سا لگرہ کی ریت—

از عابدہ رحمانی

تم جیو ہزاروں سال ، عمر خضر پاؤ، جگ جگ جیو، تم جیو ہزار برس- ہر برس کے دن ہوں ہزار ہزار -یہ اور اس جیسے کتنے ہی فقرےادا کرتے ہوئے ہم لوگ اپنے پیاروں کو جھوٹی دعائیںاور خود کو طفل تسلیاں دیتے رہتے ہیں یہ تو ہماری اردو یا دیسی زبان کی نیک خواہشات یا دعائیں ہیں- لیکن اب تو ہم ہیپی برتھ ڈے مناتے ہیں- اور یہ ہیپی برتھ ڈے ان ہیپی لوگوں کو بھی ہیپی بنا دیتاہے

جب یہ صدائیںیا پیغامات آنے لگتی ہیںتو کس ظالم کو خوشی نہیں ہوتی؟  Happy Birthday to you

فیس بک کے سماجی رابطوں نے نئی نئی قدروں سے آشنا کیا ہے اس  پر یوم پیدایش ڈالدوتوسمجھو بس کام بن گیا – دیکھے ان دیکھے دوستوں ، عزیزوں رشتہ داروں کی طرف سے ایک سے ایک لپکتے چہکتے پیغامات آپکے اسدن میں خوشیوں کا رنگ بھر دیتے ہیں –

آپکے کیا یار دوست تو اب پورے خاندان کی برتھ ڈے فیسبک پر مناتے ہیں — آج اماں ، تو کل ابا ، بیٹا بیٹی ، شوہر خوشحال گھرانوں کی خوشیاں بھی نرا لی ہوتی ہیں–

ابھی چند روز پہلے میری سالگرہ منائی گئی-جب سے ہم فیس بکئے بنے ہیں تو اسکی عنایت سے ہر طرف سے ہمارے دوستوں اور عزیزوں کے مبارکبادی کے پیغامات آنے شروع ہوتے ہیں -ایک سے ایک کارڈ،گلدستے’کیک اسکے اوپربھیجے جاتے ہیں – خوشیاں بانٹنے کے کیا آسان ذرائع میسر آگئے-ہینگ لگے نہ پھٹکڑی-اور رنگ بھی چوکا آئے

اس عالم الغیب نے ہمیں انجانے رشتوں اور خوشیوں میں جکڑ رکھا ہے – اور کچھ ہو نہ ہو اپنی اہمیت کا احساس ہونے لگتا ہے کہ ابھی بھی ہم ایسے گئے گزرے نہیں اور  ہمارے کچھ چاہنے والے اللہ کے فضل سے موجود ہیں-

اور اسدن جب گھر میں فون کی گھنٹی بجی تو میں نے قریب رکھا ہوا فون اٹھا تو لیا لیکن خاموشی سے دوسرے کنکشن کی گفتگو سننے لگی اسپر میرے گھر کی دو خواتین محو گفتگو تھیں- ذکر میرا ہی تھا ا” اچھا آج 12 تاریخ ہے نا، باجی کو بتانا مت، ٹیبل لگا دو میں پھول اور کیک لے کر آ رہی ہوں-میں سوتی بنی رہی کہ اطلاع ملی آپسے ملنے کوئی آیا ہے اور یوں ہر طرف سے ہیپی برتھ ڈے کی صدائیں آئیں- ایسے ملک میں جہاں حیران کردینا سر پرائز دینا خوشیوں میں اضافہ کرنا ہے-جہاں جانتے بوجھتے بیوقوف یا سرپرائزڈ ہونے میں لطف آتا ہے-

یہ چاہت اور محبت تو ہم غریبوں کے لئے آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے-

ایک مکتبہ فکر کااعتراض ہے کہ یہ سالگرہ یا برتھڈے منانا انگریزوں، مغرب یا کفار کی اندھی تقلید ہے اور یہ ایک غیر اسلامی فعل ہے- انگریزوں نے کچھ رسومات کو ہماری ثقافت کا اٹوٹ حصہ بنا دیا – اور یہ ہیپی برتھڈے یا سالگرہ انمیں سے ایک ہے – اگر خوشیاں معصوم سی ہوں نہ اسمیں فحاشی ہو نہ بے حیائی تو ایک دوسرے کا دل رکھنے میںاور تھوڑی خوشیاں دینے اور بانٹنے میں  کیا ہرج ہے – کیک کاٹنا اور موم بتی جلانا ہمارے ایمان میں کسطرح سے مخل ہوسکتا ہے —

ماہ و سال تو کایئنات کا حصہ ہیں اللہ تبارک و تعالی نے 12 مہینوں اور سال کا حساب ہمارے لئے طے کیا – کوئی کہتا ہے کہ سالگرہ پر خوشی کیا منانی ، ارے عمر کا ایک سال گھٹ گیا ہے – اب اس سال کو تو گھٹنا ہی تھا کیا کوئ وقت کے اس سرشور بہتے ہوئے دھارے کو کہاں اور کیسے  روک سکتا ہے -وقت تو گزرتا ہی جاتا ہے چاہے رو کر گزارو ، چاہے ہنس کر گزاروسالگرہ مناؤ یا نہ مناؤ سال توگزر ہی جائیگا- اسکو تو بہر حال گزرنا ہی ہے — محمود غزنوی نے اپنے غلام سبکتگین کو اپنی انگوٹھی پر  کچھ لکھنےکو کہا اور وہ لکھ لائے“ یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا”

لیکن اب اس  یوم پیدائش کے ساتھ پیاروں کی اتنی توقعات وابستہ ہو گئی ہیں کہ اکثر کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ ہم کو تو برتھ ڈے پر وش  ہی نہیں کیا- اگر اپنی یادداشت پر بھروسہ کیا جائے تو بمشکل کچھ تار یخیں یاد رہ پاتی ہیں اب یا تو لکھ کر رکھ لو یا پھر اس کمپیوٹر پر یاد دہانی کے طور پرکیلنڈر میں  ڈالدو- یوم پیدایش کی سالگرہ ، شادی کی سالگرہ اور منانے والے تو کس کس چیز کی سالگرہ مناتے ہیں  ایک زمانہ تھا کہ ہم نے بھی  کچھ خوشیوں کی ہفتہ وار ، ماہوار ، سہ ماہی، ششماہی منائی –وقت جو کہ گزر ہی جاتاہے اور خوشیاں تو ہوا کی طرح اڑ جاتی ہیں –

جو زندہ ہیں انکی سالگرہیں تو پھر بھی درست ہیں لیکن جو دنیا سے جاچکے ہیں انکی سالگرہوں کی دھوم بھی کم نہیں ہے – کرسمس میں عیسائی عقیدے کے مطابق عیسٰی علیہ السلام کی سالگرہ دنیا بھر میں منائی جاتی ہے اسکی دیکھا دیکھی ہمارے مسلمانوں نے بھی عید میلاد النبی منانا شروع کیا- اسی طرح دوسرے مذاہب میں انکے پیشواؤں کے یوم پیدایش مناۓ جاتے ہیں -مشہور شخصیات کی سالگرہوں کو اسی طرح منایا جاتا ہے صد سالہ ، دو صد سالہ اور اسی طرح  سے جانے والوں  کی    سا ل گرہوں کا کیا حساب دنیا سے جانے کے بعد بھی جاری رہتا ہے؟ لا محالہ اپنے جگر گوشوں اور پیاروں کا دنیا سے آنے جانے کا دن بھلائے نہیں بھولتا ، چاہے مناؤ یا نہ مناؤ- اسدن کی شدت اور دکھ  اللہ دشمن کو بھی یہ دن نہ دکھائے-

ہنوستان پاکستان یا بر صغیر میں سالگرہ کی کیا ریت ہوتی تھی کہتے ہیں کہ ایک ریشمی ڈوری پر ہر سال ایک گرہ لگا لی جاتی کوئی کہتا ہے کہ قد ناپ کر اورکہیں تذکرہ ہے کہ لڑکوں کا سینہ ناپ کر گرہ لگالی جاتی تھی- اس معاشرے میں تو لڑکے کی اہمیت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا-اور لڑکی کا کیا تھا اسکا پیدا ہونا نہ ہونا برابر تھا – پیدائش کا کیا ہے ،بر صغیر میںتو  پہلے کیاخوب طریقہ تھا –  اکثریت کو تو صحیح سے معلوم ہی نہ تھا کہ انکی پیدایش کب کی ہے؟

اکثر لوگوں نے ایسے جوڑا تھا -ارے وہ فلانے کی جب شادی تھی تو یہ ایک سال کا تھا اور جب فلاں چچا حج کرکے آئے تھے تو یہ چھ مہینے کی تھی یا فلاں سال رمضان جب گرمیوں میں آئے تھےیا عید تھی تو—- اور ہاں اسلامی برس وہ تو ہر برس انگریزی کیلنڈر سے دس روز کم ہوتا ہے اسکے حساب سے تو 60 برس میں تقریبا دو برس کا مزید اضافہ ہوتا ہے – اسلئے کچھ عقلمند اسلامی تاریخ کی اگر کوئی خاصیت ہے خاصکر رمضان اور عید وغیرہ تو یاد رکھینگے – سالوں کا حساب کتاب انگریزی کیلنڈر سے ہوتا ہے – مارے اسلامی جذبے کے بچوں کے مزے ہو جاتے ہیں کہ دو دو سالگرہ منائی جارہی ہے-

کچھ عقلمند تاریخ پیدایش کو بطور خاص اپنی ڈائری یا روزنامچے میں درج کرتے تھے اب میری پیدایش والدین کی شادی کے گیارہ برس بعد ہوئی شاید یہ وجہ تھی یا میرے والد محترم کافی منظم اور پڑھے لکھے آدمی تھے تو انہوں نے اسکا خصوصی اندراج اپنی ڈائری میں کیا تھا کہ آج میں صاحب اولاد ہو گیا ہوں- دلچسپ بات یہ ہے کہ پیدایش کا سرٹیفیکیٹ ابھی چند سال پہلے کینیڈا اور امریکی شہریت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بنایا گیا-ایک عام طریقہ تھا کہ کافی نیک اور پارسا قسم کے لوگ بھی اسکول میں داخلے کا اندراج کرتے ہوۓ عموما عمر گھٹا کر درج کرتے تھے – ایک بزرگوار سے گفتگو ہو رہی تھی انہوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ اپنے بچوں کے داخلے کے وقت انہوں نے کم از کم سال دوسال بھر کم عمر لکھوائی تھی – میں نے پوچھا کہ اسکی کوئی خاص وجہ؟ کہنے لگے اکثر ملازمتوں میں عمر کی حد ہوتی ہے – حالانکہ انکی اولاد میں کوئی بھی سرکاری ملازمت میں نہیں گیا – لڑکیوں کی عمر کا اندراج تو خاص طور سے گھٹا کر کیا جاتا ہے – ویسے تو عام مقولہ ہے کہ خواتین کی عمر اور مرد کی تنخواہ نہیں پوچھی جاتی لیکن غیرشادی شدہ خواتین کی عمر 25 برس سے بڑھ ہی نہیں پاتی–

ایک عزیزہ کی سالگرہ کا کچھ اندازہ نہیں تھا آسانی کیلئے سال کا پہلا دن مقرر ہوار، ایک اور عزیز کی دوبیٹیاں اسکول میں داخلے کے لئے گئیں دونوں اوپر تلے کی تھیں لیکن جو عمر درج کروائی گئی تھی بمشکل6، 7 مہینے کا فرق تھا پرنسپل کے مشورے پر اور تحقیق پر وقفہ سوا سال کا کیا گیا  اورایک کی سالگرہ 14 اگست مقرر ہوئی – اب ڈھیر سارے بچوں میں کون یاد رکھتا کہ کون کب پیدا ہوا تھا -پاکستان میں اکثر اسکول والے بھی غلط  اندراج کردیتے ہیں اصل عمر ایک اور اسکول کے اندراجات میں دوسری ایک اور درد سری–اصلی عمر ایک اور سرکاری دوسری اب تو اسکولوں اور دفتروں میں بھی سالگرہیں منائی جاتی ہیں – اب اللہ بھلا کرے کہ پیدایش کی سرٹیفیکیٹ کی پابندی ہوگئی ہے-

جن ممالک میں اب ہوں وہاں 65 ویں سالگرہ کی بہت اہمیت ہے یہ سال پورے ہوئے تو ہم معمر شہری کہلائے اور یہاں کی بہت ساری سہولتوں اور رعایتوں کے اہل ہوئے -خوبی کی بات یہ ہے کہ جہاں معمر لوگوں کی آبادی جوانوں سے بڑھ گئی ہے انکو معاشرے پر بوجھ نہیں سمجھا جاتا  بلکہ معمر شہریوں کی عزت اور توقیر میں مذید ا ضافہ ہو جاتا ہے یار لوگ اسی انتظار میں ہوتے ہیں کہ ریٹائر ہوئے تو عیش ہی عیش ہیں اگر ذہنی اور دماغی طور پر تندرست ہو ں–اسلئے 65ویں سالگرہ کی بہت دھوم ہوتی  ہے-بھارت میں  ساٹھا پاٹھا، اگر جوڑی سلامت ہے تو ازسر نو پوری شادی کی رسومات انجام پاتی ہیں اور یہ مرد کا ساٹھ سالہ جشن پیدایش منایا جاتاہے –

مغربی ممالک میں سویٹ سکسٹین اب تو تمام دنیا میں مقبول عام ہے جو عام طور سے بچیوں کا منایا جاتا ہے -مغربی دنیا میں تو اسپر بہت کچھ ہوتا ہے لیکن مشرقی دنیا  بھی کیوں پیچھے رہے —  اور پھر اٹھارویں سالگرہ جھاں مغربی دنیا میں خود مختاری مل جاتی ہے بچہ جوان ہو چکا ہوتا ہے – یہ عمل تو بہت پہلے انجام پا چکا ہوتا ہے لیکن اب سرکاری طور پر کوئی اسکے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا -وہ جس طرح چاہے اپنی زندگی گزارے کوئی روک توک نہیں کوئی پابندی نہیں – کتنی بغیر شادی کی وداعیاں ہوجاتی ہیں -ہاں اگر کوئی والدین کے ساتھ رہنے میںخوش ہے تو واہ واہ کیا کہنے – اکثر والدیں انسے کرایہ اور اخراجات بھی طلب کرتے ہیں- بھائی صاحب ایک گھر خرید ؟مالکن نے  کہا میرا بیٹا ٹئیڈ  بیسمنٹ میں رہتا تھا اچھا کرایہ دار ہے اگر تم بھی رکھنا چاہو

اپنا تو اب یوں

لگتا ہے کہ بیشتر سالگرہیں گزر چکی ہیں اوراب چند ہی باقی ہیں اور  ان گزرتے ہوئے لمحوں میںیہ خیال آتا ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ کچھ تو ان گزرتے ہوئے ماہ و سال کا ما حاصل ہو

-یوں لگتا ہے کہ،

ختم ہوا عمروں کازر –باقی لمحوں کی ریزگاری ہے–

ہ

 
عابدہ
 

Abida Rahmani


اپنا تبصرہ لکھیں