کہاں وعدے سے پھرنا ہے نظم

شاعرہ صدف مرزا ڈنمارک
کہاں وعدے سے پھرنا ہے
کہاں وعدہ نبھانا ہے
کہاں پہ جان دینی ہے
کہاں پہ جاں بچانی ہے
کسے برق نگاہ سے برباد کرنا ہے
کہاں پلکوں کے آنچل سے خود کو بچانا ہے
کہاں قدموں تلے ہم نے ستارے لا بچھانے ہیں
ہمیں کو تو بتانا تھا

اپنا تبصرہ لکھیں