درامن کی مشہور و معروف بزنس وُومن کا انٹرویو

cover foto 11ذ یب محسود ۔درامن،ناروے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال ۱) قدسیہ آپ کی پیداش کب اور کہاں ہوئی اوریہ کہ آپ کی ابتدئی زندگی کیسے گذری؟
ابتدائی زندگی!
میرے والد صاحب پاکستان سے پہلے جنگ عظیم دوم میں برٹش فوج میں رنگروٹ بھرتی ہوئے تھے ۔جنگ کے دوران وہ برما سے آگے ( ملایا ) کے مقام پر گرفتار ہوئے وہ کئی سال جاپانیوں کی قید میں رہے جب جنگ ختم ہوئی تو والد صاحب ۵ سال بعد گھر آئے اسکے بعد پاکستان بنا لہذا میرے والد کا گھرانہ ہجرت کے بعد پاکستان آیا جبکہ والدہ کی فیملی پنڈی میں رہتی تھی ۔ تو والد صاحب سے جب پوچھا گیا کہ آپ فوج میں کام کریں گے تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔وجہ یہ تھی کہ والد کو جنگ وجدل سے نفرت تھی اس لیے اُنہیں فوج ہی کے ( آرڈیننس یونٹ میں اکاونٹنٹ) کے طور پر کام کرنے کو ملا ۔فوج میں ہونے کی وجہ سے انکی پوسٹینگ کئی شہروں میں مثلاٌ کوئٹہ ، کراچی، ایبٹ آ باد اور حویلیاں میں ہوئی۔ میری پیدائش کوئٹہ میں ستمبر میں ہوئی۔ وہاں سے ہمارے والد کی پوسٹنگ حویلیاں ہوئی وہاں فوج کا ایمونیشن ڈِپو تھا۔ میں اگرچہ بہت چھوٹی سی تھی پھر بھی یاد ہے کہ جب انڈین آرمی اُس ڈِپو پر حملے کرتی اور ٹینک اور فوجی گاڑیاں گزرتی تو ہم ڈر کر چھپ جاتے ۔پھر اکتوبر ۱۹۷۱ میں والد کی پنڈی سے پروموٹ ہوکر ڈھاکہ تبدیلی ہوئی تو والد ہمیں نانی کے ہاں عارضی طور پر چھوڑ گئے تھے ۔
اُن کے جانے کے بعد ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو ڈھاکہ فال یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہوئی ہمارے والد کا ہم سے کوئی رابطہ نہ تھا بلکہ تقریبأ ڈیڑھ سال بعد پتہ چلا کہ وہ زندہ توہیں مگر نوے ہزار قیدیوں میں شامل ہیں ۔
چونکہ والد کی کوئی تنخواہ تو آتی نہ تھی جس کی وجہ سے وہ دن ہمارے بچپن کے مشکل ترین دن تھے ۔پھر جب جنگی قیدی واپس آنے لگے تو حکومت نے تمام قیدیوں کو گھر دیے۔ اس طرح ہمیں بھی روالپنڈی کہ لالہ زار کالونی جو کہ آرمی کا پوش علاقہ ہے میں ایک بنگلہ الاٹ ہوا اور ہم نے والد کا اُسی گھر میں استقبال کیا اور بعد کی زندگی اور تعلیم وہیں پر ہوئی۔ میرے والد بہت مذہبی مگر براڈ مائنڈڈ انسان تھے ۔ والد صاحب جاب کے بعد باجماعت نماز پڑھتے اور گھر میں ہم سب بہن بھائی کو نماز کی پابندی کراتے عصر کی نماز کے بعد والد قران مجید پڑھاتے اور ترجمہ بھی بتاتے۔ میں نے والد صاحب سے ۱۹ ،۲۰ سپارے ترجمہ سے پڑھے ہیں۔ ہمارے والدین نے ہماری بہت اچھی تربیت کی۔ آج میں جو کچھ ہوں وہ میرے والد کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ چونکہ ہمارا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور وہی عقیدہ ہمارے ذہن میں بچپن سے والد نے اسقدر پختہ کر دیا تھا کہ ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے اور وہ خود اُسکا عملی نمونہ تھے یہ ساری باتیں دوسرے بہن بھائیو ں میں تو تھیں ہی پر مجھ میں وہ ساری باتیں زیادہ اس لیے بھی آئیں کیونکہ سب بہن بھائیوں میں ،میں والد کے زیادہ قریب تھی۔ اس لیے میرا رحجان مذہب کی طرف ذیادہ رہا مذہب کے ساتھ ساتھ میں نے پنڈی میں گریجویشن کی ۔والد کی خواہش تھی کہ میں مذہبی علوم پر توجہ دوں اور جماعت احمدیہ کی خدمت کروں۔
سوال ۲) آپکی شادی کب اور کیسے حالات میں ہوئی اور کیا ارینجڈ میرج تھی یا اپنی پسند کی تھی؟
جب میں نے مزید پڑھنے کے بجائے دینی تعلیم پر توجہ دینی شروع کی اسکے ساتھ کوئی اور ہنر بھی سیکھنا چاہتی تھی میری بڑی بہن ایک قریبی فوجی فاونڈیشن سنٹر میں سلائی سیکھنے جاتی تھی وہی پر میں نے شارٹ ہینڈ اور ٹائیپنگ کے کورس مکمل کیا اسکے علاوہ مجھے سلائی کڑھائی کا بھی شوق والدہ سے ورثہ میں ملا۔ لہذا میں نہ صرف ہر طرح کی زنانہ اور مردانہ کپڑوں کی سلائی سیکھی بلکہ ہر طرح کے کشیدہ کاری سیکھی اسکے بعد میری شادی ہوگئی۔ جو کہ ہمارے رشتہ دار تھے اور یوں میں زندگی کے نئے دور میں داخل ہوئی۔ شادی کا تجربہ ہر ایک کا انفرادی ہوتا ہے۔ میں نے خود سے عہد کیا تھا کہ میں کسی کو شکایت کا موقع نہیں دو ں گی اوراپنے تمام فرائض کو پوری دیانتداری اور خلوص سے نبھاؤں گی۔
میری ساس فوت ہوچکی تھیں مگر سسر زندہ تھے جن کی میں نے ۱۴ سال اپنے باپ سے بڑھکر خدمت کی ، وہ بہت اچھے انسان تھے ۔ اللہ نے اُنکی خدمت کا صلہ یہ دیا کہ آج میں یہاں ہوں ۔جہاں تک شوہر کی بات ہے تو ہماری انڈرسٹنڈنگ نہیں ہو پا رہی تھی لیکن میں نبھا اس لیے کر رہی تھی کہ میرے والد ناپسند کرتے میرا یوں علیحدہ ہونا ۔دوسراے میں اپنے سسر کو بھی دکھ نہیں دینا چاہتی تھی حالانکہ وقت کے ساتھ ساتھ میرے شوہر کے ساتھ اختلافات بڑھتے چلے گئے پھر سسر کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے میں نے ناروے آنے کے لیے ایپلائی کیا۔ میں نے اپنے شوہر سے بھی کہا کہ وہ بھی ساتھ چلیں مگر اُس وقت اُنہوں نے انکار کیا کہ وہ والد کو نہیں چھوڑ سکتے خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میرے سسر کی وفات میری وہاں موجودگی میں ہوئی ۔مگر میرے شوہر تب ویزہ کے لیے اپلائے نہیں کرسکتے تھے کیونکہ ہم نے بہت پہلے ہی ویزہ کے لیے اپلائی کیا ہوا تھا اسطرح میرا اور میرے بچوں کا ۴۰ دن کا ویزہ لگ گیا اور یوں میں چاروں بچوں کے ساتھ ناروے بھائی کے گھر آگئی!
سوال ۳) ناروے میں کس طرح سیٹل ہوئی اور شوہر کے ساتھ تعلق بہتر ہوا یا نہیں؟
میں نے ناروے پہنچنے کے ۱۰ دن بعدا سائلم یعنی پناہ کے لیے اپلائی کیا اور وجہ معقول تھی کے ہم احمدیوں کے ساتھ جو سلوک پاکستان میں ہورہا ہے۔ احمدیوں سے جیلیں بھری پڑی ہیں۔ ایسے میں میرے بچوں کی زندگی اور مستقبل غیر محفوظ تھے یہ بہت بڑا فیصلہ تھا تنہا ۴ بچوں کے ساتھ پردیس میں رہنا بہرحال میری درخواست منظور ہوئی اور مجھے مہاجر کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ وہاں دو سال گزارے وہاں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ کیمپ کی خواتین کی مدد کرتی۔ وہ یوں کے میں نے کیمپ کی انچارج سے سلائی مشین مانگی کہ میں مصروف رہنا چاہتی ہوں۔ جو انہوں نے مہیاء کی اُس نے مجھے اچھی طرح مشین چلاتے دیکھا تو وہ مشین مکمل طور پر میرے حوالے کر دی اور کہا کہ کیمپ کی عورتوں کی سلائی کی ضرورتیں پوری کروں۔ اس طرح میرا شوق بھی پورا ہوتا رہا اور دوسروں کی مدد بھی ہو جاتی۔ کیمپ میں میں دفتر بند ہو جانے کے بعد وہاں کی نگرانی مجھے سونپ دی گئی۔اور اس طرح بہت عزت سے وقت گزرتا رہا۔

q55
کیمپ کے بعد درامن کمیون میں بھیج دیا گیا۔ یہاں ڈیڑھ سال نارویجن زبان کا کو رس کیا اسکے بعد کئی جگہ پریکٹسکی۔ سارے دور میں اپنے شوہر کی طرف سے پریشان تھی۔ مگر گور منٹ ہلپ نہیں کر رہی تھی میری جاب نہ تھی اسلئیے اپنے طور پر بُلا نہیں سکتی تھی جس کی وجہ سے شروع کے ۶ سال میرے بہت پریشانی اور ذہنی ازیت میں گزرے ۔
آخر انہوں نے وہاں دوسری شادی کر لی اور میں نے خُلع لے لی۔ اس طرح ہم باہمی رضامندی سے آزاد ہوگئے۔ ہم جب بھی پاکستان جاتے ہیں بچے اپنے والد سے ملتے ہیں ۔اس کے بعد میں یکسوئی سے فیوچر کی پلاننگ کرنے لگی چونکہ میں نے برگن یٹسٹ لکھنے کی حد تک پاس کیا ہوا تھا تو مجھے ایک سکول میں اسسٹنٹ ٹیچر کی جاب ملی۔ مگر میرے لیے یہ آسان نہ تھا کہ گھر پر چار بچوں کی دیکھ بھال کرتی اور جاب میں بھی سارا دِن بچوں سے واسطہ تھا اس لیے وہ جاب چھوڑ دی۔ اس کے بعد میں نے اپنے کیس انچارج جو کہ گورنمنٹ کی طرف سے ہوتا ہے سے بات کی کہ مجھے کوئی سلائی کڑھائی کی ایسی جگہ دیں جہاں میں سکون سے اپنی پسند کا کام کرسکوں۔
سوال ۴ ) آپ کا موجودہ کاروبار کب اور کیسے ہوا؟
جب میں نے جاب کے بجائے سلائی کڑھائی کی بات انچارج سے کی تو اُس نے کہا کہ انکے پاس ایسی کوئی جگہ نہیں البتہ تم کو کوئی ایسی جگہ ملے تو وہاں پریکٹس دلوا دیں گے۔ خیر تلاش کرتے کرتے میں نے ایک خاتون کو ڈھونڈ نکالا جو کہ(بوناد) :یہ ناروے کی خواتین کا قومی لباس کا نام ہے :سیتی تھی میں نے اُس سے بات کی وہ مان گئی اور جب میرے ہاتھ کی صفائی دیکھی تو بہت خوش ہوئی اُس سے بھی میں نے کافی کچھ سیکھا۔
چند ماہ بعد میرے انچارج کا فون آیا کہ ہم غیر ملکی خواتین کے لیے ایسا سنٹر کھول رہے ہیں جس میں سلائی کڑھائی کا شوق رکھنے والی کام سیکھ سکھیں یا اپنا ہنر استعمال کرسکیں ۔یوں مصالحہ کے نام سے یہ سینٹر اب یونین بریگے کی عمارت میں کھولا گیا۔ اور جسے بعد میں اقلیتوں اداروں اور کلچر کیساتھ ملا دیا گیا۔ اس کے بعد مائیکروفائیننس کی پروجیکٹ ڈائریکٹر ( اُنی ) درامن آئی جو ایسے لوگوں کو کورس اور قرضہ دینا چاہتی تھی جو اپنا کاروبار کرنا چاہتے ہوں ۔درامن میں میرے علاوہ ۳ اور لوگوں نے دلچسپی لی یوں ہمیں پہلے دو سال کا کورس کروایا گیا کہ کس طرح اپنے کاروبار کو کامیابی سے چلایا جاتا ہے جس میں صرف آج میں میدان میں ہوں اسکے بعد تھوڑا سا قرضہ ملا جس سے ایک پارٹنر کے ساتھ کرائے پہ جگہ لے کر کام شروع کیا۔ مگر وہاں کسٹمر نہ ہونے کے برابر تھے ۔پھر ۲۰۰۷ میں میں نے ا سی دوکان کی مالکن جو پاکستانی تھی اور صرف کپڑا فروخت کرتی تھی اس سے بات کی کہ اُن کے پاس اگر کوئی سلائی کا کام آئے تو مجھے کہہ دیا کریں۔ آہستہ آہستہ اُسکا مجھ پر اعتماد بڑھتا گیا اور اب وہ بعض اوقات سارا دِن دوکان میرے حوالے کر جاتی ۔ایک دفعہ تو وہ ایک ماہ کے لیے پاکستان چلی گئی اور دوکان میں چلاتی تھی ۲۰۱۰ میان وہ دوکان مو جودہ دوکان میں شفٹ کر دی۔ مگر مئلہ یہ ہوا کہ یہاں آ کرمالکن فرزانہ بہت بیمار رہنے لگی ۲۰۱۱ میں فرزانہ کی اس دوکان کو میں نے مائکروفائنانس والوں سے لون لیکر سامان سمیت خرید لیا۔میرا یہ کاروبار بہت آگے جاسکتا تھا اگر میرے ساتھ کوئی مستقیل پارٹنر ہوتا ۔ اب بھی اگر کوئی ایسا کاروباری ذہن کا انسان ملے تو بھی بہت کچھ ہوسکتا ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ دیانتدار اور محنتی ہو یا کوئی اس میں سرمایہ لگانا چاہے پر کوئی ایسا بندہ ملا نہیں۔میری زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے شروع کے ۶ سال نئی جگہ اور پہلے شوہر کے اور اپنی صحت کے مسائل سے لڑتے گذرے ۔پھر دوسری شادی کی جسکی وجہ سے ۶ سال پھر نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور طلاق ہوئی ۔۔۔ پر اللہ کی مدد سے جدوجہد جاری ہے آج درامن میں واحد پاکستانی خاتون کے ناطے اپنا کاروبار کر رہی ہوں اس میں مالی تو کوئی بڑا فائدہ نہیں البتہ اس کی وجہ سے کافی عزت اور شناخت ملی میرا کئی اخباروں اور ٹی وی پر انٹرویو ہوئے۔یہ صرف دوکان ہی نہیں یہ میرا سوشل سرکل کا پلیٹ فارم بھی ہے میں درامن کی کئی فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہوں۔ یہاں پر کوئی بھی مسئلہ لے کر آتا ہے تو مدد ضرور پاتا ہے جس سے مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔

q66
سوال ۵) اپنے بچوں کے بارے میں بتائیں کیا کرتے ہیں؟
میں نے اپنے بچوں کی اپنے والد کے طرز پر تربیت کی۔ ویسے بھی جماعت احمدیہ کا اُصول ہے کے بچوں کے مختتلف کورس عمر کے مطابق لازمی کروائے جاتے ہیں۔میرا بڑا بیٹاکمپیوٹر کا ایکسپرٹ ہے اور جاب کررہاہے۔ ا سکے علاوہ اردو کے سافٹ وئیر کو ورڈ میں ڈالنے والی ٹیم کے ساتھ ایک سال کام کیا۔دوسرا بیٹا آرمی کی لازمی ٹرینیگ کررہا ہے اور اُسکی خواہش ہے کہ وہ پروفیشن کے طور پر اسکو آرمی میں چانس ملے۔ایک بیٹی کمپوٹر انجنیئر ہے اور ایک بڑی نارویجن کمپنی میں بطور کنسلٹنٹ کام کر رہی ہے جبکہ دوسری جرنلزم کر رہی ہے۔ اور اس وقت ویتنام میں ہے ۔میں بچوں کی طرف سے مطمئن ہوں وہ انشا ء اللہ کامیابی کے رستے پر چلتے منزل پالیں گے!
سوال ۶) کوئی یادگار واقعہ بتائیں!
میں سکول میں بہت پاپولر تھی ہر سرگرمی میں حصہ لیتی اس وجہ سے کافی دوستوں میں عزت بھی تھی مگر جونہی بھٹو نے احمدیہ جماعت کو غیر مسلم قرار دیا ساری کلاس اور دوستوں نے مجھ سے بات کرنا تک چھوڑ دیا۔ ایک دن ہم ایک کلاس میں تھے کہ ٹیچر نے مجھے پانی لانے کو کہا پانی پینے کے بعد گلاس واپس لے جانے کو کہا مگر اس تھوڑی سی دیر میں کلاس کا ماحول بدل گیا تھا۔دراصل میری غیر موجودگی میں ٹیچر نے ساری کلاس کی سرزنش کی اور میرے ہاتھوں سے پانی پی کر انہیں عملی مثال دیکھائی کہ میرے ساتھ ملنے ملانے کھانے پینے اور دوستی سے انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کہنے کا مطلب یہ کہ اُس واقعہ کو نہیں بھُلا سکتی۔

سوال ۷) میڈیا کے کردار کے بارے میں کیا کہیں گی؟
آج کے دور میں میڈیا ہر ایک شعبے میں ہی نہیں انسانی زندگی میں بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے جسکے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس کو کسطرح استعمال کرتے ہیں۔
سوال ۸) آج کے نوجوانوں کے لیے کیا پیغام ہے؟
آج کے نوجوانوں کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں اور محنت سے کبھی جی نہ چرُائیں کیونکہ کسی کی محنت ضائع نہیں ہوتی۔ کبھی شارٹ کٹ نہ
اپنائیں۔ اور ایمانداری کو اپنا شعار بنائیں تو کامیابی آپکے قدم چومے گی۔

q33

اپنا تبصرہ لکھیں