پانچواں درویش

(خود نوشت سوانح عمری)
مصنف : نقشبند قمر نقوی بھوپالی
تبصرہ نگار : سرور عالم راز سرور

”پانچواں درویش ” ٹلسا، اوکلا ہوما، امریکہ میں مقیم نقشبند قمر نقوی بھوپالی کی خود نوشت سوانح حیا ت ہے۔ اب تک اس کتاب کی دو جلدیں آچکی ہیںاور دو مزید جلدوں کی وَعید دی گئی ہے ۔ زیر نظردو جلدیں لگ بھگ ٥٨٠ صفحات پر محیط ہیں گویا مکمل ہونے کے بعد یہ کتاب تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہوگی۔ خود نوشت سوانح حیات عموماً ایسا شخص لکھتا ہے جس کی ادبی، سیاسی، مذہبی یا سماجی کوئی معروف حیثیت ہو۔مثلاً جوش ملیح آبادی نے ”یادوں کی بارات” لکھی یا قدرت اللہ شہاب نے ”شہاب نامہ” تصنیف کیا۔ دونوں معروف اور با حیثیت ہستیاں تھیں۔ قمرنقوی صاحب ادب اور زندگی کی ہر سطح پر قطعی غیر معروف اور مطلق قابل فراموش شخصیت کے مالک ہیں۔ اگر ”پانچواں درویش” سوانحی ادب میں کسی معنی خیز اضافہ کا باعث ہوتی یا صرف قابل مطالعہ ہی ہوتی تو برداشت کی جا سکتی تھی لیکن کتاب پڑھنے کے بعد یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ یہ خود ستائی اور مبالغہ آرائی کی ایک عبرت ناک مثال کے سوا اورکچھ نہیں ہے جس میںمصنف نے جا بجا قاری کو اپنی لفاظی اور غلط بیانی سے مغلوب کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس اجمال کی کچھ تفصیل ”مشتے نمونہ از خروارے” کے مصداق پیش کی جارہی ہے تاکہ ”سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے”۔
”پانچواں درویش” کا ایک بہت بڑا حصہ مصنف کے دوستوں کے تعارف اور ان مقامات کے بے رنگ بیانات سے بھرا ہوا ہے جہاںوہ سیر کے لئے گئے تھے۔ نہ تو اُن کا کوئی دوست ہی کسی حیثیت سے لائق اعتنا ہے اور نہ ہی کسی تاریخی مقام کا بیان دلچسپ اور لائق مطالعہ ہے،گویا یہ پوراحصہ کتاب میں صرف صفحات بڑھانے کے لئے لکھا گیا ہے۔ یہاں تبصرے کو مختصر اور قاری کو ذہنی قلابازیوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر کتاب کی صرف چنددلچسپ تفصیلات پیش کی جاتی ہیں۔یہ تفصیلات نہایت مضحکہ خیز اور عجیب و غریب ہیں اور بلا استثنا سب کی سب خانہ ساز بھی ہیں۔ کتاب لکھتے وقت ہر مصنف کو جس دیانت داری اور راست گفتاری کی ضرورت ہوتی ہے ،افسوس کہ ُاس کا زیر نظر کتاب میں مکمل فقدان ہے۔
نقوی صاحب نے اس بات پر بے حد زور قلم صرف کیا ہے کہ خود کو اللہ تعالیٰ کا نہایت فرمانبردار اور زاہد و عابد بندہ دکھائیں اور ساتھ ہی اپنے خاندان کو بہت بلند دینی اور مذہبی مرتبے پر فائز کردیں۔ چنانچہ جا بجا اس دعویٰ کی تائید میں بے معنی اورمہمل دلیلیں ملتی ہیں۔ اس کی ایک انتہائی مضحکہ خیزمثال جلد دوم کے صفحہ ۔١١ پر خاندانی شجرہ ٔ نسب کی شکل میں فراہم کی گئی ہے۔اس شجرہ کی چند تفصیلات از راہ تفنن طبع دی جاتی ہیں۔
(١) نقوی صاحب نے شجرہ کی سڑسٹھویں (٦٧۔ویں) پشت میں اپنا نا م حضرت آدم سے جا ملایا ہے۔ اس سلسلہ کی دوسری پشت میںحضرت آدم کے بیٹے کا نام اسمٰعیل لکھا ہوا ہے جو قرآن مجید کی تردید کرتا ہے ۔ اس بات کی کوئی سند نہیں دی گئی ہے کہ حضرات آدم واسمٰعیل کی یہ عجیب وغریب نسبت کس بنیاد پر قائم ہے جب کہ قرآن کریم کے مطابق حضرت آدم کی کوئی اولاد نرینہ اسمٰعیل نام کی نہیں تھی ۔ خود کو اللہ کا فرمانبردار اور زاہد وعابد بندہ بتانے والا شخص اس قسم کی بات کیسے لکھ سکتا ہے؟ کیا نقوی صاحب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس (نعوذ باللہ) قرآن کریم سے زیادہ با وثوق کوئی اور ذریعہ حضرت آدم کی اولاد کے تعین کا ہے؟
(٢) گمان اغلب ہے کہ نقوی صاحب دوسری پشت میں حضر ت اسمٰعیل(حضرت ابراہیم کے بیٹے) کا نام حضرت آدم کے بیٹے کی حیثیت سے سہواً لکھ گئے ہیں۔شجرہ میں حضرت آدم اور حضرت اسمٰعیل کے درمیان کی کڑیاں غائب ہیں۔یہاں کتنی کڑیاںہونی چاہئیں اور ان کڑیوں میں کون سے نام ہوں گے؟ ان کڑیوں کی صداقت کس بنا پر مستند ہے؟ ایسے سوالات کا کوئی جواب کہیں نہیں ملتا اور نہ ہی مل سکتا ہے۔ جہاں فاضل مصنف نے حسب ونسب کے اتنے من گھڑت سلسلے لکھ دئے تھے وہیں یہ کمی بھی پوری کر دیتے تو کیا ہرج تھا؟ ان کی غیر زمہ داری میں جو کسر رہ گئی تھی وہ بھی پوری ہوجاتی۔خدا جانے موصوف کواپنا مذاق اُڑوانے کا اس قدر شوق کیوں ہے۔
(٣) ایک لطف کی بات یہ بھی ہے کہ شجرہ کی تقریبا ہر کڑی میں لکھے ہوئے بزرگ کے نام کے ساتھ ان کی زوجۂ محترمہ کا نام بھی لکھ دیا گیا ہے۔نقوی صاحب کے پاس اِن ناموں اورمتعلقہ ازدواجی رشتوں کی کیا سند ہے؟ اگر موصوف ان بزرگوں اور ان کی ازواج کے نام کی سند بھی عنایت کر دیتے تو علم تحقیق النساب پر ایک ایساعظیم الشان احسان کرتے جس کی مثال انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ اس محیر العقل” تحقیق ”کے صلہ میں فاضل مصنف کو یقینا عمرانیات میں نوبل پرائز تو مل ہی جاتی۔اب بھی اگر وہ یہ کام کر دیں تو آنے والی نسلوں کے لئے ہنسنے ہنسانے کا بے بہا موقع فراہم ہو جائے گا۔
(٤) علم الانساب میں ایک پشت یا نسل عموماًتیس سال کی مانی گئی ہے۔چنانچہ اِس کتاب کے حساب سے حضرت آدم آج سے تقریباً (٦٧ ضرب ٣٠یعنی٢٠١٠)دو ہزار دس سال قبل اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔اگر شجرہ میں حضرات آدم اور اسمٰعیل کے درمیان سڑسٹھ پشتیں مزید فرض کر لی جائیں (جس کی کوئی سند نہیں ہے)تب بھی زمین پر انسان کی عمر تقریباً چار ہزار بیس سال (٤٠٢٠سال) قرار پاتی ہے۔ زمین پر انسان کی عمر کا یہ ”نقشبندی” تخمینہ جدید سائنس کے حساب سے یکسر مہمل اور مطلق غلط ہے۔ایک محتاط سائنسی تخمینہ کے مطابق اِس زمین پر انسان کو اپنی موجودہ شکل میں آئے ہوئے کم از کم دو لاکھ سال ہو گئے ہیں۔ صرف زراعت کی عمر ہی بار ہ ہزار سال کہی جاتی ہے ۔یقینا یہ شعر نقوی صاحب کے لئے ہی کہا گیا ہے کہ
جنوں کا نام خرد رکھ دیا ، خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
جنسی مضامین اور حسین عورتوں کے ذکر وفکر کرتے ہوئے نقوی صاحب کی رال ٹپکتی ہے۔اس سلسلہ میں وہ سوقیانہ اندازاور گھٹیا زبان اختیار کرنے میں ذرّہ بھر تکلف نہیں کرتے ہیں جیسے بازاری طرزگفتگو اور تانک جھانک کاان کے مزعومہ ذاتی کردار اور اُن کی خاندانی شرافت سے کوئی تعلق نہ ہو۔اس طرز فکر وبیان کی چند مثالیں درجِ ذیل ہیں :
صفحہ ۔٣١: جس زمانہ میں کراچی میں یہ درویش مقیم رہا ان دنوں عورتوں کی بڑی تعداد ”برقع” استعمال کرتی تھی لیکن یہ برقع ایک نہایت تنگ، جسم نما عبا ہوتا تھا جس سے سینے کا ابھار”پاپی جُبنا کا دیکھو اُبھار” گاتا رہتا، کمر پتلی ہوجاتی ، کولھے نمایاں ہو جاتے۔
صفحہ ۔ ٥٤ : اُس حسینہ نے اپنے لپ اسٹک سے رنگین ہونٹوں پر تبسم کی ایک کوندتی ہوئی بجلی چمکا کرمیری طرف دیکھا، ہائے کس غضب کی بجلی میرے دل نادان پر گری! ۔۔دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
صفحہ ۔ ١١٨ : میری خاطر کرنے والی دوشیزہ ایسی حسین تھی کہ دل میں بٹھا لینا بہت مناسب تھا۔۔ ہم مسلمان اپنے ایمان کی شرائط پوری کرنے کے لئے دنیا تباہ کر لیتے ہیں ۔یہ نہیںجانتے کہ زندگی صرف ایک ہی بار ہوتی ہے۔۔ہم لوگ عاقبت کے اندیشے میں اس بری طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ ساری دنیاوی نعمتوں کو ٹھکر اکر ایک ان دیکھی نعمت کے چکر میں رہتے ہیں۔ ۔ہم لوگ عشق سے بیزار ، کام و دہن پر قیود، جسم و جاں پر پابندیاں۔ وہ جو حضرت بابر شاہ کہہ گئے ہیں کہ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست” اس سے انکار بہت مشکل ہے۔ حور وغلماں، شراباً طہورا، دودھ اور شہد کی نہریں۔ نہروں میں اتنا دودھ اور اتنا شہد کہاں سے آئے گا کہ پانی کی طرح بہنے لگے؟ حوریں تو لا تعداد ملنے کا خیال ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہاں پہنچ کر معلوم ہو کہ بس چار سے زائد حوریں نہیں! یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی۔ دنیا میں تو خیر دو بیویاں میسر ہو گئیں ، اگر چہ ناکافی تھیں۔۔!
چلئے قصہ ہی پا ک ہوگیا۔ نقوی صاحب بیک جنبش قلم اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے منکر ہو گئے، جنت میں چار حوروں کی امید پر زندہ ہیں اور اپنی دو مرحومہ بیویوں کو اپنی ضروریات کے لئے ناکافی کہہ کر فارغ ہو ئے۔
صفحہ۔ ٢٤٦ : مرد تو ایک وقت میں دو عورتیں کر سکتا ہے، بلکہ اگر دو سے دل نہ بھرے اور زندگی وبال بننے سے بچ جائے تو چار بھی کر سکتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ چار سے بھی کس بدبخت کا دل بھر سکتا ہے ! ہل من مزید!
ایک اور بات یہاںقابل ذکر ہے یعنی یہ کہ کتاب میں جو تصاویر مصنف کے خاندان کی مستورات کی لگائی گئی ہیں ان میں پردے یا حجاب کا کوئی اہتمام یا تکلف مطلق نظر نہیں آتا ہے! کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا ؟
نقوی صاحب نے لغویات نویسی کی حد کر دی ہے اور َاڑسٹھ (٦٨) شیروں کا شکار کرنے کا مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے۔ یہ بات لکھتے وقت وہ بھول گئے کہ اتنی تعداد میں شیر صرف ہندوستان کے نوابوں اور راجائوں نے مارے ہیںجو اپنے جنگلوں میں باہر سے شیر منگوا کر چھوڑ دیتے تھے،پھر ہانکا ہوتا تھا اور مچان پر بیٹھے ہوئے حضور پر نور شیر مار لیا کرتے تھے۔ ہندوستان کے مشہورزمانہ شکاری جِم کاربیٹ نے اپنی زندگی میں صرف تقریبا بیس شیر مارے تھے اور ان کے ہر شکار کا دستاویزی اور تصویری ثبوت موجود ہے۔قمر نقوی صاحب نے اگر اڑسٹھ شیر مارے ہوتے تواُن کا نام ”گِنس بک آف وَرلڈ ریکارڈس” میں سنہری حروف سے لکھا ہوتا اور اُن کے گھرمیں شیروں کے فریم کئے ہوئے اَڑسٹھ(٦٨) سر اورکھالیں خلقت کو دعوت نظارہ دے رہے ہوتے۔
لیکن ایسا کیوں نہیں ہے؟ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ بقول نقوی صاحب اُن کے گھر میں آگ لگ گئی اوراِس خوبی سے لگی کہ صرف شیروں کے سر اور کھالیں جل کر خاک ہوگئے۔ البتہ چونکہ اللہ تعالیٰ کو موصوف کے آنسو پوچھنا منظور تھا اس لئے گھر کا دوسرا سازوسامان اوروہ رائفلیں صحیح سلامت بچ گئیں جن سے وہ شیر مارے گئے تھے! سبحان اللہ! وقت کی آنکھوں نے ایسی با کمال آگ نہ اس دلدوز حادثے سے پہلے دیکھی تھی اور نہ اس کے بعد ہی کہیں نظر آئی ۔
انسانی فطرت کے تقاضے کے تحت یقینا نقوی صاحب نے اِن اڑسٹھ(٦٨) شیروں کی سیکڑوں تصاویر ذوق وشوق اور اہتمام سے کھنچوائی ہوں گی کیونکہ ایسا کارنامہ توان سے پہلے اور ان کے بعد دنیا میں پھر کسی نے انجام نہیں دیا۔ ان کی شکاریات کی کتابوں میں شیر کی ایک آدھ تصویر ضرور نظر آتی ہے لیکن باقی تصاویر ہو نہ ہو اسی ظالم آگ کی نذر ہوگئیں جو شیروں کے سر اور کھالیں اپنے ساتھ عالم بالا کو لے گئی! چونکہ ہر شیر صورت اور ہیئت میں (خصوصاً مرنے کے بعد !)ایک سا ہی دکھائی دیتا ہے ،کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ دو تین تصاویربھی ایسے ایک ہی شیر کی مختلف زاویوں سے کھینچی ہوئی ہیںجو سوئے اتفاق سے ان کی بندوق کی زد میں آگیا یا کسی دوست نے مار کراز راہ نقوی نوازی موصوف کو نذر کی ہوں؟
یہاںایک اور نہایت اہم بات یاد رکھنا ضروری ہے: نقوی صاحب پندرہ سال کی عمر میں ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جاچکے تھے ۔پھر وہ وہاں سے ایران کی طرف نکل گئے تھے اوراب امریکہ میں مقیم ہیں۔ پاکستان اور ایران میں مدت سے شیر نا پید ہو چکا ہے اور امریکہ میں بھی اس کا وجود نہیں ہے۔ گویا ہندوستان کے علاوہ نقوی صاحب ہندوستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں شیر کا شکار نہیں کر سکتے تھے۔ تو کیا انہوں نے اڑسٹھ شیر پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہندوستان ہی میں شکار کر لئے تھے؟ یہ بیان جس قدر مہمل اورمضحکہ خیز ہے وہ صاف ظاہر ہے۔ کیا نقوی صاحب نے اپنے قاری کوعقل سے بالکل ہی کور ا سمجھ رکھا ہے؟مرزا غالب نے شاید ایسے موقعہ کے لئے ہی کہا تھا کہ اپنے پہ کر رہا ہوں خیال اہل دہر کا
”پانچواں درویش” میں درج نقوی صاحب کے قیام ایران کے قصے ”فسانہ ٔ عجائب ” کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ نقوی صاحب پندرہ سال کی عمرمیں بھوپال (ہندوستان) سے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے تھے۔ وہاں اپنے پندرہ سالہ دوران قیام میںاُنہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا ۔ بعد ازاں جھوٹ بول کر اورخودکوبی اے پاس ظاہر کر کے انہوں نے ایک چھوٹی سی ملازمت کر لی تھی ۔ اس کے بعد وہ کسی صورت سے ایران چلے گئے تھے۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً اکتیس سال کی تھی۔ اس عمرمیں پاکستان کے ایف اے پاس لڑکے کی علمی صلاحیت جیسی ہو سکتی ہے وہ ظاہر ہے۔ گمان اغلب یہ ہے کہ اُن کو اُردو بھی واجبی ہی سی آتی ہوگی۔ ایران پہنچ کر کچھ ٹوٹی پھوٹی بازاری فارسی سیکھ لی ہوگی ۔ یہ پس منظر ذہن میں رکھنا اشدضروری ہے تاکہ قیام ایران کے لغواور افسانوی واقعات کی حقیقت قاری پر واضح رہے ۔ایسے صرف دو تین واقعات یہاں درج کئے جاتے ہیں۔ بقول نقوی صاحب:
(١) اُن کے ایک دوست انہیں شہنشاہ ایران کے بھائی والا حضرت عبد الرضا پہلوی کی خدمت میں لے گئے۔ والا حضرت نقوی صاحب سے پہلی ہی ملاقات میں ایسے متاثر ہوئے کہ ان کو فوراً اپنامشیر خاص مقرر کرلیا۔ حیرت انگیز مشاہرہ، عالی شان مکان، کار، عملہ، شاندار دفتر وغیرہ انہیں دیکھتے ہی دیکھتے مل گیا۔ یہاں تک کہ والا حضرت کی وہ ذاتی فائلیں اور دستاویز بھی نقوی صاحب کی تحویل میں آ گئیں جن تک اس سے پہلے صرف والا حضرت کی ہی دسترس تھی ! ۔ سبحان اللہ ! شخصیت ہو تو ایسی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ نقوی صاحب اس تعلق شاہی کا کوئی ثبوت بہم پہنچانے سے مطلق قاصر ہیں۔کتاب میں ایک بھی تصویر یا دستاویز ایسی نہیں ہے جس سے ان کے اس دعویٰ کی تصدیق تو کجا صرف نشاندہی ہوتی ہو۔ والا حضرت عبدالرضا پہلوی کے ساتھ لی گئی نقوی صاحب کی کسی تصویر کا کیا ذکر، خود والا حضرت کی تنہا بھی کوئی تصویر نہیں ہے۔ شاہی محلات کے اندرونی مناظر اور محفلوں کی تصاویر کیا معنی، شاہی محلوں، عمارتوں اور باغات کی باہر سے لی گئی ایک تصویربھی کتاب میں موجود نہیں ہے۔
اس حیرت انگیز حقیقت کی وجہ بقول نقوی صاحب یہ ہے کہ شومئی تقدیر سے اُن کے گھر میںدوسری مرتبہ آگ لگ گئی اور وہ سب تصاویر ،دستاویز او ر کاغذات جل بھن کر خا ک ہو گئے جن سے نقوی صاحب ایران کے شاہی خاندان سے اپنے قریبی تعلقات ثابت کرسکتے تھے!لطف یہ ہے کہ آگ قدرت الٰہی نے اس حکمت سے لگائی کہ صرف وہی تصاویر جل کر نیست و نابود ہوئیں جو شاہی خاندان سے متعلق تھیں۔ نقوی صاحب کے دوستو ں اور عزیزوں کی تصاویر سے بھرے ہوئے پندرہ ضخیم البم اس منحوس آگ کی زَد سے بچ گئے اوراب بھی اُن کے پاس ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ ایک آگ اس سے پہلے بھی نقوی صاحب کے گھر میں لگی تھی جس میں صرف ان کے مارے ہوئے اڑسٹھ (٦٨) شیروں کے بھس بھرے ہوئے سر اور کھالیں جل کر راہی ٔ ملک عدم ہوگئی تھیں! معلوم نہیں کیوں قدرت الٰہی کو نقوی صاحب سے ایسا بیر ہے کہ ہر مرتبہ ان کے یہاں آگ لگا کر صرف وہی سرمایہ خاک کر دیتی ہے جو ان کے خانہ ساز دعووں کی تائید کر سکتا ہے۔ لا حول ولا قوة ! جھوٹ کی بھی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ لیکن نقوی صاحب ایسی باتوں کے قائل نہیں معلوم ہوتے۔
(٢) اوپر بتایا جا چکا ہے کہ والا حضرت عبد الرضا پہلوی کی ذاتی فائلوں تک نقوی صاحب کی رسائی تھی۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ایک دن ایک ایسی ہی خاک آلودہ فائل میں نقوی صاحب کوتین ملین ( تیس لاکھ)ڈالرکا ایک چیک ملا جس پر کسی کا نام نہیں درج تھا لیکن بھیجنے والے کے دستخط موجود تھے(سبحان اللہ! قدرت کے کرشموں پر جتنی حیرت کی جائے کم ہے!)۔ اگر نقوی صاحب چاہتے تو اس چیک پر اپنا نام لکھ کر اپنے بینک میں جمع کر دیتے اور پاکستان جا کر اس پیسے سے زندگی بھر چین کی بنسی بجاتے۔ لیکن اُن جیسا عابد وزاہد، اللہ کا فرمانبردار بندہ بھلا ایسی نازیبا حرکت کیسے کر سکتا تھا؟ آخرایک دن اُسے اللہ کو بھی تو منھ دکھانا تھا۔ چنانچہ فاضل مصنف والا حضرت پہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے ، قصہ بیان کیا اور چیک اُن کے سامنے رکھ دیا۔ والا حضرت ان کی دیانت داری سے اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے نقوی صاحب کو گلے سے لگا لیا اور مبلغ بیس ہزار ڈالر انعام سے نوازا ۔موصوف پر والا حضرت کے دیگر اکرامات اس پر مستزاد تھے۔ ظاہر ہے کہ نقوی صاحب کا سکہ جو پہلے ہی ایران کے شاہی دربار میں جما ہوا تھا اب مزید پکا ہو گیا!البتہ اس واقعہ کا کوئی ثبوت کتاب میں موجود نہیں ہے۔ یہ تو تصویر کا وہ ”ایجاد بندہ، خانہ ساز” رُخ تھاجو دنیا کو دکھانے کے لئے نقوی صاحب نے کمالِ فنِ دروغ بافی سے تصنیف کیا ۔ اب دوسرا رُخ بھی دیکھ لیجئے جو حقیقت پر مبنی ہے۔
نقوی صاحب کو دو تین مرتبہ ان کے شہر ٹلسا (اوکلا ہوما)سے ڈیلس (ٹیکساس) کے مشاعروں میں مدعو کیاجا چکا ہے۔ منتظمین مشاعرہ کا بیان ہے کہ ہرمرتبہ اُن کا سخت اصرار ہوتاتھا کہ وہ صرف امریکن ایرلائنزسے ہی سفر کرتے ہیںچنانچہ اسی ایر لائن کے ٹکٹ کے پیسے انہیں پیش کئے جائیں۔ امریکن ایر لائنز پر ان کا اس قدر کیوں اصرار تھا جب کہ وہ کسی بھی ایر لائن سے آ سکتے تھے؟ اس لئے کہ اُن کے ایک صاحبزادے امریکن ایر لائن میں ملازم ہیں۔ نقوی صاحب کو اپنے بیٹے کے توسط سے امریکن ایر لائنزپر مفت یا بہت سستا ٹکٹ مل جاتا تھا۔ چنانچہ مفت سفر کر کے منتظمین مشاعرہ سے ٹکٹ کی پوری قیمت وصول کر کے اپنی جیب میں ڈالنا بہت آسان تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص سو ڈیڑھ سو ڈالر کے لئے ایسی کریہہ اور گھٹیا حرکت کر سکتا ہے وہ تیس لاکھ ڈالر کے ”بلینک”چیک کو بے چون وچرا اُس کے مالک کے حوالے کیسے کر سکتا ہے؟ہاں اگر ایسا چیک اسے خواب میں مل جائے اور خواب میں ہی وہ اسے واپس کر دے تو الگ بات ہے۔ انا للہ وا نا الیہ راجعون۔
(٣) کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ والا حضرت عبد الرضا پہلوی نے قمر نقوی صاحب کو اپنے بھائی شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی اور ملکہ فرح دیبا سے ملوایا۔ دونوں نے تپاک سے بڑھ کر موصوف سے جھک کر اس طرح ہاتھ ملایاگویا وہ نقوی صاحب سے ملاقات اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتے تھے اور اُن کے بال بچوں کی خیر یت پوچھی۔اس کے بعد جب بھی شہنشاہ ایرا ن کو آپ نظر آئے انہوں نے بڑھ کر
تپا ک سے نقوی صاحب کو سلام کیا اور بیوی بچوں کی خیریت پوچھی۔ ایسی حیرت انگیز خبر پڑھ کر قاری دنگ رہ جاتا ہے اورکتاب میں وہ تصاویر ڈھونڈتا ہے جن سے ایسے معجزوں کا ثبوت مل سکے۔لیکن نقوی صاحب کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسی لئے بطور حفظ ماتقدم ایسے لغو اور مضحکہ خیز جھوٹ کے فوراً بعد لکھ دیا ہے کہ ایسے وقت ”خدا جانے کم بخت فوٹو گرافر کہاں غائب ہو گیا تھا”۔ یعنی نہ ایسے انمول وقت پر ”کم بخت فوٹوگرافر ” موجود ہوگا اور نہ کوئی تصویر دکھائی جاسکے گی۔نہ رہے بانس ، نہ بجے بانسری۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اور قدرت کا یہ مذاق پھر ایک عادت بن گیا یعنی جب کبھی ایسا موقع سامنے آیا”کم بخت فوٹو گرافر” غائب ہو گیا اور غائب ہی رہا۔
ہر چند کہ نقوی صاحب کی شاہی محلوں میں بے تکلف آمد ورفت تھی اور بڑے بڑے وزرا اور امرا سے آپ کے نہ صرف ذاتی مراسم تھے بلکہ وہ نقوی صاحب کے شاہی دربار میں رسوخ سے سہمے ہوئے بھی رہتے تھے لیکن کتاب میں ایسی لغویات کا ایک بھی عکسی یا دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔لے دے کر شہنشاہ ایران اور ملکہ فرح دیبا کی جو مبلغ ایک تصویر ”پانچواں درویش” میں دی گئی ہے وہ بھی بقول نقوی صاحب ان کے ایک دوست کا عطیہ ہے ۔گویا موصوف اپنے بے پناہ درباری رسوخ کے باوجود بادشاہ کی ایک تصویر بھی حاصل کرنے سے قاصر رہے۔
زیر نظر کتاب اسی قسم کی مہمل اور لغو باتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اگر ”پانچواں درویش”میں کوئی خوبی ہے تو صرف یہ کہ نئے لکھنے والوں کے لئے یہ کتاب مقام عبرت فراہم کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ کتاب کس طرح نہیں لکھی جانی چاہئے۔ جوش ملیح آبادی کی سوانح حیات ”یادوں کی بارات” کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر اس میں سے فحش قصے کہانی اور لغویات نکال دی جائیں تو کتاب کی ضخامت ایک چوتھائی رہ جائے گی۔ قمر نقوی صاحب کی سوانح حیات”پانچواں درویش” کے بارے میں بھی یہ بات بلا خوف تردید اور ببانگ دہل کہی جا سکتی ہے کہ اگر اس میں سے خانہ ساز قصے، خود ساختہ لغویات اور مضحکہ خیز ہزویات نکال دی جائیں تو اس کتاب کی ضخامت بھی گھٹ کرایک چوتھائی یا اس سے بھی کم رہ جائے گی۔ بزرگوں سے سنا تھا کہ ”ایک جھوٹ کوسچ بنانے کے لئے دس جھوٹ اوربولنے پڑتے ہیں۔” پانچواں درویش” کے مطالعہ کے بعد بزرگوں کے اس قول کی صداقت پر پورا یقین آ جاتا ہے کیونکہ کتاب میں ایک کے بعد دوسرے جھوٹ کے تواتر کا اور کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا ہے۔جھوٹ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ ایک قسم وہ ہے جس کو”سفید جھوٹ” کہا جاتا ہے۔ یہ کتاب ایسے جھوٹوں کا پلندہ ہے۔ نقوی صاحب کو علم نہیں ہے کہ جھوٹ بولنے کے لئے بھی عقل اور سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس کہ وہ دونوں سے ہی مطلق عاری معلوم ہوتے ہیں۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔

٭٭٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ لکھیں