”اب وہ لاہور کہاں؟

”اب وہ لاہور کہاں؟

”اب وہ لاہور کہاں؟

 

ایک نجی تحفہ

چاچا چودھری کے سوانحی انٹرویو پر مبنی کتاب ”اب وہ لاہور کہاں؟

تحریر: عقیل عباس جعفری

زیر نظر پوسٹ کے ہمراہ منسلک کردہ تصاویر کے عنوانات عقیل عباس جعفری صاحب کے درج کردہ ہیں:

نمبر 1:
اب وہ لاہور کہاں ؟ کا سرورق
نمبر 2:
چاچا چودھری کی سو ویں سال گرہ کی یاد گار تصویر
نمبر 3
بھٹو سزائے موت کا حکم سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ سے نکلتے ہوئے ، عکاسی : چاچا چودھری
نمبر 4
پاکستان ٹائمز کے دفتر کی ایک نادر تصویر ، عکاسی: چاچا چودھری
نمبر 5
چاچا چودھری
نمبر 6
عکاسی چاچا چودھری
نمبر 7
عکاسی چاچا چودھری
نمبر 8
خالد حسن اور چاچا چودھری

راشد اشرف
کراچی سے

اردو میں ایسی سوانحی کتابوں کی روایت بہت کم ہے جو صاحب سوانح سے کیے گئے انٹرویو کی بنیاد پر مبنی ہوں۔ ماضی میں بعض شخصیات کے انٹرویوز کو بنیاد بناکر ان کی سوانح عمری مرتب کرنے کی روایت تو ملتی ہے مگر پوری سوانح عمری انٹرویو کی طرز پر ہی مرتب کی گئی ہو، اس کی روایت خال خال ہی نظر آتی ہے۔ 70ءکی دہائی کی بات ہے جب پاکستان کے معروف صحافی منیر احمد منیر نے اپنے جریدے آتش فشاں میں ملک کے معروف سیاستدانوں اور ماضی کے نامور فلمی ستاروں کے طویل انٹرویوز کے سلسلے کا آغاز کیا۔

۔۔۔۔ 80 ءکی دہائی میں انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے کیے گئے انٹرویوز کو الگ الگ کتابی شکل دینا شروع کیا۔ اس سلسلے میں شوکت حسین رضوی کا انٹرویو ” نورجہاں اور میں“ اور راﺅ عبدالرشید کا نسبتاً زیادہ طویل انٹرویو ”جو میں نے دیکھا“ اردو میں رجحان ساز کتابیں کہلائی جاسکتی ہیں۔ یہ دونوں طویل سوانحی انٹرویوز منیر احمد منیر نے کیے تھے۔ اس کے بعد ان کی اسی نوعیت کی چند مزید کتابیں سامنے آئیں۔ ایسی ہی ایک کتاب ”اب وہ لاہور کہاں؟“ ہے، جو لاہور کے مشہور فوٹو گرافر ایف ای چودھری سے مختلف اوقات میں لیے گئے انٹرویوز پر مبنی ہے۔ منیر احمد منیر نے یہ کتاب گزشتہ برس انہیں ان کی سوویں سالگرہ کے موقع پر پیش کی تھی۔

ایف ای چودھری، جو چاچا چودھری کے نام سے معروف ہیں، 15 مارچ 1909ءکو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام کیا ہے، اس پر منیر احمد منیر نے روشنی نہیں ڈالی مگر بعض ذرائع کے مطابق ان کا اصل نام فضل الٰہی چودھری ہے جب کہ ان کے بعض احباب کا اصرار ہے کہ ان کے نام میں ایف ای کے حروف فاسٹن ایلمر  کے الفاظ کے مخفف ہیں۔

ایف ای چودھری اس وقت لاہور کے سینئر ترین صحافی ہیں، اس عمر میں بھی ان کی یادداشت قابل رشک ہے اور وہ اسّی ، نوّے برس پرانے واقعات بھی ان کی جزئیات کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے وہ کل کا واقعہ ہوں۔

گزشتہ چند برسوں میں میری نظر سے ایف ای چودھری کے کئی انٹرویوز نظر سے گزرے جن میں پاکستان، فیملی میگزین اور ہیرالڈ کے انٹرویوز سرفہرست ہیں، تاہم ”اب وہ لاہور کہاں؟“ کو جو بات ان تمام انٹرویوز سے مختلف بناتی ہے۔ وہ لاہور کی تاریخ کے بارے میں منیر احمد منیر کی اپنی معلومات اور ان کا بیانیہ ہے۔ میں نے منیر احمد منیر کے وہ انٹرویوز بھی پڑھے ہیں جو سیاسی شخصیات اور فلمی ستاروں سے لیے گئے تھے اور اب یہ کتاب بھی کم و بیش چار پانچ مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔ سیاست، فلم اور تاریخ ہر میدان میں منیر احمد منیر کی معلومات قابل رشک ہیں۔ وہ انٹرویو دینے والی ہر شخصیت سے نہ صرف باتیں کہلوانے کا ڈھب جانتے ہیں بلکہ کئی مقامات پر ان کی گفتگو کی تصحیح بھی کرتے جاتے ہیں۔ جہاں کوئی شخصیت کسی واقعے کی جزئیات بھولتا ہے یا ناموں کو گڈ مڈ کرتا ہے، منیر احمد منیر اس کی تصحیح کرتے ہیں، جس کا اعتراف انٹرویو دینے والی شخصیت بھی کرتی ہے۔ تاہم کہیں کہیں انٹرویو دینے والی شخصیت اپنی ہی بیان کردہ معلومات کی صحت پر اصرار کرتا ہے تو منیر احمد منیر کی ”اصلاح“ کی روشنی میں قاری کو صحیح معلومات تک پہنچنے کا ایک راستہ ضرور مل جاتا ہے۔

۔۔۔۔”اب وہ لاہور کہاں؟“میں درج، ایف ای چودھری کے سوانحی خاکے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اجداد کا تعلق ہوشیارپور سے تھا تاہم ان کی پیدائش سہارن پور (اترپردیش) میں ہوئی جہاں اس وقت ان کے والدین مقیم تھے۔ میٹرک کا امتحان ڈلوال، ضلع جہلم کے مشن ہائی اسکول سے پاس کیا اسی زمانے میں فوٹوگرافی کا شوق ہوا۔ مزید تعلیم ایف ای کالج لاہور سے حاصل کی اور 1934ءسے 1949ءتک تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے۔ اسی دوران لاہور کے سول اینڈ ملٹری گزٹ، دہلی کے السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا اور اسٹیٹسمین اور مدراس کے ”ہندو“ اخبار کے لیے فری لانس فوٹو گرافی کرتے رہے۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قائداعظم اور مسلم لیگ کے متعدد جلسوں کی یادگار تصاویر کھینچیں۔ 1936ءمیں قائداعظم نے جب مسجد شہید گنج لاہور کے مقدمے کے سلسلے میں لاہور کا دورہ کیا تو ایف ای چودھری نے بادشاہی مسجد، لاہور کی سیڑھیوں پر ان کی وہ یادگار تصویر کھینچی جس میں وہ ترکی ٹوپی پہنے نظر آتے ہیں۔ جنوری 1949ءسے جون 1978ءتک وہ پاکستان ٹائمز سے وابستہ رہے۔ 1986ءمیں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، 1992ءمیں تحریک پاکستان میڈل اور 2009ءمیں ستارہ امتیاز عطا ہوا۔

منیر احمد منیر نے ایف ای چودھری کے انٹرویوز کا سلسلہ 3 ستمبر 1990ءکو شروع کیا جو وقفے وقفے سے 2009ءتک جاری رہا۔ ”اب وہ لاہور کہاں؟“ کی اشاعت اب بھی ممکن نہ ہوتی اگراےف ای چودھری کی سوویں سالگرہ درمیان میں نہ آجاتی۔ منیر احمد منیر نے اس کتاب کی منصوبہ بندی، ایف ای چودھری کی 99 ویں سالگرہ سے شروع کردی تھی اور گزشتہ برس ان کی سوویں سالگرہ پر انہیں اس کتاب کا تحفہ پیش کردیا۔

۔

ایف ای چودھری، لاہور کی تاریخ کے ایک ایک گوشے سے واقف نظر آتے ہیں۔ وہ مختلف واقعات کے عینی شاہد بھی رہے ہیں اور اگر کسی واقعے کے کسی اور گوشے کے شاہد ہیں تو بھی انہیں اصل واقعے کی جزئیات ازبر ہیں۔ مثلاً وہ بتاتے ہیں کہ لاہور میں اب جس جگہ شادمان ٹاﺅن ہے وہاں پہلے لاہور سینٹرل جیل ہوا کرتی تھی (یہ سڑک آج بھی اسی نسبت سے جیل روڈ کہلاتی ہے)۔ یہی وہ جیل تھی جہاں 23 مارچ 1931ءکو بھگت سنگھ، سکھ دیو اور یوراج کو پھانسی دی گئی۔ ان کے ڈیتھ وارنٹ پر کوئی ہندوستانی سپرنٹنڈنٹ دستخط کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ایسے میں قصور کے آنریری مجسٹریٹ نواب محمد احمد قصوری نے اس وارنٹ پر دستخط کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور یوں ان سرفروشان آزادی کی پھانسی ممکن ہوسکی۔ اب اس واقعہ کا عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ جس مقام پر بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا عین اسی مقام پر 11 نومبر 1974ءکو خود نواب محمد احمد خان، گولیوں کا نشانہ بن گیا اور پھر اس کے قتل کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی۔ (اس واقعہ کی یہی جزئیات میری کتاب پاکستان کے سیاسی وڈیرے کے 2007ءکے ایڈیشن میں بھی موجود ہیں۔ میرا ’ذریعہ‘ البتہ ذرا مختلف تھا)۔

جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ایف ای چودھری لاہور کی تاریخ کے بہت سے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ مثلاً اخبارات میں یہ بحث ایک طویل عرصہ تک چلتی رہی کہ 24 فروری 1947ءکو سول سیکریٹریٹ لاہور پر مسلم لیگ کا جھنڈا کس نے لہرایا تھا۔ اس سلسلے میں کئی خواتین دعوے دار تھیں جن میں فاطمہ صغریٰ کا نام سرفہرست تھا۔ ایف ای چودھری جھنڈا لہرانے والی لڑکی کا نام شمیم مجید بتاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس کی تصویر 2 مارچ 1947ءکو پاکستان ٹائمز میں اس کیپشن کے ساتھ چھپی تھی کہ ”اس لڑکی نے سول سیکریٹریٹ لاہور پر مسلم لیگ کا پرچم لہرایا“۔

ایف ای چودھری کو 18 مارچ 1978ءکو ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تاریخی تصویر بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جب وہ سزائے موت کا فیصلہ سن کر لاہور ہائی کورٹ سے باہر نکلے۔ ایف ای چودھری بتاتے ہیں کہ اس دن لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے بھٹو صاحب کی تصویریں کھینچنے کی ممانعت کی تھی۔ چودھری صاحب کو دیکھ کر ڈی ایس پی نے بھی انہیں تصویر کھینچنے سے منع کیا…. مگر چودھری صاحب ایک قریبی برامدے کی دیوار کے موکھے سے ٹیلی لینس کے ذریعے بھٹو صاحب کی تصویرکھینچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگلے دن پاکستان ٹائمز واحد اخبار تھا، جس میں بھٹو کی یہ تاریخی تصویر شائع ہوئی۔

ایف ای چودھری اپنے اس انٹرویو میں پاکستان ٹائمز اور امروز کے اجرا کی تاریخ بھی بتاتے ہیں۔ انہوں نے فیض احمد فیض کی فرمائش پر مال روڈ پر پاکستان ٹائمز اور امروز کے پہلے دفتر کی تاریخی تصویر بھی کھینچی تھی۔ انٹرویو میں اس تصویر کا احوال بھی موجود ہے۔ اسی دفتر سے 1947ءمیں پاکستان ٹائمز اور 1948ءمیں امروز کا اجرا ہوا تھا بعد میں یہ دونوں اخبارات گوالمنڈی کے نزدیک رتن چند روڈ پر منتقل ہوگئے تھے۔

ایف ای چودھری کے اس انٹرویو میں لاہور کے پرانے تھیٹروں اور سینما گھروں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ لاہور میں کاروں کی آمد کا تذکرہ بھی ہے اور لاہور میں بجلی کی ابتدا کا ذکر بھی۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی تاریخ بھی موجود ہے اور اس کے بانی ڈاکٹر شجاعت علی کا بھی تذکرہ ہے جنہیں شورش کاشمیری فاطمہ جناح میڈیکل کالج کا سرسید کہا کرتے تھے۔

۔۔۔۔ ”اب وہ لاہور کہاں؟“ میں ایف ای چودھری کا سوانحی انٹرویو تو اپنی جگہ کمال کا ہے ہی مگر اس کتاب کے آغاز میں منیر احمد منیر کا 25 صفحے پر مشتمل پیش لفظ بھی پڑھنے کی چیز ہے۔ اس پیش لفظ میں منیر احمد منیر نے اپنی یادداشتوں اور مطالعہ کی بنیاد پر لاہور کی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ اس پیش لفظ میں شیخ عبدالشکور کی زبانی مشہور مغنیہ گوہرجان کی لاہور آمد اور بریڈ لا ہال میں اس کی آمد کی تفصیل پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

۔۔۔۔۔ ”اب وہ لاہور کہاں؟“لاہور کی تاریخ کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہئے جسے لاہور یا پاکستان کی تاریخ اور اس کے آثار سے دلچسپی ہے۔ منیر احمد منیر کو بھی لاہور کے پرانے باسیوں سے کئے گئے انٹرویوز کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے اور توقع کی جانی چاہئے کہ وہ اس نوع کی مزید کتابیں بھی شائع کریں گے۔

”اب وہ لاہور کہاں؟“ ایک تبصرہ

  1. Bht khubsurat hai, Kitaab ki taraf raghib kar dya aap ne to, kamaal ka naqsha khencha hai, Muneer Ahmed Muneer Sahab Ki Kitaab Dhondna pare gi ab,,,, Lahore ka banda wese hi aashiq ahi

اپنا تبصرہ لکھیں