طاہرہ سید ایک لیجنڈ

شوبز—- 9
(ہندوپاک کے بھولے بسرے گلوکاروں کی یاد سیریز)

پیش کش ____عمران عاکف خان، نئی دہلی

رم جھم رم جھم پڑے پھوار،تیرا میرا نت کا پیار
چھن چھن باجیں من کے تار، تیرا میرا نت کا پیار
آئے مرے پاس تو ایسے، دور کبھی نہ جائے
مرجھائیں نہ دل کی کلیاں، ایسی بھی رُت آئے
آئے نہ پت جھڑ رہے بہار، تیرا میرا نت کا پیار
آ بچپن کے بچھڑے ساتھی، کیوں مجھ کو ترسائے
عمر گزاری رو رو میں نے، کاہے دیر لگائے
سامنے آجا پھر اک بار، تیرا میرا نت کا پیار

کوئل فلم 1959 کے لیے تنویر نقوی کا لکھا ، میڈم نور جہاں کی سحرآگیں آواز اورخواجہ خورشید انور کی موسیقی سے سجا یہ نغمہ، جب طاہرہ سید نے پی ٹی وی کی ایک تقریب میں گایاتو جس نے سنا،دنگ ہی تو رہ گیا۔دھیمے سُروں اور دل فریب انداز میں گایا گیا یہ نغمہ اور نغمہ سنج دونوں ہی ٹی وی لاؤنج کے اندر اور دور کے ناظرین کے احساسات میں سماتے چلے گئے۔
طاہرہ سیدنے 1958کو لاہور میں ملکہ پکھراج اور شبیر حسین کے گھر آنکھیں کھولیں۔ملکہ پکھراج،کی شخصیت شوبز کے شائقین کے لیے محتاج تعارف نہیں ہے، چنانچہ باکمال ماں کی بیٹی بھی ان کے نقش قدم پر چلنے لگی اور موسیقی کی ابتدائی تعلیم بھی ان ہی سے لی۔1968-69میں جب وہ محض گیارہ برس کی تھیں،انھیں ریڈیو پاکستان سے دعوت نامہ آیا۔یہیں سے انھوں نے اپنے نغمہ سرائی کیرئیر کا آغاز کیا۔طاہرہ کی من موہنی آواز کا جادو جب سرچڑھ کر بولنے لگا توانھیں پی ٹی وی کے نیشنل اسٹوڈیو مدعو کیا گیاجہاں انھوں نے پہلے ہی شومیں احمد فراز اور حفیظ جالندھری کی شہرۂ آفاق غزلیں’یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے‘ اور ’ ابھی تو میں جوان ہوں‘ گاکر پاکستانی شوبز کی دنیا کو مسحور کردیا۔اس کے بعد تو طاہرہ سید کا کاروان نغمہ سرائی پَر لگا کر اُڑنے لگااور شہر شہر اس خوش بو کی پذیرائی ہونے لگی۔ طاہرہ سید پہاڑی، راگ راگنی،سرائیکی،پنجابی،اردو، بے تکلف گاتی چلی گئیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ جس جس نغمے کو بھی انھوں نے گایا،اسے حیات جاوداں ملتی چلی گئی۔مجروح سلطان پوری کے بقول:

دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں نہیں
جس کو میں چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا

ایک وقت وہ آیا جب انھوں نے ملکہ پکھراج کی موسیقی میں ڈھلی شاعر رومان اختر شیرانی کی غزل :
ہراک جلوۂ رنگیں مری نگاہ میں ہے
غم فراق کی دنیا دل تباہ میں ہے

اور نواب مرزا داغ کی غزل:

اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جائیے
اللہ تیری شان کے قربان جائیے

جیسی غزلیں گائیں تو انھیں گویاعنوان ہی مل گئے ہوں۔طاہرہ سید کا یہ سفر جاری رہا اور ان کی جھولی میں1972میں لالی ووڈ انڈرسٹری کا ’نگار ایوارڈ ‘ برائے بیسٹ فی میل پلے بیک سنگرآگرا۔ 1975میں جب طاہرہ کا ستارہ عروج پر تھا،لاہور ہائی کورٹ کے وکیل، نعیم بخاری سے ان کی شادی ہو گئی جو 1990 تک جاری رہی ،یعنی کل 15برس۔جب انھیں طلاق ہوئی تو وہ دو بچوں کی ماں تھیں۔کہتے ہیں انھیں میاں نواز شریف سے عشق ہو گیا تھا۔میاں صاحب ان ہی دنوں بھاری اکثریت سے پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو ئے تھے۔نعیم بخاری سے یہ ستم برداشت نہ ہوسکا اورپھر وہی ہوا۔طاہرہ نہ اِدھر کی رہیں نہ اُدھر کی۔لازماً انھیں تنہائیوں نے آگھیرا۔پھر وہ کشاں کشاں اپنے مداحوں کے حلقے سے دور ہوتی چلی گئیں اور پاکستانی شوبزانڈسٹری ایک لیجنڈ سے محروم ہوگئی۔تادم تحریر طاہرہ سید زندگی کی61ویں بہار دیکھ رہی ہیں اور ان کے پاس نیشنل جیوگروفیکل میگزین کا کورپیج ہے جس پر ان کی تصویر ہے اور 23 مارچ 2013 کا پی ٹی وی کی جانب سے عطا کردہ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوراڈ اور تمغۂ حسن کارکردگی ہے۔ان اعزازت پر وہ مملکت پاکستان کی احسان مندبھی ہیں اور اپنے یادگار دنوں کی بہاروں سے من کا سونا آنگن بھی منہکائے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں