اپنی اور پرائی بیٹی

apni prai beti
تحریر راحیلہ ساجد
اوسلو
دو عورتیں آپس میں گفتگو کر رہیں تھی،
ایک نے دوسری سے پوچھا

سنا بہن ،تمہارے بچوں کا کیا حال ہے ؟

دوسری نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا

کیا سنائوں ،میرے بیٹے کی شادی تو سمجھو جیسے کسی چڑیل سے ہو گئی ہے ۔وہ نامراد صبح 11بجے سے پہلے بستر سے نہیں نکلتی ،

پھر سارا دن نہ جانے کہاں کہاں گھوم کر میرے بیٹے کے پیسے برباد کرتی ہے
اور رات کو جب میرا بچہ تھکا ہارا گھر آتا ہے تو اس کام چور نے کھانا تک نہیں بنایا ہوتا ،اسی بہانے وہ اسے لے کر کسی مہنگے سے ریستوران میں ڈنر کے لئے چلی جاتی ہے اور پھر دونوں رات گئے واپس آتے ہیں ۔

یہ سن کر دوسری عورت نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا اچھاخیراپنی بیٹی کی سنا؟

پہلی عورت بولی

ہائے ہائے اس کا کیا پوچھتی ہواس کی شادی تو سمجھو جیسے کسی فرشتے سے ہو گئی ہے ۔

اس کا خاوند صبح اپنے ہاتھ سے اسے ناشتہ بنا کر دیتا ہے اور تب تک وہ بیڈ پر ہی پڑی سوتی رہتی ہے ۔

اسے شاپنگ کے لئے اچھے خاصے پیسے بھی دیتا ہے اور پھر روز شام کو وہ دونوں کسی اچھے سے ریستوران میں ڈنر کرتے ہیں

اللہ نظر بد سے بچائے۔

کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟؟؟ آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

یہ صرف ایک گھر کی نہیں ہر تیسرے گھر کی کہانی ہے ۔ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ وہی بات یا چیز جو ہم اپنی بیٹی کے لیے پسند کر رہے ہیں اس بیٹی کے لیے کیوں نہیں جو اپنے والدین ، اپنے بہن بھائی ، اپنا گھر چھوڑ کر آئی ہے۔
ہم کیوں اس بچی کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ تم یہاں غیر ہو ، ہم تمہیں لے آئے ہیں اسے ہمارا احسان سمجھو یہاں تمہیں کام کرنا ہے بس کام۔

وہی چیز یا بات اپنی بیٹی کے لیے اچھی لگتی ہے۔

اور اگر خدانخواستہ اپنی بیٹی سسرال میں انہی حالات سے گذر رہی ہو تو وہ دنیا کی مظلوم ترین لڑکی ہوتی ہے۔

ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم اچھا بوئیں گے تو اچھا کاٹیں گے۔

مکافات عمل اسی دنیا میں ہوتا ہے اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اچھا ہی کریں تا کہ ہمارے ساتھ بھی اچھا ہی ہو۔

for 2 timer siden
دو عورتیں آپس میں گفتگو کر رہیں تھی،
ایک نے دوسری سے پوچھا

سنا بہن ،تمہارے بچوں کا کیا حال ہے ؟

دوسری نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا

کیا سناں ،میرے بیٹے کی شادی تو سمجھو جیسے کسی چڑیل سے ہو گئی ہے ۔وہ نامراد صبح 11بجے سے پہلے بستر سے نہیں نکلتی ،

پھر سارا دن نہ جانے کہاں کہاں گھوم کر میرے بیٹے کے پیسے برباد کرتی ہے
اور رات کو جب میرا بچہ تھکا ہارا گھر آتا ہے تو اس کام چور نے کھانا تک نہیں بنایا ہوتا ،اسی بہانے وہ اسے لے کر کسی مہنگے سے ریستوران میں ڈنر کے لئے چلی جاتی ہے اور پھر دونوں رات گئے واپس آتے ہیں ۔

یہ سن کر دوسری عورت نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا اچھاخیراپنی بیٹی کی سنا؟

پہلی عورت بولی

ہائے ہائے اس کا کیا پوچھتی ہواس کی شادی تو سمجھو جیسے کسی فرشتے سے ہو گئی ہے ۔

اس کا خاوند صبح اپنے ہاتھ سے اسے ناشتہ بنا کر دیتا ہے اور تب تک وہ بیڈ پر ہی پڑی سوتی رہتی ہے ۔

اسے شاپنگ کے لئے اچھے خاصے پیسے بھی دیتا ہے اور پھر روز شام کو وہ دونوں کسی اچھے سے ریستوران میں ڈنر کرتے ہیں

اللہ نظر بد سے بچائے۔

کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟؟؟ آپکی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

یہ صرف ایک گھر کی نہیں ہر تیسرے گھر کی کہانی ہے ۔ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ وہی بات یا چیز جو ہم اپنی بیٹی کے لیے پسند کر رہے ہیں اس بیٹی کے لیے کیوں نہیں جو اپنے والدین ، اپنے بہن بھائی ، اپنا گھر چھوڑ کر آئی ہے۔
ہم کیوں اس بچی کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ تم یہاں غیر ہو ، ہم تمہیں لے آئے ہیں اسے ہمارا احسان سمجھو یہاں تمہیں کام کرنا ہے بس کام۔

وہی چیز یا بات اپنی بیٹی کے لیے اچھی لگتی ہے۔

اور اگر خدانخواستہ اپنی بیٹی سسرال میں انہی حالات سے گذر رہی ہو تو وہ دنیا کی مظلوم ترین لڑکی ہوتی ہے۔

ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم اچھا بوئیں گے تو اچھا کاٹیں گے۔

مکافات عمل اسی دنیا میں ہوتا ہے اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اچھا ہی کریں تا کہ ہمارے ساتھ بھی اچھا ہی ہو۔

اپنا تبصرہ لکھیں