ہم بھی چپ چاپ ہیں خاموش اُدَھر وہ بھی ہے

انتخاب محمد طارق اسلام آباد

ہم بھی چپ چاپ ہیں خاموش اُدَھر وہ بھی ہے

ہوش ہم کو بھی نہیں مدھوش اُدَھر وہ بھی ہے
 
 دردِ فُرقت کو اِدھر ہم بھی بھلاۓ جائیں
غم چھپانے  کو یہی مہ نوش اُدھر وہ بھی ہے
 
ایک  نغمۂ الفت کی طلب شدت سے اِدھر  بھی
 اورسننے کو ہَمہَ تن گوش اُدھر وہ بھی ہے
 
پاؤں اپنے بھی اسی سنگ مسافت چاہیں
ہم نوائی کیلئے پاپوش اُدھر وہ بھی ہے
 
 
ہنس کے ہم نے بھی ہیں درد کے لمحے جھیلے
 اور ہم جیسا ہی  سخت کوش اُدھر وہ بھی ہے
 
عشق ہم کوبھی اڑاۓ ہے فلک کی جانب
اور چاند تاروں کے ہمدوش اُدھر وہ بھی ہے
 
ہم بھی جنگل  بیابانوں میں بھٹکے جائیں
سفر عشق میں خانہ بدوش اُدھر وہ بھی ہے
 
کس کے سر جاۓ گا الزام محبت جبکہ
نِردوش اِدھر ہم بھی ہیں نِردوش اُدھر وہ بھی ہے


U

اپنا تبصرہ لکھیں