جانوروں نے دیا ہمیں سبق

ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی شوق ہوتا ہے۔ میرے ایک عزیز دوست کو جانور پالنے کا بہت شوق ہے۔ جانور پالتے پالتے ان کی باتیں بھی سمجھنے اور ان کو سمجھانے لگا۔ ایک دن مضافات میں اس کے گھر پر گیا تو کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کرتے کرتے ہر ملنے والے جانور سے بات کرنے لگا۔ پہلے اس نے بلی سے پوچھا تو کہاں گئی تھی تیرے بچے اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے ایک تو گاڑی کے نیچے آتے آتے بچا ہے۔ بلی بولی آج کل کے نوجوان اتنی تیز رفتار بائیک چلاتے ہیں میں خود اسکوٹر سے مرت مرتے بچی ہوں۔ پنجرے میں بند طوطے سے کہا کھانا کھایا کیا؟ طوطے نے کہا تم نے کھایا کیا؟ مجھے بند کرکے خٰد آزاد گھوم رہے ہو۔ پھر اس نے گلہری کو اپنے پاس بلایا پوچھا کیسی ہو، گلہری نے کہا بچے کلر کا برش بنانے کے لیے میرا بال توڑتے ہیں ان کو منع کرو نہیں تو میں بہت جلد ٹکلی ہوجاؤں گی ہم آگے بڑھے ایک رنگ برنگی چڑیا بیچنے والا پنجرے میں چڑیا بیچ رہا تھا میرے دوست نے چڑیا سے پوچھا تم لوگ کیسے پھنس گئے چڑیا نے کہا پھنستے تو تم لوگ بھی ہو فرق صرف اتنا ہے کہ پرندے اپنی ٹانگ کی وجہ سے جال میں پھنس جاتے ہیں اور انسان اپنی زبان کی وجہ سے پھنس جاتے ہیں۔پھر ایک مرغی دربے میں بیٹھی تھی میرے دوست نے کہا کہ آج دانہ چگنے نہیں گئی مرغی نے کہا دربے سے باہر نکلو تو انڈے چوری ہوجاتے ہیں۔ ہم لوگ ندی کنارے پہنچے ، ایک بھینس ندی میں سے نہا کر نکلی میرے دوست نے اس سے پوچھا ایک کہاوت ہے عقل بڑی یا بھینس تمہیں اس بارے میں کیا کہنا ہے ، بھینس نے کہا سب سے بڑا تو اللہ ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اپنی نعمت سے ہماری تمام ہر ضرورت پوری کرتا ہے۔ ایک چیونٹی اپنے سے زیادہ وزن شکر کے دانے کو لے جارہی تھی میرے دوست نے اس سے سوال کیا تیرے سے زیادہ شکر کا وزن ہے تو اسے کیا اٹھا لیتی ہے اور کہاں لے جارہی ہے چیونٹی نے کہا یہ حوصلے کی بات ہے انسان نہیں سمجھتا میں اپنے گھر جارہی ہوں کیونکہ میری ماں نے نصیحت کی ہے کتنی بھی آندھی طوفان آجائے گھر واپس آجانا ایک تمہاری ماں ہے بچہ گھر پر آتا ہے تو کہتی ہے تیرا گھر نہیں تیرے باپ کا گھر ہے۔ تھوڑا آگے بڑھے تو کبوتر بازی کا مقابلہ ہونے والا تھا۔ آسمان پر اُڑنے والے کبوتر سے میرے دوست نے پوچھا تم کو زمین پر گرنے کا ڈر نہیں ہوتا؟ کبوتر نے جواب دیا میں چاہے کتنی بلندی پر ہو میری نگاہیں زمین پر ہی رہتی ہیں، انسان تھوڑی ہوں ذرا سی بلندی پر جاکر اکڑ جاؤں۔ تھوڑا اور آگے بڑھے تو ایک تندرست بکرا دکھائی دیامیرے دوست نے بکرے سے پوچھا دس دن سے دکھائی نہیں دے رہے تھے کہاں تھے؟ بکرے نے کہا میرا مہربان مالک مجھے سیر کرانے کے لیے ممبئی لے گیا تھا بہت بھیڑ تھی انسان لوگ میرے دانت گن رہے تھے مجھے چلا کر دیکھ رہے تھے میرا وزن دیکھ رہے تھے ، خوبصورت شہر بڑے بڑے ٹاور، فلائی اوور اور رات کو شہر روشنی سے جگ مگ کررہا تھا۔ دس دن تک لوگ مجھے دیکھتے رہے میرا رُکنے کو من کررہا تھا مگر مالک مجھے واپس لے آیا میرے دوست نے کہا بکرا عید کا موقع تھا تیرا مالک تجھے فروخت کرنے کے لیے ممبئی لے کر گیا تھا بکرے کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہنے لگا اتنا اچھا موقع اللہ کی راہ میں قربان ہونے کا چند روپے کے خاطر میرے مالک کی وجہ سے نکل گیا۔ ایک کتا دکھائی دیا میرے دوست نے کتے سے پوچھا انسان کو تیرے سے شکایت ہے کہ تو دیوار پر پیشاب کرتا ہے کتے نے کہا اللہ کا بندہ زمین پر سجدہ کرتا ہے کہیں میرے پیشاب سے زمین ناپاک نہ ہوجائے اس لیے دیوار پر پیشاب کرتا ہوں۔
آصف پلاسٹک والا
ربانی ٹاور، آگری پاڑہ، ممبئی11-
موبائل: 9323793996

اپنا تبصرہ لکھیں