کہاں وعدے سے پھرنا ہے نظم فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ شاعری جون 13, 2012June 13, 2012 0 تبصرے 50 مناظر شاعرہ صدف مرزا ڈنمارک کہاں وعدے سے پھرنا ہے کہاں وعدہ نبھانا ہے کہاں پہ جان دینی ہے کہاں پہ جاں بچانی ہے کسے برق نگاہ سے برباد کرنا ہے کہاں پلکوں کے آنچل سے خود کو بچانا ہے کہاں قدموں تلے ہم نے ستارے لا بچھانے ہیں ہمیں کو تو بتانا تھا Post Views: 71
درست کہا شبانہ سمجھ تبھی لگے گی جب اسکی دوسری قسط لگے گی۔ تبصرہ کا شکریہ ہمارے ساتھ رہیں۔