اک راز بھی ہم فاش کرتے ہیں

اک راز بھی ہم فاش کرتے ہیں

اک راز بھی ہم فاش کرتے ہیں


سنو یہ فخر سے اک راز بھی ہم فاش کرتے ہیں کبھی ہم منہ بھی دھوتے تھے، مگر اب واش کرتے ہیں
تھا بچوں کے لیے بوسہ مگر اب کِس ہی کرتے ہیںستاتی تھیں کبھی یادیں مگر اب مِس ہی کرتے ہیں
چہل قدمی کبھی کرتے تھے اور اب واک کرتے ہیںکبھی کرتے تھے ہم باتیں مگر اب ٹاک کرتے ہیں
کبھی جو امی ابو تھے ، وہی اب مما پاپا ہیںدعائیں جو کبھی دیتے تھے وہ بڈھے سیاپا ہیں
کبھی جو تھا غسل خانہ ، بنا وہ باتھ روم آخربڑھا جو اور اک درجہ ، بنا وہ واش روم آخر
کبھی ہم بھی تھے کرتے غسل، شاور اب تو لیتے ہیںکبھی پھول چنتے تھے، فلاور اب تو لیتے ہیں
کبھی تو درد ہوتا تھا، مگر اب پین ہوتا ہےپڑھائی کی جگہ پر اب تو نالج گین ہوتا ہے
ڈنر اور لنچ ہوتا ہے، کبھی کھانا بھی کھاتے تھےبریڈ پر ہے گزارا اب، کبھی کھابے اڑاتے تھے
کبھی ناراض ہوتے تھے، مگر اب مائنڈ کرتے ہیںجو مسئلہ کچھ الجھ جائے ، سلوشن فائنڈ کرتے ہیں
جگہ صدمے کی یارو اب تو ٹیشن ، شاک لیتے ہیںکہ “بوہا” شٹ جو کرتے ہیں تو اس کو لاک دیتے ہیں
ہوئے آزاد”جب ہم تو ترقی کرگئے آخرجو پینڈو ذہن والے تھے، وہ سارے مر گئے آخر
شاعر نامعلوم

Mohammed Shahid Rizwan

اپنا تبصرہ لکھیں