمک کو صحت اور ذائقے کی کیٹگری یا شیلف سے اٹھا کر جہاں یہ ہمیشہ سے اپنی ’’پیورٹی‘‘  کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا، اب اسے کروڑوں لوگ
اپنا تبصرہ لکھیں