میں گنجہ تھا مگر اتنا نہیں تھا

میں گنجہ تھا مگر اتنا نہیں تھا

میں گنجہ تھا مگر اتنا نہیں تھا

علیم خان فلکی ۔ جدہ

تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا

میں گنجہ تھا مگر اتنا نہیں تھا

آج لڑکی نے اک لڑکے کو پیٹاکہا اس سیکہ کیوں چھیڑا نہِں تھا
مرے دامن کے دھبے گِن رہا تھااسکے کمرے میں آئینہ نہیں تھا
نہ جہیز اور جوڑا کچھہ لیا وہوہ کڑکا تھا مگر لچہ نہیں تھا
جو دشمن تھا رہا دشمن تو میراجو میرا دوست تھا میرا نہیں تھا
ہے مہنگائی نے مجھہ کو زندہ رکھامیں پی جاتا زہر سستا نہیں تھا
اسے بس جی حضوری ہی نہ آئیوہ بھوکا تھا مگر ننگا نہیں تھا
مجھکو بیوی لگی سونم سے بہترمیں اندھا تھا مگر اتنا نہیں تھا
علیم خان فلکی ۔ جدہ

اپنا تبصرہ لکھیں