فلمی اداکار مصطفیٰ قریشی کی اوسلو آمد پر ایک گفتگو

گفتگو شازیہ عندلیب

مصطفیٰ قریشی پاکستانی فلم اندسٹری کے ایک لیجینڈ اداکار ہیں۔ جن کی ایکٹنگ اور ڈائیلاگ کی مخصوص ادائیگی نے فلم بینوں کے ذہنوں پر انمٹ نشان چھوڑے ہیں۔ یہ مصطفیٰ قریشی کی اداکاری کا کمال تھا کہ انکے فلمی ڈائیلاگ زبان زد عام ہوئے اور ان کا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا۔جسے وہ بہت مخصوص جارحانہ اور دہلا دنے والے انداز میں ادا کیاکرتے تھے۔اس ڈائیلاگ کو سننے کی فرمائش ان کے اوسلو کے دورے کے دوران بھی کی گئی جسے سن کرتقریب کے حاضرین بہت لطف اندوز ہوئے۔وہ مشہور ڈائیلاگ تھا ۔۔۔
نوا آیا ایں سوہنیا۔۔ اس شہرہء آفاق فلمی اداکار سے کی گئی گفتگو پیش خدمت ہے خاص طور سے اردو فلک کے قارئین کے لیے۔
اردو فلک ڈاٹ کام اس انٹر ویو کے لیے سکون تنظیم کے سربراہ شاہد جمیل کے تعاون کے لیے شکر گزار ہیں

فلمی اداکار مصطفیٰ قریشی کی اوسلو آمد پر ایک گفتگو
مصطفی قریشی اردو فلمی انڈسٹری کے ایک جانے پہچانے اداکار ہیں۔اردو فلموں کے شائقین ان کی شخصیت اور وراسٹائل اداکاری سے خوب واقف ہیں۔انہوں نے بیشمر اردو اور پنجابی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر اپنے فن کا لوہا منوا لیا ہے۔مصطفیٰ قریشی اکثر فلموں میں مار دھاڑ والے کردار بڑی خوبی سے نبھاتے نظر آتے ہیں۔اوسلو میں وہ اپنی کسی فلمیشوٹنگ کے لیے نہیں بلکہ ایک فلاحی تنظیمسکون کے پروگرام میں شرکت کے لیے خاص طور سے آئے تھے۔اس موقع پر مصبفیٰ سے کی گئی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
اوسلو میں پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماشا للہ انہوں نے نا قابل فراموش محبتیں دی ہیں۔یہ وہ پاکستانی ہیں جو اپنا وطن چھوڑ کر یہاں دن رات محنت کرتے رہے ۔یہاں انہوں نے کئی کئی مہینے اور سال سخت محنت میں گزارے۔اب ان کے پاس خوشحالی اور آگے بڑھنے کے اچھے مواقع ہیں۔لیکن ایک بات ان میں منفی ہے ۔وہ یہ ہے کہ ان میں باہمی اخلاق اور اتفاق کی کمی ہے۔انہیں یہاں مل کر رہنا چاہیے۔جبکہ پاکستان کے ساتھ محبت بہت ہے۔اس لیے کہ ان کے روٹس اپنے وطن میں ہی ہیں۔یہ اب بھی پاکستان کی جانب ہی کھنچتے ہیں۔وہاں اپنے خاندانوں اور ضرو رت مندوں کو رقوم بھی بھیجتے ہیں۔
پاکستان ی معاشرے کی عمومی اخلاقی گراوٹ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ۔ہمیں جہاں بھی موقع ملتا ہے ہم اس بارے میں ضرور گفتگو کرتے ہیں ۔اگر سو بندوں میں سے دس لوگوں کو بھی بات سمجھ آجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ حق ادا ہو گیا۔باقی پاکستان ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے بھی بین الاقوامی میڈیا کی نظروں میں جلدی آ جاتا ہے اور عالمی سطح پر اسکی کمزورویوں کو ذیادہ اچھالا جاتا ہے۔جبکہ خود ترقی یافتہ ممالک میں بھی پاکستان سے کہیں ذیادہ بڑھ کر خامیاں پائی جاتی ہیں ۔جن کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔میڈیا پاکستان کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ بیس کروڑ عوام کا ملک ہے۔اس لیے یہاں مسائل تو ہوں گے
اصل میں ہمیں لیڈر چاہیے قائد اعظم اور بے نظیر کے بعد پاکستانا کو کوئی اچھا لیڈر نہیں مل سکا۔ایک لیڈر سیاست میں حصہ لیتا ہے اور اسے چلاتا ہے جبکہ ایک حکمران ملک میں حکم چلاتا ہے اور نافذ کرتا ہے۔اب سسٹم ایسا ہو گیا ہے کہ ملک سرمایہ دار اور جاگیر داروں کے ہاتھوں میں آ گیا ہے ۔بیشتر سیاستدان اور حکمران خود جاگیرداروں کے نیچے لگے ہوئے ہیں۔جمہوریت کا صرف نعرہ لگایا جاتا ہے ۔اصل میں جمہوریت کہیں نہیں ہے۔
یہاں اوسلو میں میں نے معذور بچوں کی مدد کے لیے وہیل چئیر کی فراہمی کے لیے منعقد کی گئی ایک تقریب اٹینڈ کی۔اصل میں ہمارا تو پورا معاشرہ ہی ذہنی طور پر معذور ہے۔لیکن یہ بہت اچھا اقدام ہے جو شاہد جمیل یہاں بیٹھ کر ہم وطنوں کی خدمت سر اناجم دے رہے ہیں۔
پاکستان کی فلمی انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے زوال کے اسباب میں سے ایک وجہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی درآمد ہے۔پاکستان میں کل پندرہ سو سنیمہ گھر تھیجو کہ آج سو سوا سو رہ گئے ہیں۔ایک بھارتی فلم ڈیڑھ ارب روپئے کی لاگت سے بنتی ہے۔یہ فلمیں دوبئی کے راستے چور دروازے سے پاکستان میں لائی جاتی ہیں۔انہیں پاکستان میں چلانے کے لیے صرف کاغذی خانہ پری کی جاتی ہے۔جو کہ چھ سات لوگ امپورٹ کرتے ہیں۔گویا ہم بھارت کی اتصادی حلات کو مستحکم کر رہے ہیں۔حالنکہ بھارت کی بھی اسی فیصدفلمیں فلاپ ہو رہی ہیں۔لیکن حکومت کو ایسی پالیسی بنای چاہیے کہ اگر یہاں بھارتی فلموں کی نمائش ہوتی ہے تو پھر پاکستانی فلموں کی بھی بھارت میں نمائش ہونی چاہیے۔اوسلو میں بھی کافی اچھے ادبی لوگ ہیں انہیں چاہیے کہ وہ بھی پاکستانی فلموں کی سرمایہ کاری کی طرف دھیان دیں تو یہ اندسٹری پھر سے مستحکم ہو سکتی ہے۔فلمی بحران پر فلم بنانے کے لیے ہمیں سرمایہ کار چاہیے سنیمہ نہیں۔فلمی مارکیٹ والے پاکستان کے بڑے شہروں جیسے کراچی ملتان اور لوہور کو ترجیح دیتے ہیں۔
مصطفیٰ قریشی چونکہ ماہ رمضان میں اوسلو آئے تھے اس لیے اس مقدس مہینے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمان جہاں کا بھی ہو اسکا ایمان پختہ ہوتا ہے۔وہ روزہ نہیں چھوڑتا۔وہ جہاں بھی ہیں روزے رکھ رہے ہیں۔یہاں بیس گھنٹہ کا روزہ ہے مگر موسم اچھا ہے۔پاکستان میں دس بارہ گھنٹے کی گرمی کا روزہ رکھنا بھی مشکل لگتا ہے۔مگر پھر بھی لوگ گھر گھر روزے رکھ رہے ہیں۔باقی جو نہیں رکھ سکتے ان کے لیے دین میںآسانیاں بھی ہیں۔
اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے بارے میں انہوں نے بتایاکہ میں حال ہی میں ناروے آنے سے پہلے اپنی ایک فلم شور شرابا کی شوٹنگ ختم کر کے آیا ہوں۔ اس میں نئی کاسٹ کے علاوہ بہار بیگم اور نشو بیگم بھی کام کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ میرا بیٹا عامر قریشی بھی مختلف ٹی وی چینلز پہ کام کر رہا ہے۔جس یں رنگ لاگا بھی شامل ہے۔اس میں عامر قریشی کے علاوہ فیصل قریشی اور شہزادہ سلیم بھی شامل ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ فیصل قریشی میرا بیٹا نہیں ہے ۔مگر اکثر لوگ اسے میرا بیٹا سمجھتے ہیں مگر وہ ہے میرے بیٹے ہی کی طرح۔
میرا بیٹا عامر قریشی ایک تفریحی فلم بلائنڈ بلف میں کام کر رہا ہے۔

فلمی اداکار مصطفیٰ قریشی کی اوسلو آمد پر ایک گفتگو“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں