گفتگوڈائیریکٹر ریڈیو وائس آف اوسلو عزیزالرحمن جمیل

aziz8.8

aziz9.9انٹرویو ،شازیہ عندلیب
جناب عزیزالرحمان جمیل اب تک سینکڑوں افراد کے ساتھ دلچسپ اور معلوماتی انٹر ویو زنشر کر چکے ہیں۔ان کا ہر پروگرام اپنے پیچھے ایک تشنگی چھوڑ جاتا تھا کہ ان کے بارے میں بھی جانا جائے جو دوسروں کے پیغامات ہم تک اتنے بے لوث طریقے سے پہنچاتے ہیں۔آج کی مصروف زندگی کی کشا کش میں کسی کے پاس کسی کے لیے فالتو وقت نہیں۔مگر ایسے لوگ بھی ہیںجو باقائدگی سے اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں بڑے پر خلوص انداز سے ہمیں مختلف لوگوں سے ملواتے ہیں ۔ہر بار دل میں ایک تجسس ابھاردیتا کہ ان کے بارے میں بھی کچھ معلوم کیا جائے، وہ کون ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں؟ یہ سب کیوں اور کس طرح کر لیتے ہیں؟اس تجسس نے اس پر خلوص شخصیت کا انٹرویو لینے پر اکسایا جو اردو فلک قارئین کی خدمت میں پیش کیاجا رہا ہے۔اردو فلک پر پیش کیے جانے والے انٹر ویوز کا مقصد پاکستانی کمیونٹی کے قابل اور پرخلوص لوگوں کو متعارف کرانا اور ان کے بارے میں جاننا ہے تاکہ دوسروں کے دلوں میں بھی بے لوث خدمت سے بھر پور جذبے ابھریں اور یوں دیے سے دیا جلتا چلا جائے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی رائے دے کر اس کوشش کو بار آور کریں۔

وائس آف اوسلو کے معروف براڈ کاسٹر اور ڈائیریکٹر عزیز الرحمان سے گفتگو
عزیزالرحمان جمیل ناروے اور بالخصوص اوسلو کی پاکستانی کمیونٹی کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔
آج اردو فلک کے قارئین کے لیے نہائیت فخر سے قارئین کی خدمت میں جناب عزیزالرحمان سے کی گئی گفتگو پیش خدمت ہے

۔
عزیزالرحمان نے بتایا کہ میرا آبائی گائوں بھاٹہ مندرہ گوجر خان ہے۔ناروے سے ایم بی اے کیا اور آجکل الحمد للہ اوسلو کمیون میں اکائونٹ مینیجر ہوں۔فراز نے کہا تھا کہ
شکوہء شب ظلمت سے تو بہتر تھا کہ
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ہر کوئی اپنے لیے تو کام کرتا ہے مقصد حیات یہ بھی ہونا چاہیے کہ معاشرے اور کمیونٹی کی خدمت کے لیے بھی وقت نکالیں۔کوئی ایسا پودہ لگائیںجس کی مہک سے دوسرے بھی فیضیاب ہوتے جائیں۔کوئی ایسا گلشن اگائیں جس کی خوشبو پھیلتی جائے۔بقول شاعر
جیوں تو یوں جیوں ہر کوئی احترام کرے

مروں تو یوں کی دشمن بھی سلام کرے

میں کہتا ہوں اس دنیا میں تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں پوت ،دپوت اور سپوت۔پوت لوگ اپنانام بھی بدنام کرتے ہیں ۔والدین کا نام بھی بدنام کرتے ہیں۔ کمیونٹی کا نام بھی بدنام کرتے ہیں۔ہم نے دیکھا جن ہاتھوں میں کتاب زیب دیتی تھی ان ہاتھوںمیں چاقو اور اصلحہ دکھائی دیا۔اچھا دوست اچھائی کی طرف اور برا دوست برائی کی طرف لے جاتا ہے۔اسی لیے دوست دوست سے پہچانا جاتا ہے۔برے د وستوں کی سوسائٹی نے A اور B گینگز کو جنم دیا۔یہ نوجوان خود بھی بد نام ہوئے والدین کے نام کو بھی رسوا کیا۔کمیونٹی کو بھی رسوا کیااور آنے والی نسلوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنے۔خدا ہمیں پوتوں سے محفوظ رکھے لیکن ہر معاشرے میں پوت دپوت اور سپوت پائے جاتے ہیں۔
دپوت اپنا نام بدنام تو نہیں کرتے لیکن روشن بھی نہیں کرتے۔اپنے ذاتی کام میں مگن رہتے ہیں ۔حرس لالچ ،طمع انہیں مزید سے مزید تر کی جستجو لیے کام میںغرق رکھتی ہے۔اوور ٹائم کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔صحت سے بے نیاز ،پیسے کی تمنا ،دولت کی حسرت کار اور بنگلوں کی آرزو لیے یہ چوبیس میں سے بیس گھنٹے کام میں گزار دیتے ہیں۔کسی نیک کام کی دعوت دی جائے معاشرے میں کسی نیک کردار کی دعوت دی جائے تو یہی کہ کر چل پڑتے ہیں کہ کام سے ہی فرصت نہیں۔جب دنیا والوں کے لیے ان افراد نے ٹائم دیا ہی نہیں تو پھر دنیا والے انہیں مرنے کے بعد کیا یاد رکھیں گے۔
لیکن سپوت وہ ہوتے ہیں جو اپنا نام بھی روشن کرتے ہیں اور اپنے والدین کا نا م بھی روشن کرتے ہیں۔اور کمیونٹی کانام بھی ر وشن کرتے ہیں۔یہ سپوت ہمیں کبھی قائداعظم کی شکل میں نظر آتے ہیں۔کبھی علامہ اقبال کی شکل میں ا ور کبھی طارق بن ذیاد کی شکل میںجو اسپین کے ساحل سمندر پر پہنچ کر اپنی کشتیاں جلا دیتا ہے۔فوج یہ کہتی ہے واپس کیسے جائیں گے؟طارق کہتا ہے سامنے فوج ہے پیچھے سمندر ہے کہا کہ تم نے مڑنا ہے تو سمندر میں چھلانگ لگا کر غرق ہوجائو یا پھر دشمن کا مقابلہ کرو۔مر جائو تو شہید زندہ بچو تو غازی۔اقبا ل بھی اس سپوت کو دیکھ کر رہ نہ سکا اور بول اٹھا
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

بات طویل ہو گئی ۔مختصر یہ کہ کمیونٹی کی خدمت کا جذبہ لے کر ریڈیو کا قیام ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔

aziz3.1
اپنے آبائی گائوں اور بچپن کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میری پیدائش پاکستان کی ہے لیکن کم سنی میں ہی ناروے آیا ۔اردو کو اپنا ورثہ سمجھتا ہوں۔والد صاحب کی تحریروں،شفقت اور اساتذہ کی رہنمائی نے اردو سکھا دی۔
میں تقریباً سات سال سے پروگرام کر رہا ہوں۔اس فیلڈ میں مختلف لوگوں سے واسطہ پڑتا اہے لوگوں کے الفاظ سے لوگوں کی شخصیت کے نکھار کا بھی پتہ چلتا ہے۔ انکی قابلیت اور حاضر دماغی کا بھی ایک مرتبہ ایک معروف شخصیت سے اچانک سوال کیا تو وہ سہم گئے۔چارپانچ منٹ بالکل کاموش رہے پھر فرمانے لگے مجھے تھوڑی دیر سوچنے کا موقع دیں۔پھر ریکارڈ کیجیے گا۔بہر حال یہ ایک دلچسپ فیلڈ ہے۔
اپنے مستقبل کے ارادوں کے بارے میں بتاتے ہوئے عزیز الرحمان صاحب نے کہا کہ تمنا تو یہی ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے پاکستانی کمیونٹی تارکین وطن کمیونٹی اور اس معاشرے میں اپنا کردارا داکر سکوں۔پاکستانی کمیونٹی کو مزید موثر اور بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ہمیں مقامی سطح پر اچھے پلیٹ فارم اور مثبت سرگرمیوں کے انعقاد کے لیے مزید سرگرم ہونا پڑے گا۔اچھے ماحول کے لیے اچھے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔اس کے لیے ہمیں خود تگ و دو کرنا ہو گی
بقول شاعر
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

aziz12.12

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو اچھے دوست اور اچھا ماحول ملے تو اس کے لیے وقت کی قربانی دینی ہو گی۔اپنے بزرگوں کے خیال کے لے اچھے مراکز کا انعقاد کرنا ہو گا۔ایک دوسرے سے آشناء ہونے کے لیے اور مسائل کے حل کے لیے آگے بڑہنا ہو گا۔میں ان مقاصد اور کاز کے لیے سرگرم ہوں۔اور مزید اچھے ساتھیوںکی تلاش ہے تاکہ یہ کام مزید آگے بڑھ سکے۔
وقت کے ساتھ ساتھ پروگرامز میں ہم مختلف تبدیلیاں لے کر آئے۔کوشش یہی رہی کہ اس پلیٹ فارم کو مزید بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔الحمد للہ بہت سے افراد جب ملتے ہیں تو پرو گرامز کو سراہتے ہیں۔محبت کا اظہار فرماتے ہیں حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ہماری کوشش یہ رہی ہے کہ ریڈیو صرف سننے تک محدود نہ رہے بلکہ کال کے ذریعے لوگ اپنا بھر پور اظہار خیال کریں۔مسائل کا اظہار کریں اور ان کے حل کے لیے تجاویز سامنے لائیں۔اس طرح ہماری صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو گا۔بات کرنا اور بات سننا آئے گی۔اور ہم اپنا راستہ خود متعین کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
اپنے پروگرام میں حصہ لینے والوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بلا تفریق ہمارے پروگرامز میںمیں ہر فیلڈ سے افراد شامل ہوئے ہیںسیاسی ،سماجی رفاعی،اور مذہبی رہنماء سفارتکارعوامی وزیر مشیر وغیرہ وغیرہ۔
الحمد للہ عمومی طور پر سبھی کی اچھی رائے اور مثبت تاثرات ہیں۔کچھ تو نا آشنا مختلف پرو گرامز میں صرف آواز سن کر ملاقات کا شرف بخشتے ہیں۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری محنت رائیگاں نہیں جا رہی ہے اور پیغام پھیل رہا ہے۔
ریڈیو ار ٹی وی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ریڈیو کی اپنی افادیت ،اہمیت اور مقام ہے اور ٹی وی کا اپنا۔ہم نے سوچا جہاں سے موقع ملتا ہے شروع کرنا چاہیے۔ریڈیو اب بھی ایک موثر ذریعہ ہے جس کے ذریعے سے آپ لوگوں کے دلوں پہ دستک دے سکتے ہیں۔گاڑی بس ٹرین اور گھروںمیں بیٹھے باتوں کو سن بھی سکتے ہیں اور پیغام بھی دے سکتے ہیں۔ایک ہی وقت میں گاڑی ٹیکسی بس میں دیگر کام بھی کر سکتے ہیں۔اور حالات سے با خبر بھی ہو سکتے ہیں۔
مشکل ترین پروگرام یا زندگی کی مشکل کے سوال پر عزیزالرحمان نے کہا کہ زندگی مشکلات سے نبٹنے کا نام ہے۔مشکلات آتی ہیں او ر حل ہوتی رہتی ہیں۔ ہم تمام پروگرام رضاکارانہ طور پر کرتے ہیں۔تنقید آسان اور عمل مشکل ہوتا ہے ۔ریڈیو میں مختلف ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ٹیکنیل کام فون آپریٹر انٹر نیٹ میزبان وغیرہ۔اس کے لیے جتنے لگن والے ساتھی میسر ہوں گے کام اتنا ہی آسان ہو گا۔میں اپنی تمام ٹیم کا شکریہ ادا کروں گا اور اگر کوئی مزید ہماری ٹیم میں شامل ہونا چاہے تو میں اسے خوش آمدید کہتاہوں۔یہ آپکا اپناپلیٹ فارم ہے۔
جیسے کہ پہلے عرض کیا سننے والوں کی تعداد الحمد للہ کافی ذیادہ ہے جو حوصلہ افزائی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔بہر حال اب وقت یہ تقاضا کرتا ہے کہ ریڈیو صرف سننے کی حد تک ہی محدود نہ رہے بلکہ پرو گرامز میں آکر اپنے خیالات کا اظہار کریں اس طرح پرو گرام میں مزید جان پیدا ہو گی۔اور یہ دو طرفہ کمیونیکیشن کا ذریعہ بن جائے گا۔
سب سے بہترین پروگرام کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر والدین کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں۔اس لیے کسی پرو گرام کو بہترین کہنا آسان نہیں۔بے شمار پرو گرام کیے اب تو سبھی یاد بھی نہیں۔البتہ موجودہ صحت کے پرو گرام کے لیے ہم کافی محنت کر رہے ہیں۔پرو گرام سے پہلے بھی پلاننگ میٹنگز ہوتی ہیں۔اور پرو گرام کے بعد بھی جائزہ لیتے ہیں۔
اپنے پروگرام میں انٹر ویو کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہر شخصیت مختلف ہوتی ہے ہر پھول کی اپنی خوشبو اور حسن ہوتا ہے۔شخصیت کی ذمہ داری پر ڈیپنڈ کرتا ہے کہ اس سے کتنے سخت سوالات پوچھے جائیں اور وہ کتنی اعلیٰ ظرفی سے اسکے جوابات دیتا ہے۔نارویجن میں ہم نے مختلف پروگرامز کیے ۔یہاں ناروے کے وزرائ،مشیر محکمہء تعلیم اور مختلف ادوروں سے وابستہ افراد کے انٹر ویوز لیے ہیں۔
ریڈیو چینل ایک ایس میڈیا ہے کہ آپ فورً ایک ہی لمحہ میں ایک خبر کو دنیابھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا سکتے ہیں۔سوشل میڈیا کا استعمال آپ پر موقوف ہے آپ صحیح کرتے ہیں یا غلط۔لیکن بہر حال اسکی اہمیت اپنی جگہ بہت ذیادہ ہے۔
پروگراموں کی گنتی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ بہت ذیادہ پروگرام کیے ۔کتنے !!!اب تو گنتی بھی یاد نہیں۔ہفتے میں دو دو یا تین تین پروگرامز بھی کیے اور مسلسل سات گھنٹے کے پروگرام
بھی کیے۔

aziz11.11
تنظیمی کام کی بات کرتے ہوئے کہا کہ الحمد للہ مختلف تنظیموں میں اپنا حصہ ڈال رہا ہوں۔ناروے کی رابطہ کمیٹی برائے تارکین وطن اور نارویجن حکومت KIM میں پندرہ سال اوسلو کی نمائندگی کی۔دس سال سے اوسلو کے امیگریشن بورڈ میں رہا اور آجکل اسکا چیئر مین ہوں۔اوسلوکے وہ علاقے جہاں تارکین وطن کی تعداد سب سے ذیادہ ہے ۔ ان علاقوں میںحکومت کی امداد سے بننے والی کثیر الثقافتی بورڈ کا چیرمین رہا اور اسی علاقے کی ایک تنظیم سے ہم
Sønder Norstrand in Vandre forenningen کے پلیٹ فارم سے مختلف سرگرمیاں کر رہے ہیں۔حال ہی میں ہماری تگ ودو سے تارکین وطن کے بزرگوں کے لیے بزرگوں کا مرکز منظور ہوا ہے۔اسی طرح پاکستان کے یتیم بچوں کو دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ایک ادارہ اقائم کر کے وہاں بھی سرگرم ہیں۔اس ادارے میں بچے وہیں رہائش پذیر ہیں۔اور تعلیم کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے کہ نیکی کے کام ہو رہے ہیں۔
قوم کے نام پیغام
ہمارے بھی گزریں گے کارواں اکثر
ہمیں یہ راہ کے پتھر سمیٹنے ہوں گے
کمیونٹی کی خدمت ،نسل نو کی تربیت اور مسائل کے حل کے لیے آپ اپنا کردار ادا کیجیے۔قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ہر کوئی اگر اپنا فرض اداکرے تو مسائل کافوری خاتمہ ہو سکتا ہے۔اور ہم ایک بہترین پلیٹ فارم بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

6 تبصرے ”گفتگوڈائیریکٹر ریڈیو وائس آف اوسلو عزیزالرحمن جمیل

  1. یں آپ کی ویب سائٹ دیکھیں. یہ بہت اچھی ویب سائٹ ہے. میں اخبار میں صحافی ہوں. میں آپ کی ویب سائٹ میں مضامین، خبریں اور انٹرویو بھیجنے کے کیا کروں.

    وسیم ساحل
    کراچی پاکستان

  2. Having read this I believed it was rather enlightening.
    I appreciate you taking the time and effort to put this short
    article together. I once again find myself personally spending a lot of time both reading and commenting.
    But so what, it was still worth it!

اپنا تبصرہ لکھیں