تعلیم اور روزگار کے چند بنیادی مسائل

زبیر حسن شیخ

عمومی طور پہ دیکھا جائے تو دن بہ دن تعلیمی معیار پست ہوتا جارہا ہے. سرکاری اسکول ہوں یا پرائیویٹ یا اعلی تعلیمی مراکز سب مادیت پرستی کے شکار ہیں. اکثر اسکول سالانہ نصاب کو جیسے تیسے ختم کرنے پر کار بند ہیں. ٹیوشن کے نام پر صرف ان طلبا کی کھیپ تیار کی جارہی ہے جو مارکس حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں . نصاب کا حال انتہائی پیچیدہ اور عملی زندگی سے میل نہیں کھاتا. پندرہ سالہ تعلیمی دور کا عملی زندگی میں صحیح اورحقیقی مصرف تلاش کرنے میں اکثر نوجوان کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں. مشکل سے بیس فیصد نصابی تعلیم کا عملی زندگی میں استعمال کر پاتے ہیں. مغربی طرز تعلیم کے کچھ روشن پہلو ضرور ہیں لیکن ان میں اور مغربی طرز تربیت میں فرق کرنا بے حد ضروری ہے. نفسانفسی کے اس دور میں صرف معقول تربیت ہی ہے جوایسی تعلیم کے لاشے میں جان ڈال سکتی ہے اور آنے والی نسلوں کو تعلیم کا صحیح مصرف عطاکر سکتی ہے.
طلبا اور خاصکر والدین کو طالب علم کے رحجان کے تحت تعلیمی ہدف مقرر کرنا بہتر ہے نہ کہ زبردستی کسی تعلیمی نصاب کو تھوپنا. مثلا، ریاضی، سائینس، طب ،کیمیا یا کسی اور علوم میں طالب علم کمزور ہے یا پڑھا ئی میں مسلسل ناکام ہو رہا ہے یا پڑھا ئی سے دل چرا رہا ہے تو دوسرے علوم میں اسکی ہمت افزائی کی جانی چاہیے . والدین کو ابتدائی تعلیم کے دوران ہی طالب علم کے رحجان کا کچھ کچھ پتہ چل جاتا ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ تعلیمی رحجان میں تبدیلی کے امکانات بھی رہتے ہیں. اس ضمن میں بہتر تو یہی ہے کہ نویں جماعت تک رحجان کے بارے میں صحیح معلومات ہوجائے. طالب علم کے رحجان کا غلط اندازہ لگانے میں خوش فہمیوں کا ہاتھ ہوتا ہے. اکثر گھریلو اور سماجی ماحول بھی مختلف پیچیدہ رحجانات کے پنپنے کا باعث ہوتے ہیں . اس لیے بہتر ہے کہ بچوں میں مخصوص رحجان کو پروان چڑھایا جائے. بچپن کی زرخیززمین میں تعلیم کا بیچ بوکر ماحول کے معتدل موسموں میں تربیت کےآب زم زم سےآبیاری کی جائیگی تو وہ شجر تنومند اور ہر بھرا ہوگا. اگر کوئی نوجوان گھریلو ماحول کا مارا ہے اور کمزور بنیادی تعلیم کا پروردہ ہے تب تو اسے روزگار کے لئے بہت محنت درکار ہے لیکن پھر بھی ترقی کیمواقع ہر ایک کے لئے موجود ہیں جس کا ذکر اس مضمون میں آگے کیا گیا ہے.

غیر انگریزی یا اردو زبان میں تعلیمیافتہ نوجوانوں کو یہ سچائی خوش دلی سے قبول کرنی ہوگی کہ انگریزی سے لاپرواہی اپنی معاشی اور پیشہ وارانہ ترقی سے لاپرواہی ہوگی اور اردو سے لا پرواہی کرنا اپنی تہذیب و تمدن سے لا پرواہی ہوگی. اس مسئلہ کا سیدھا سادہ حل ہے کہ ان دونوں زبانون میں کڑی محنت اور ذوق و شوق درکار ہے اور جدید دور میں اس مقصد کے حصول کے لئے کافی وسائل اور ذرائع موجود ہیں. کسی قسم کا کوئی بہانہ کرنا کوتاہی اور لاپرواہی کے سوا کچھ نہیں. نوجوانوں کو اس حقیقت کو فراخدلی سے قبول کرنا ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے سے اپنی مادری زبان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوتی- موجودہ ترقی کی دوڑ میں سہل پسند تعلیمیافتہ نوجوانوں کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اس کے لئے ضروری ہے کے نوجوان خود اپنی شخصیت کا تجزیہ کریں کہ وہ زندگی میں روحانیت اور مادیت میں کسقدراعتدال و توازن چاھتے ہیں. اس توازن کو سمجھنے کے لئے ہماری دانست میں خلفائے راشدین کی سیرت کا اجمالی مطالعہ بے حد سود مند ہو سکتا ہے یا ان تاریخی شخصیات کی سیرت کا جن میں ان خلفا کا پرتو نظر آتا ہو.ہر ایک نو جوان اپنے بارے میں سب سے بہتر جانتا ہے کہ وہ کسقدر ترقی کی دوڑ میں بھاگ سکتا ہے اور کس مقام کو پا سکتا ہے۔ اور اس مقام سے اسکی جائز خواھشات اور ضرورتوں کی تکمیل ممکن ہے یا نہیں. اور ہے تو کتنی ہے. اور یہ بھی کہ کیا وہ ایک قناعت پسنداور اولوالعزم شخض ہے یا کاہل یاسہل پسند. کیا وہ دنیا سے صرف بنیادی ضرورتوں کا تقاضا کرتا ہے یا اسے دنیا کی بیشتر یا تمام آسائیش درکار ہے. کیا وہ چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے گنتی کے چند حضرات کی مثال کو سامنے رکھنا چاہتا ہے. یا ان بے شمار لوگوں کی مسلسل تگ و دود سے حاصل شدہ کامیابی کو مثال یا معیار بنانا چاہتا ہے جوفطری اور تدریجی طرز عمل کی عکاسی کرتی ہے. اور کیا وہ ایک اولوالعزم شخض ہے اور اپنی اور خاندان اور سماج کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کا حوصلہ رکھتا ہے. اور اپنی تعلیم، قابلیت، عمر اور ذمہ داریوں کے مد نظر روزگار کے ذرائع تلاش کرنا چاھتا ہے. مذکورہ نکات کا تجزیہ کرنا اور اپنی شخصیت کو سمجھنا بہت اہم ہے. ضروری نہیں کے ہر نوجوان ایک جیسے نتیجہ پر پہنچے. ضروری یہ ہے کے اس تجزیہ کے بعد ہی عملی میدان میں کودے اور پھر مسلسل یہ تجزیہ جاری رکھے کیونکہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ اس توازن میں اپنی شخصیت اور تربیت کے مطابق کمی بیشی ہوتی رہتی ہے. اچھی اور مناسب تربیت کے بغیر موجودہ تعلیم زہر کا کام کرتی ہے، خاصکر کسی ایماندارشخض کے لئے. عقل تو سب کو عطا کی جاتی ہے لیکن دانشمندی محنت سے حاصل کرنا پڑتی ہے اور حق سے خالی دانشمندی نری جہالت ہے.

پچھلی دو دہائی میں بی اے، بی کوم، ایم اے ایم کوم، اور بی ایس سی ایم ایس سی پاس اسناد اتنی عام ہو چکیں ہیں کہ ان اسناد سے نوکری مشکل سے ملتی ہے اور کو ئی اچھا عہدہ پانا تو بے حد مشکل ہوتا ہے. اس لئے عملی میدان میں کودنے سے پہلے مناسب سرٹیفیکٹ کورسیس کرنا از حد ضروری ہے . یہی حال انجینیرنگ، آرٹ اور فن کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کا ہے. انجینیرنگ اور ٹیکنالوجی کے متخصص آسانی سے ملازمت تو پا لیتے ہیں لیکن معاشیات اور انتظامیہ کے شعبہ سے نابلد ہونے کی بنا پر ترقی کے ابتدائی مقام پر جا کر رک جاتے ہیں. گریجویشن کے ساتھ ساتھ مختلف قلیل مدتی کورسیس بے حد ضروری ہوتے ہیں۔ “پرسنالٹی ڈویلوپمنٹ”، “انگلش پروفیشنل ریڈنگ اینڈ رایٹنگ”، بنیادی اور خصوصی کمپیوٹر ٹریننگ، لینگویج کورسیس، پی جی ڈی (پوسٹ گریجویشن ڈپلومہ)، پروجیکٹ مینیجمنٹ، فائنانس فار نان فائنانشیئلز اور ایسے ہی دیگر اورکئی کورسیس ہیں جو اصل ہدف سے مطابقت رکھتے ہیں اور جن کا حصول ضروری ہے. موجودہ دور میں فاصلاتی تعلیم اور اسناد کا حاصل کرنا مشکل نہیں رہا. کوئی بھی انجینیرنگ، بی ایس سی، بی اے یا بی کوم پاس آسانی سے ایم بی اے یا پی جی ڈی کرسکتا ہے. کوشش کریں کہ ایم بی اے کرنے سے پہلے مناسب تجربہ حاصل کرلیں اور قلیل مدتی ایکزیکٹیو ایم بی اے بھی کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی فاصلاتی کورسیس کی بدولت، “مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ”. اور یہاں بھی بات وہی اپنی ذات کے تجزیے کی اور مذکورہ توازن کی ہے.

موجودہ دور میں ایم بی اے کی مختلف شاخیں وجود میں آ چکی ہیں. لیکن اس حقیقت کو مد نظر رکھیں کہ آنے والے دور میں ایم بی اے کی اسناد بھی بی اے ڈگری سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہوگی. اس لئے جو نوجوان ابھی اپنے ہدف کو سمجھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں

انھیں “پوسٹ گریجویشن” کے ساتھ ساتھ مناسب قلیل مدتی کورسیس پر دھیان دینا چاہیے. دوسری اہم بات یہ ہے کہ نوکری کرتے ہوئے بھی

مختلف طریقوں سے اعلی تعلیم اور قلیل مدتی کورسیس کرنے کا عمل جاری رکھا جا سکتا ہے اور یہ طریقہ کار آزمودہ اور بے حد کار آمد ہوتا ہے. اسناد کے ساتھ تجربہ کی اہمیت بہت ہے اور اس سے خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے اور ترقی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں. اس میں بھی محنت زیادہ کرنی ہوتی ہے لیکن نتایج دور رس ہوتے ہیں.

نوجوانوں میں یہ بات نقص کے بجائے اوصاف میں شمار ہونے لگی ہے کہ آپ بے شمار کمپنیوں کا سابقہ تجربہ رکھتے ہو اور آپکی تبدیلی ملازمت کا اوسط زیادہ ہے. لیکن انھیں اس غلط فہمی کے دائرے سے باہر آنا چاہیے کہ عالمی سطح کے تجارتی مراکز میں اعلی عہدوں کی امیدواری میں شامل ہونے کے لئے کم از کم پانچ سالہ سابقہ ملازمت کا کامیاب ریکارڈ درکار ہوتا ہے. اس لئے کسی بھی ابتدائی ملازمت کو کم از کم پانچ سال کے عرصہ تک خوش اسلوبی سے انجام دے کر اور خاطر خواہ تجربہ حاصل کر کے کہیں اعلی عہدے کے لئے درخواست دینا بہتر ہے. عجلت میں حاصل کی ہوئی ترقی بہت کم پائدار ہوتی ہے. ترقی اور کامیابی حاصل کرتے ہوئیاکثر کو دیکھا گیا ہے لیکن بہت کم اس مقام پر جمے رہ پاتے ہیں اور آگے بڑھ پاتے ہیں.

اب رہی بات ان داستانوں کی جب “فرسٹ کلاس پوسٹ گریجویٹس اور ایم بی اے” نامور عالمی تجارتی مراکز میں کروڑوں کی ملازمت پاتے تھے اور جسکا اشتہار میڈیا جا بجا کیا کرتا تھا وہ سب پانی کے بلبلے ثابت ہویے ہیں. راقم کے حالیہ تجربہ کی ایک مثال ملاحظہ کریں کہ صرف پانچ مڈل مینیجمنٹ عہدوں کے لئے تقریبا پانچ سو سے زائد درخواست موصول ہوئی تھیں. جن میں پچپن فیصد خواتین پوسٹ گریجویٹس اور ان میں بھی اکثر فرسٹ کلاس اور دو چار گولڈ میڈلسٹ بھی تھیں. تعجب تو تب ہوا جب چند خواتین بی ٹیک کیساتھ ایم بی اے کی اسناد لئے ہوئیتھیں. مرد حضرات میں بھی تقریبا تمام پوسٹ گریجویٹس. اج اکثر امیدوار چھوٹے شہروں سے تھے. چند ایسے بھی تھے جو کچھ نہ کچھ عملی تجربہ بھی رکھتے تھے اور ساتھ ہی ایک سے زائد قلیل مدتی کورسیس کی اسنادبھی. انٹرویو کے نتائج کا لب لباب یہ تھا کہ چھانٹ کر جن پانچ امیدواروں کا نام دیا گیا تو پتہ چلا تین خواتین اور صرف دو حضرات کسوٹی پر پورے اترے. اکثر کمپنیاں اس مشق سے دور رہنے اور وقت کی بچت کرنے کی خاطر بھاری فیس کے عوض یہ کام ٹھیکیدار کمپنیوں کو دے دیاکرتی ہیں. ایچ آر ایم ایس اور “ملازمت کی تلاش ختم” کے نام سے ملازمتیں ملنا آسان تو ہوگئی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ پیچیدگیاں اور بھی بڑھ گئی ہیں.

اپنے پیشہ ورانہ مقاصد کے حصول کے لئے ایک ہدف، مختلف طریقہ کار و آلہ کار اور سنگ میل کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مقاصد کے حصول میں آنے والی مشکلوں پر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے سے بہتر ہے کے ہدف کو حاصل کرنے کے طریقہ کار و آلہ کار کا مطالعہ اور مشق جاری رکھیں یا کو ئی بھی عارضی ہدف اپنایا جائے جو اصل ہدف کے قریب تر ہو. اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کے آپ کسی تیز رفتار سواری کے انتظار میں کھڑے ہیں اور اس مخصوص سواری کو آنے میں کافی تاخیر ہو رہی ہے. جو سواریاں آ رہی ہیں وہ مسافروں سے لدی ہوئی ہیں اور آپکے مزاج اور رتبے سے مناسبت نہیں رکھتی۔ یا پھر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے. یا آپکے پاس ضروری قوت ارادی اور قابلیت کا فقدان ہے. یا آپ اپنی مطلوبہ سواری کیانتظار میں وقت ضائع کر رہے ہیں. ٹہل رہے ہیں، فکر مند ہیں اور یا تو خوش فہمی میں مبتلا ہیں یا پھر قسمت سے بدگماں ہیں یا خوابِ خرگوش میں ہیں – جھنجلائے ہوئے بھی ہو سکتے ہیں. ایسے میں بہتر ہے جو بھی سواری ہدف کی سمت جاتے ہوئے ملے اپنے مزاج کو طاق پر رکھ کر اس سواری میں چڑھ جائیں اور اپنے ہدف کا کچھ راستہ طے کرلیں. لیکن ہدف سے آنکھ نہ ہٹایں اور نہ ہی منہ موڑیں اور نہ ہی طریقہ کار و آلہ کار کے مطالعہ اور مشق سے درگزر کریں. اپنے کیرئیر میں پلیٹ فارم پر کھڑے رہنے سے بہتر ہے ہمیشہ سفر میں رہیں چاہے سواری جیسی بھی ہو. روزگار اور پیشہ ورانہ سفر میں ہر ایک سواری ہدف کی سمت ہی گامزن ہوتی ہے لیکن عارضی ہدف کو اصل ہدف بھی نہ سمجھ لیں.

معاشی اور پیشہ وارانہ ترقی کا کلیدی پہلو یہ ہے کہ پہلے” کچھ” حاصل کرنا ہوتا ہے. اور اس کے بعد ہی کچھ نہ کچھ یا “بہت کچھ” ہو سکتا

حصہء اول

ہے. اس کے یہ معنی بلکل نہیں ہے کے انسان بڑے خواب نہ دیکھے یا بڑی خواہش نہ کرے. وہ چاند پرگھر بسانے کی خواہش رکھتے

ہوئیصرف زمیں پر اچھل کود سے شروعات نہیں کر سکتا. گنتی کے ان چند کامیاب لوگوں سے متاثر ہونا غلط طرز فکر ہے جن پر قسمت راتوں رات مہربان ہوجاتی ہے یا جنھیں بغیر “کچھ” کیے یا کچھ غلط کیے بہت کچھ مل جاتا ہے. حضرت سعدی شیرازی کی ایک حکایت اپنی ذات کے تجزیے اور اعتدال و توازن کے مفہوم کو سمجھنے میں کچھ مددگار ثابت ہو سکتی ہے. ایک فقیر نے سعدی کے محل کے دروازے پر پہونچ کر ایک درہم کا سوال کیا. سعدی نے فرمایا ہماری حیثیت کے مطابق مانگ، فقیر نے کہا پھر اپنا محل دے دو. سعدی نے فرمایا ہمنے تجھے ہماری حیثیت یاد رکھنے کہا تھا اپنی حیثیت بھولنے نہیں.

اخلاقی اقدار میں پستی اور عقاید میں اختلافات نے تعصب پسندی کا زہر انسانوں کے دلوں میں بھر دیا ہے اور بہت کم انسان اس زہر کا شکار ہونے سے محفوظ رہتے ہیں. ملازمت پیشہ خواتین و حضرات کو اس کا مقابلہ صبر و تحمل سے کرنا ہوتا ہے اور اپنے ہدف پر نگاہ رکھنی ہوتی ہے. حقیقت پسندی اور تعصب پسندی میں فرق کرنا بے حد ضروری ہے. تعصب تو ویسے بھی ایک خوبصورت شخصیت کے لئے کسی گہن سے کم نہیں لیکن تعلیم اور روزگار کی راہ میں کسی بھی قسم کا تعصب ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے. لسانی تعصب سے لیکر مذہبی، مسلکی، طبقاتی، علاقایی، ملکی، نسلی، رنگی، پیشہ ورانہ، اور ہر قسم کے تعصب سے بھرے لوگ ہر ملک اور علاقہ میں مل جائیں گے. اکثر نوجوانوں کو تعصب کے خوف سے چولا بدلتے یااپنی شناخت کو چھپاتے یا اسمیں تبدیلی کرتے دیکھا گیا ہے جو ایک احمقانہ فعل ہے. شخصیت کے اجمالی مفہوم میں ظاہر اور باطن کے تمام پہلو شامل ہوتے ہیں اور اچھے باطنی پہلو دور رس نتایج کے حامل ہوتے ہیں. ظاہری شخصیت کے تعلق سے آگے چند اہم باتیں بتائی گئی ہیں. اس سوچ میں رہنا کہ ہر کوئی آپ کے ساتھ تعصب رکھے گا تو یہ غلط سوچ ہوگی. سب سے زیادہ تعصب کا شکار عورتوں کو بنایا جاتا ہے. جنکے ساتھ روزگار میں گل اور دست صبا کا معاملہ پیش آتا رہتا ہے. اس ضمن میں راقم کے سابقہ مضمون “میں بھی مظلومء نسواں سے ہوں غمناک بہت” میں ایک مطالعہ پیش کیا جا چکا ہے. حقیقت حال یہ ہے کہ تعلیمیافتہ خواتین کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اجمالی طور پر خواتین مردوں کے مقابلہ میں زیادہ تعلیمیافتہ ہو رہی ہیں اور تعصب کا شکار بھی.

اپنا تبصرہ لکھیں