ایک لمحہ اورصدیوں کا سفر !

ایک لمحہ اورصدیوں کا سفر !

تحریر ندیم صدیقی
موت برحق ہے مگر ابنِ آدم بھی عجب تخلیقِ خدا وند ی ہے کہ ان میں سے
بعض اپنی عقل اور حکمت سے موت کو جسمانی طور پر نہ سہی مگر اپنے علم و
کردار سے ایسی مات دیتے ہیں کہ لگتا ہے کہ موت خود آنسو بہا رہی ہے۔
ہماری زبان میں ایک لفظ ہے ” زندگی“ ہمارے اُستادِ معنوی ظ انصاری
مرحوم ایک دن ہم سے کہنے لگے کہ” اکثرلوگ کہتے ہیں زِندگی کے دِن کاٹ رہے
ہیں۔ مورکھوں کو پتہ نہیں کہ زِندگی کسے کہتے ہیں، یہ جو ” زندگی“ کاٹنے
والے ہیں اُنھیں پتہ ہی نہیں کہ وہ زندگی کو نہیں بلکہ زندگی تو خود
انھیں کاٹ رہی ہے۔ میاں! جسے ایک دُنیا زندگی سمجھتی ہے وہ ” زندگی“ نہیں
بلکہ عمر گزاری ہے عمر گزاری۔’ زندگی‘ ایک بڑا لفظ، ایک بڑی چیز ہے ۔ یہ
سب کو کہاں ملتی ہے۔ مگر جسے اُس کی توفیق کی جستجو ہو تو قدرت کی طرف سے
”زندگی“ ایسے ملتی ہے کہ موت بھی اس سے شرمندہ ہو جاتی ہے۔“
اس دُنیا میںجو ذِی نفس آیا ہے اسے موت کا مزا تو بہر حال چکھنا ہی ہے ۔
اس دُنیا کو ہزارہا ہزار سال ہو چکے ہیں اور اس کی تاریخ بھی موجود ہے۔
نجانے کتنے انسان آئے اور چلے گئے مگر انہی میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو
موت کی اٹل حقیقت کے باوجود اپنے افکار سے، اپنے کردار سے، اپنے کام سے
اپنے نام کو دوام دے گئے ہیں۔ سچ ہے کہ اسی کو کہتے ہیں ” زندگی“ ہم کسی
اور شعبے کا ذکر نہ کرتے ہوئے صرف علم کی دُنیا کی طرف دیکھتے ہیں تو ایک
نہیں بیشمارشخصیات ہمیں نظر آتی ہیں۔شیخ سعدی شیرازی ، مولانا روم
اورشیکسپئر سے لے کر جارج برناڈ شا، فیثا غورث، زریاب ،خیام ، آریہ بھٹ
،والمیکی، تلسی داس، کالیداس، کبیر داس، میر تقی میر، مرزا غالب، میر
اینس ، ٹیگور، اقبال سے لے کر ہمارے عہد تک بہت سے نام ہیں جو لئے جاسکتے
ہیں۔ ان شخصیات کو اس دُنیا سے جا کر برسہا برس گزر گئے مگر اُن کا کام
اور ان کانام ایسے باقی ہے جیسے وہ اپنے وجود کے ساتھ ہمارے سامنے ہوں۔
آپ اگر چاہےں تو خود ذرا توجہ کرکے بہت سی شخصیات کو اپنے ذہن میں زندہ
پائیں گے۔ بات در اصل احساس کی ہے اور احساس کون کرتا ہے؟ زندہ آدمی ہی
پتہ چلا کہ احساس ہی کا ایک نام زندگی بھی ہے۔ کچھ لوگ چار دِن کی عمر
گزاری ہی کو زِندگی سمجھ لیتے ہیں اور اِدھر وہ رُخصت ہوئے اور وقت کے
گزران کے ساتھ وہ بھی فراموش کر دِیے گئے۔
گزشتہ بدھ کو مغربی یوپی کے کیرانہ( ضلع مظفر نگر) میں اُردو کے ایک
شاعر جو مظفر رزمی گزرے ہیں۔ اُن سے ہمیں ذاتی نیاز حاصل رہا ہے۔ پہلی
ملاقات تو غائبانہ تھی مگر ان سے باقاعدہ ملاقات کب ہوئی یاد نہیں۔ دلچسپ
آدمی تھے جب بھی ملے تووہی اگلوں سی وضع قطع اور ادب و آداب سے انھیں
مزین پایا۔ ہم نے اُن کی خبر میں لکھا تھا کہ وہ خود اِتنے مشہور نہیں
تھے جتنا اُن کا شعر:
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے٪ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
اٹھارہ لفظوں پر مشتمل یہ دو مصرعے ایک مدت سے ہمیں ہی نہیں ہمارے جیسے
نجانے کتنوں کو ازبر ہیں۔ اس کے برعکس شعرا و ادباکی برادری میں بیشمار
ہیں جن کی فکر اور اظہار کے درخت سے ہمہ وقت لفظوں کی فصل سامنے آرہی ہے
اور آج تو ان میں ایسے افراد بیشمار ہیں جنہوں نے کتابچوں اور کتابوں کے
ڈھیر لگا دِیے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں شاید ہی کچھ لوگ ایسے
ہوں جو اس عمر گزاری میں اپنی(آئندہ) زندگی کو دیکھ سکتے ہوں۔ البتہ اپنے
بارے میں ہم جیسوں کو جو ”غلط فہمی“ ہوتی ہے وہ ہرگز قابل ِذکر نہیں۔ شیخ
سعدی شیرازی کا نام ہم نے اوّل اوّل لیا ہے انہیں کے حوالے سے عرض ہے کہ
وہ اپنے علم و فضل میں جو کمال رکھتے ہیں اس سے دُنیا واقف ہے لہٰذاُس کا
بیان وقت اور اس جگہ کا ضیاع ہوگا۔ مگر ان کے وہ چار مصرعے(بلغ العلیٰ
بکمالہ) ساری دُنیا میں اب تک روشن ہیں اور ان کی روشنی ایسی ہے جو کبھی
ماند نہیں پڑے گی۔ اس میں اُن کے افکار و الفاظ ہی نہیں اُس شخصیت کابھی
نور اپنا کام کررہا ہے۔ جس کےلئے اُنہوں نے یہ رُباعی کہی تھی۔
ہم اپنے مظفر رزمی کی رِحلت پر یقینا غمزدہ ہیں مگر ایک خوشی بھی ہے کہ
ُانہوں نے اپنی عمرہی میں ، صرف اپنے دو مصرعوں کے وجود میں اپنی زندگی
کی روشنی دیکھ لی تھی۔ اس میں اُن لوگوں کے لئے ایک سبق ہے جو ’آئندہ‘
زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔
مگر یہ زِندگی ایک سوال بھی کرتی محسوس ہوتی ہے کہ میرے لئے آپ کیا کر
رہے ہیں؟                                                ن۔ص


NadeemSiddiqui

اپنا تبصرہ لکھیں