آئس کریم

از:ڈاکٹر زیبا زینت
جے پور


نہ جانے کیوں میں جب بھی اس سے بات کرتا مجھ پر ایک سحر طاری ہو جاتا مجھے بے حد سکون کا احساس ہوتا اور ایسا محسوس ہوتا کہ میری دن بھر کی تھکن ،دکھن،ذہنی کشمکش اور پریشانیاں اس کی طلسماتی آواز کی آمد کے ساتھ ہی کہیں دور خلاؤں میں کھو گئیں اور میں ایک نو عمر بے فکر بچے میں تبدیل ہو جاتا ۔ جہاں احساس کی سطح پر جڑے دو انسان ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں میں اسی مانند ایک آواز کا پرستار ہو چکا تھا۔وہ آواز جو مجھ سے میرے گزرے اور حال پر سوال کرتی اورمجھ سے دریافت کرتی
’’اور سب خیر ہے نا،آج کیا کھایا ،طبیعت تو ٹھیک ہے ،آج کچھ نیا کیا ،اور کہیں جانا تو نہیں ہے ،آفس میں سب اچھا ہے ‘‘وغیرہ وغیرہ یہ تمام وہ سوال تھے جو وہ مجھ سے بہت اپنائیت کے ساتھ معلوم کرتی اس کا انداز اس قدر موئثر اور با انسیت ہوتا کہ میں اس پہ قربان ہوا جاتا۔ بعض اوقات جب وہ کوئی سوال فراموش کر دیتی تو میں بربس ہی اسے یاد دہانی کرواتا جس پر وہ ایک زندگی سے بھرپور قہقہہ میری نذر کر دیتی یہ لمحہ میرے لئے مزید دلکش ہوتا ……..
چند ماہ قبل ہی میری اس کے ساتھ فون فرینڈ شپ کا سلسلہ جاری ہوا دو اجنبی ایک دوسرے سے چند اوقات باتیں کرتے ، ہمارے معاشرے میں اس کا چلن بھی عام ہو چلا تھا لہٰذا میرے نزدیک بھی یہ کوئی غلط عمل نہیں تھا۔آج زمانہ بدل رہا ہے اور زندگی میں مختلف تہذیبیں رواج پا رہی ہیں ،مجھے اس سے خوشی حاصل ہو نے لگی موبائل پر ہم بات کرتے، اب یہ میرا مشغلہ ہو چکا تھا
اکثر و بیشتر جب میں شام کے وقت آفس سے گھر کی جانب روانہ ہوتا اس کے خیالات میرے ساتھ شاملِ سفر ہوتے اسکی آواز ،منفردلہجہ ، مسکراہٹ اور سانسوں کی آمد ورفت میرے وجود میں پھلجھڑیاں چھوڑتے، اور میں اس آواز کے رشتے کے درمیاں چند امیدوں اور آرزؤں کے خواب بھی سجانے لگا ۔ ایسا ہونا شاید میرے نزدیک کوئی مخصوص خواہش کی ترجمانی نہیں تھا بلکہ ایک سپاٹ اور بے رنگ زندگی میں جب انسان کو کہیں سے روشنی کی ہلکی سی تھی لکیر نظر آتی ہے تووہ اس کی جانب دوڑنے لگتا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی شاید یک دم حاصل ہو رہی ایک توجہ سے انسانی فطرت شاداب ہو رہی تھی ۔
ایک ۱۴ سال کی طویل شادی شدہ زندگی جو چند سال کے گزرنے کے ساتھ رفتہ رفتہ اپنی آب و تاب ،شادابی اور جوانی کھو چکی ہے یہاں لمحات ساعت اور روز و شب کی کوئی تفریق نہیں دو انسان جو بہت محبت ،جوش اور وعدوں کے ساتھ ملتے تو ہیں لیکن نہ جانے کیوں رفتہ رفتہ اپنی وہی محبت،جوش اور شادابی کہیں فراموش کر مشینی ہو جاتے ہیں جہاں نہ کچھ محسوس ہوتا ہے نہ توجہ کا خیال ہی آتا ہے ۔بیوی اپنی متعین صبح و شام کی دیوٹی میں زندگی سرف کر رہی ہے ۔ایک ۷ سال کا بیٹا جسے بس اپنی خواہشات اور کارٹونس کے قصوں سے مطلب ہے ۔اول تا آخر صرف زندگی کی مجبور و بے کیف گاڑی کو دھکا مار مار کر زمانے کے روبرو پیش کرنا ۔
میں عاجز آ گیا ہوں ………میں عاجز آ گیا ہوں……… بار ہا یہ جملہ میرے قلب کی گہرائیوں سے ہوتا ہوا ذہن کی باریک سے باریک نبض تک جا تا اور پریشان کرتا ایک اضطراب ایک کسک زندگی میں تنہائی کی صورت اپنے پیر پسار چکی تھی کہ ایک خنک فضا کے جھونکے نے میری خاموش زندگی میں دستک دی جس نے مجھے مسرتوں سے بھر دیا اور یکبارگی پھر میں زندگی میں لوٹ آیا ۔
وہ ایک طے شدہ وقت پر فون کرتی جب کبھی ذرا بھی تاخیر ہوتی تو میں انتظار کے نشتروں سے گھایل جھنجھلا جاتا ۔ اس کے خیالات مجھے بے چین کر دیتے اور اس کا سراپا مجھے اندر ہی اندر نوچنے لگتا ،ایک انتشار ،ایک اکتاہٹ کے ساتھ میں دیوانا ہو جاتا ناچار فون کو دیکھتا رہتا اور جیسے ہی فون کی صدائیں سنائی دیتیں میرے مرجھائے مغموم دل میں مسرتوں کے چراغ روشن ہو جاتے اور ایک مرتبہ پھر میں نو عمر بچے میں تبدیل ہو جاتا اسکی تفتیش پر اپنے ارمانزدہ جواب ادا کرتا۔
میں آہستہ آہستہ اس نئے مراسم کی تپش میں اپنے گرویدہ رشتوں کی حرارت سے نا شناسا ہونے لگا ۔
ایک روز صبح تقریباََ ۹ بج رہے تھے اور میں آفس کی اپنی تیاری میں مصروف تھا آج کام کچھ زیادہ تھا جسکی وجہ سے جلدبازی لاحق تھی کہ فون کی صدا سنائی دی ۔میں رسیو کیا
جی کون……!
اچھاصاحب کون ………… جواب میری سوچ سے علحدہ تھا لیکن وہ پر کشش نغمئی آواز میری صبح کو سرشار کرنے کے لئے کافی تھی
جی فرمائیں محترمہ ……. مزاج بخیر!اس وقت یہ نعمت کیا بات ہے ………. میں نے بلا تکلف با ذوق ہو کر کہا
دوسری جانب سے ایک قہقہا گونجا اس کے سوا کوئی رد عمل نہیں۔
سالگرہ مبارک……….. ایک سپاٹ جملہ ادا ہوا
شکریہ صاحبہ ………. آج میری سالگرہ ہے ؟ یاد دہانی کا شکریہ……….. میں آہستہ سے عرض کیا
کس قدر جھوٹ بولتے ہیں ………..! کیا آپ کو یاد نہیں تھا ؟
میں سچ کہہ رہا ہوں صبح سے مصروف تھا اس لئے بس ……. خیر آپ کو یاد رہا یہ میری خوش قسمتی ہے۔ میں نے بھرپور جزباتی ہو کر کہا
یہ دن تو میرے لئے بھی خاص ہے ،اس لئے یاد تو رکھنا ہی تھا خیر اچھا ہے آپ کو بھی یاد لا دیا میں نے چلئے آج میری طرف سے آئس کریم کھالیجئے گا …… اور ایک بار پھر وہ ہنس دی
ایک لطیف احساس و کیفیت مجھے شرابور کر گئے ایسا لگا جیسے صبح صبح میرے کانوں کوئی چاشنی گھول گیا ……۔ میں نے بہت خوش ہو کرجواب دیا ۔
ہا ں ہاں آج ضرور کھاؤں گا آئس کریم تم جو کہو گی وہ تو کرنا ہی پڑیگا …….. ۔میں نو عمر لڑکوں کی زبان بولنے لگا۔
ایک پیاس میرے گلے کے قریب در آئی اور آئس کریم کی تڑپ ہونے لگی۔
میں ابھی اپنے خیالوں میں ہی کھویا تھا وہ بھی خاموش ہو گئی ایک سکوت ہمارے درمیاں حائل تھا اسکی سانسوں کی آمد و رفت کو میں سن رہا تھا آس پاس کا ماحول میرے لئے گم ہو چکا تھا میں اپنی مکمل توجہ کے ساتھ اسکے قرب میں ضم ہوا جا رہا تھا کہ یک بیک فون ڈسکنیکٹ ہو گیا ۔ میرے لئے یہ لمحہ خاصاتکلیف دہ تھا،اور میں مایوس ہو گیا
بغیر کسی سے بات کئے خاموش آفس کے لئے روانہ ہوگیا۔تمام سفر اسی پسو پیش میں گزرہ کہ فون کیوں کٹ گیا؟
میں حیران تھا دن بھر اسی کیفیت سے دو چار رہا میرے سینے میں چبھن کا عالم تھا،کہ آخر کیوں اس نے اتنی بے مروتی سے فون کاٹ دیا
کہیں وہ پریشان تو نہیں ہے……..؟
کہیں اسے کوئی مشکل تو نہیں آن پڑی………؟
شاید میری اداس صداؤں نے اسے بھی رنجیدہ کر دیا ہوگا………؟
جانے وہ کس وجہ سے بات نہیں کر پائی ……….؟
میں اس سے کچھ معلوم بھی نہیں کر پایا ………….
کئی سوالوں نے گرہ پر گرہ کس دیں اور میرا دم گھٹنے لگا
رات تک اسکا فون نہیں آیا نہ جانے کیوں یہ لمحات میرے قریب پہاڑ بن گئے جو گزارے نہیں گزرتے تھے ۔ذہن ماؤف ہو گیا اور میرے درمیاں ایک چھٹپٹایٹ واقع ہوئی ۔میں پریشان رہا سر میں درد ہونے لگا اور اس بات نے میرا حال بے حال کر دیا گھر میں داخل ہوا گھر کے کونے کونے میں ایک عجیب سا حبس طاری تھا ۔میں نے محسوس کیا کہ گھر کے درو دیوار سیاہ رنگوں کے ساتھی ہو چکے ہیں ۔میں بوجھل قدموں سے اندرداخل ہوا
بیوی آج اپنے مزاج کے بر خلاف کچھ خوش اور شاداب تھی اسکی پیشانی کے بل اور چہرے کی لکیروں میں بھی کمی نظر آئی میں نے لاپرواہی سے اسکی جانب نظر اٹھائی تو وہ مزید مسکرائی جیسے آج میری سالگرہ نہیں ہماری شادی کی پہلی سالگرہ ہو اس کے تیور بدلے ہوئے تھے یا شاید ہمارے درمیاں پیدا ہوئی اس کھائی کو اس نے محسوس کر لیا تھا میری جانب آئی اور محبت کے ساتھ میرے سینے سے آ لگی ،آہستہ سے کہنے لگی
آج تمہاری پسند کا کھانا بنایا کھیر اور آئس کریم بھی ہے جلدی آ جاؤ آج مل کر کھائیں گے ۔
بہت وقت ہو گیا ہم ساتھ میں کچھ کھاتے ہی نہیں نا ہی کہیں باہر جاتے ہیں ۔میں نے سوچ لیا ہے اب میں اپنی نپی تلی صبح و شام سے باہر نکل کر ہمارے لئے وقت لاؤں گی تاکہ ہم پہلے کی مانند خوش رہ پائیں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار پائیں ………۔
میں خاموش اس کو سینے سے لگائے تمام باتیں سن رہا تھا اور اس کی باتوں پر خاصا حیران بھی تھا۔
وہ دوڑتی ہوئی کچن میں چلی گئی میں نے دیکھا آج اس نے کتنے وقت کے بعد میک اپ کیا ہے سنوارا ہے خود کو اور بالوں کو بھی نئی سی ترتیب دی ہے ۔ گھر میں کھانے کی خوشبو مہک رہی تھی ۔بیوی نے میری پسندیدہ کھیر پکائی اسنے کھانے کے لئے اسرار کیا لیکن میں منتشر اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر دراز ہو گیا ۔وہ میری حالت پر حراسا ہوئی میرے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگی میں خاموشش رہا ۔
شب اپنی دوشیزگی تج رہی تھی رات کے ۱بج رہے تھے میں اپنے بیڈ پر دراز تھا کمرے کا ہر کونہ مجھے مغموم سا نظر آرہا تھا ۔کھڑکی پر پڑے پردے کسی لمبی بیماری کے بعد کمزور ہوئے سے بے جان پائپ پر لٹکے ہوئے سے نظر آ رہے تھے دیواروں پر بھی لا پرواہی مائل تھی اور نائٹ لیمپ کی روشنی کسی مرثیہ کی پیروی کر رہی تھی ۔بیوی نہ جانے کب میرے قریب آکر تھکن سے چور نیند کے آغوش میں تھی ۔ آج بہت دنوں بعد اسنے میری پسند کی آسمانی رنگ کی ساڑی پہنی تھی جس میں خاصی حسین دکھ رہی تھی۔ بیوی نے سونے سے قبل میرے سرہانے ہی ایک کھیر کا کٹورہ رکھا تھا اور ساتھ ہی آئس کریم بھی ایک باؤل میں سجائی تھی شاید صبح اس نے فون پر میرے مکالمے سنے تھے اور آس کریم کا تذکرہ اسے یاد رہا ہوگا میں نے بے زاری کی نگاہ ڈالی اور پھر سوچ میں ڈوب گیا ۔ میں اب بھی جاگ رہا تھا اور اپنی ٹھہری شب کے تارے گن رہا تھا ۔ایک الجھن کے ساتھ میں اس کا نمبر ڈائل کیا ۔
ذرا دیر ہی بعد ایک مخمور صدا نے بے چین دل پر دستک دی
جی …….!
تم کہاں ہو ………..؟ کیسی ہو ……… میں کس قدر پریشان ہو رہا ہوں ،
کیا ہوا تم نے صبح فون کیوں کاٹ دیا تھا اور د ن میں بات کیوں نہیں کی تھی ……..؟ بغیر کسی رسمیات کے میں سوال پہ سوال داغے جا رہا تھا ۔وہ بے خبری کی نیند میں مدہوش تھی خواہ جیسے میں بلا وجہ شکایت کر رہا تھا۔
جی سوری میں بھول گئی تھی ……. اس نے دو ٹوک جواب دیا
کیا ………بھو ل گئی تھی ….. میں نے حیرت سے کہا
میں دن بھر بے قراری کے عالم میں رہا ،تڑپتا رہا تمہارا خیال مجھے بار ہا ستاتا رہا سارا دن میں تمہارے فون کا منتظر تھا کہ تم مجھے فون کروگی میرا خیال تمہیں بھی بے چین کئے ہوگا ……. میں بغیر زیر و زبر بس کہتا جا رہا تھا لیکن وہ اب بھی خاموش تھی
ذرا وقت سکوت کے بعد ایک طنزیہ اور خشک جملہ ادا ہوا
آج میرے بوئے فرینڈ کا برتھ دے تھا ہم پورے دن ساتھ تھے میں بس ابھی ہی آئی ہوں اور اسی لئے آپ کا خیال ہی نہیں آیا…….. ۔
جواب میرے وجود میں زلزلہ برپا کرنے کے لئے کافی تھا …… میں اپنے ہی سوالوں اور جوابوں کے دائرے میں پس کر رہ گیا …..
اچانک مجھے خود سے کراہیت سی ہوئی اور جیسے ایک جھٹکے کے ساتھ میں نے اپنا موبائل دور پھینکا ۔
فون تو پہلے ہی کٹ چکا تھا،میں نے رنجیدہ طبیعت کے ہمراہ پلٹ کر غور کیا بیوی سکون کی نیند میں تھی
چند لمحات کے بعد میں دیگر جانب غور کیا جہاں بیوی نے ارمان سجائے تھے۔
آئس کریم پگھل چکی تھی ، میں اسے دیکھنے لگا آئس کریم میں بلبلے نظر آنے لگے اور اس کی مہک میں عجیب کھٹاس سی میرے نتھنوں کو بے زار کرنے لگی لیکن کھیر اسی حالت میں واقع تھی ، اس میں کیوڑے کی خوشبو اب بھی باقی تھی میں بچوں کی طرح فوری اٹھا اور کھیر کا پیالہ اٹھا کر کھانے لگا
نہ جانے کیسے لیکن بیوی بھی جاگ گئی اور مسکرا کر پوچھا
اچھی ہے نا ………
ہا کھیر بہت اچھی ہے ………
اسنے پھر پوچھا ’’آئس کریم کا کیا کروں میاں جی……..‘‘
میں آہستہ سے جواب دیا
مجھے کھیر پر ہی اکتفا کرنے دو بیوی ……….۔

اپنا تبصرہ لکھیں