معروف مزاح نگار شہزاد بسریٰ کا اردو فلک کے لیے خصوصی انٹر ویو

taaruf doc1

ڈاکٹر شہزاد بسراء کا ادبی سفر
حس مزاح کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی جاتی ہے اسکی حس مزاح معدوم ہوتی جاتی ہے۔ہمارے ہاں مزاج میں سنجیدگی بڑھتی جاتی ہے جبکہ کام میں سنجیدگی نہیں بڑھتی۔ہم لوگ کام سے مذاق کرتے ہیں مگر ہونا تو یہ چاہیے کہ انسان کام میں سنجیدہ ہو اور مزاج میں شگفتگی ہو۔جیسے جیسے انسان بوڑھا ہوتا جاتا ہے وہ لوگوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے لگتا ہے اور مزاج سے شگفتگی رخصت ہونے لگتی ہے جو کہ ایک منفی رویہ ہے۔
میں نے بچپن سے ہی خوش رہنا اور خوش رکھنا سیکھا۔شروع سے ہی بچوں کا ادب میرے زیر مطالعہ رہا۔میں بچوں کے مختلف رسائل و کتب پڑھتا تھا جن میں تعلیم و تربیت،کھلونا، اردو ڈائجسٹ ریڈر بچوں کی دنیا اور سیارہ ڈائجسٹ وغیرہ شامل تھے۔ایف ایس سی کے بعد پتہ چلا کہ ڈائری بھی لکھتے ہیں۔میں نے لوگوں سے پوچھا کیسے اور کیا لکھتے ہیں۔پھر میں نے سوچا کہ آخر ڈائری میں روز مرہ کے واقعات لکھنا کیاضروری ہیں؟ کیا اورکب کھایا کیا پیا۔یہ بھی کوئی لکھنے کی باتیں ہیں۔میں نے اس میں ہلکی پھلکی شعرو شاعری لکھنی شروع کر دی۔دوہزار آٹھ میں امریکہ سے واپس آیا توامریکہ کے بارے میں لکھا۔پھر میں نے مختلف مضامین بھی لکھے ۔میں نے ایک دن اپنی بیگم کو اپنے مضامین دکھائے ۔وہ دیکھ کر بڑی حیران ہوئیں۔میری بیگم کی عادت ہے ہ وہ میرے کاغذات کو نہیں چھیڑتیں۔وہ میری تحریریں دیکھ کر بہت حیران ہوئیں کہنے لگیں کہ یہ آپ نے لکھا ہے؟ حد ہو گئی مجھے کبھی بتایا ہی نہیں۔ میں یہی سمجھتی رہی کہ یوسفی، انشاء کے چٹکلے ہی لکھتے ہیں۔آپ سمجھتے ہیں ناں کہ میں خود لٹریری ہوں اور ادب سے دلچسپی رکھتی ہوں آپ کے لیے میرا مشورہ ہے کہ آپ لکھا کریں ۔میں یہ بات پوری سنجیدگی سے کہہ رہی ہوں یہ مذاق نہیں ہے۔یہ میری پہلی موٹیویشن تھی۔
پھر یونیورسٹی میں میرا ایک اسٹوڈنٹ ، نعیم مشتاق،ایک ویب سائٹ پہ لکھا کرتا تھا۔میں نے اپنے مضامین اسے دکھائے۔اس نے کہا کہ سر آپ لکھا کریں۔آپ یہ مضامین ویب سائٹ پہ بھیجیں ۔پھر میں نے اپنی ڈائری کی تحریروں کو مضامین کی شکل دی تو وہ بہت زیادہ پسند کیے جانے لگے۔

sh2

مزاح کا عنصر وراثتی یا فیصل آباد کے ماحول کا اثر؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شہزاد بسرانے کہا کہ ادبی مزاج میری پوری فیملی میں ہے۔میرے والد صاحب کو فارسی شاعری سے بہت رغبت تھی اور حافظ، سعدی، اقبال کا فارسی کلام اکثر سُنایا کرتے تھے۔جب چاہتے جس موضوع پر چاہتے لوگوں کو ہنسا دیتے ا ور رلا بھی دیتے۔اصل میں میرا پورا ننہالی خاندان قصہ گو ہے۔کچھ لکھتے بھی ہیں۔کچھ شاعر بھی ہیں۔میرے اسٹوڈنٹس کہتے ہیں کہ آپ جو بولتے ہیں وہ ہم لکھ نہیں سکتے۔اور مجھے لیکچر کے دوران نہیں پتہ ہوتاکہ میں کیا بول رہا ہوں ۔مجھے بس طالبعلموں کے ہنسنے کی آوازیں آتی ہیں۔پھر میں وہ کلاس کی کچھ باتیں لکھ دیتا ہوں اور مضمون بن جاتا ہے مگر میں نے کبھی کچھ سوچ کر نہیں لکھا جو ذہن میں آتا ہے لکھتا چلا جاتا ہوں۔مجھے کئی اخباروں والے کہتے ہیں کہ شہزاد صاحب آپ ہمارے اخبار میں لکھا کریں لیکن میں ایسے ارادے سے تو نہیں لکھتا ۔یہ تو موڈکی بات ہے۔جیسے شاعروں پر آمد ہوتی ہے اسی طرح ذہن میں جب خیالات کی آمد ہوتی

shehzad mzahہے تو وہ تحریر کے سانچے میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں ۔یہ سب بلا ارادہ اور اچانک ہوتا ہے۔
فیصل آباد کا مزاح بہت مشہور ہے۔یہ بات درست ہے۔لوگ چلتے پھرتے مذاق کرتے ہیں۔ یہاں تو ایک پھل والا اور ایک ریڑہی والا بھی مذاق کرتا ہے۔ہم لوگ تو اس بات کے عادی ہو چکے ہیں۔لیکن میں مزاح میں جگت کو پسند نہیں کرتا۔اس میں لوگوں کی شکل اور چال ڈھال کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔جس سے اس شخص کو تکلیف پہنچتی ہے اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔جس پر جگت لگتی ہے اسے یہ بات بری لگتی ہے گو باقی سب انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ اپنی جگت لگائی جائے اورا پنے اوپر ہنسا جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بات سے بات نکلتی ہے ہر ایک کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے بات کرنے کا۔مثال کے طور پر ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا میرے بھائی کا کیا نام ہے ؟وہ شخص کہنے لگا مجھے کیا پتہ آپ کے بھائی کا کیا نام ہے؟
اصل میں سوال کرنے والے کا مطلب تھا کہ آپ کا کیانام ہے مگر اس نے اسے دوسرے انداز میں لیا۔
زندگی کے قابل فخر کارناموں کے ذکر پر انہوں نے کہا کہ شائید فخر والا کوئی کارنامہ تو نہیں ہے لیکن میں نے فصلوں پر جو ریسرچ کی ہے اس کے لیے بہت خوشی ہے میں نے مورنگا پلانٹ لوگوں میں متعارف کرایا جس کے بیشمار فوائد ہیں۔پہلے تو لوگ اس طرف نہیں آتے تھے لیکن پھر اب دوسرے لوگوں نے بھی یہ کام شروع کر دیا ہے ان میں بھی یہ رجحان فروغ پا گیا ہے۔اگر یہ کر رہا ہے تو ہم بھی کر لیں۔مجھے فخر سے لوگ کریڈٹ دیتے ہیں۔
آجکل میں نے ایک اور نئے پودے پر ریسرچ کی ہے جس کا نام ہے کنواہ اور ایک سُپر فوڈ ہے۔یہ کلروالی زمین پر اگتا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اس کا شماردنیا کی اہم فصلوں میں ہو گا۔اصل میں یہ گندم اور چاول کا نعم البدل ہے۔اور دنیا کا مہنگا ترین سیریل ہے۔گندم ہزار رپے کی من جبکہ یہ تین ہزار روپے کی ایک کلو گرام ہے۔ابھی تک ساڑھے آٹھ سو ایکڑ پر اس کی کاشت کاری کی گئی ہے۔پاکستان کا کنوا ہ بین اقوامی مارکیٹ میں بہت مانگ پید اکر سکتا ہے۔پھر وہ دن دور نہیں کہ جہاں جہاں کنوا کی کاشت ہو وہاں بندوق بردارپہرے دار کھڑے کرنے پڑیں۔یہ غذائیت میں گندم اور چاول سے بھی بہتر ہے۔ہمارے شمالی علاقوں میں مکئی کے بجائے کنواہ کاشت ہو سکتی ہے

جاری ہے

اپنا تبصرہ لکھیں