ایک اور سال گزر گیا ….

ایک اور سال گزر  گیا ….

زبیر حسن شیخ

 

کبھی ابتدا کی تلاش میں

کبھی انتہا کو کھوجتے

کسی سوچ سے یونہی ٹوٹ کر

 کبھی کارواں سے چھوٹ کر

مجھے جس خیال کا پاس تھا

وہ مرے  قلم نے چھوا نہیں

جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں

جو ملا تھا وہ بھی بچھڑ گیا

ایک اور سال گزر گیا…..

وہ تھیں آڑھی ترچھی لکیریں سب

جو قلم کو چھوکے  امر ہوئیں

وہ خراج تھا میری فکر کا

جو انگلیوں سے ادا ہوا

وہ گداز تھا مری روح کا

ہر اک لفظ میں سجا ہوا

جو تری  نگاہ نے چوم کر

جب پڑھا  تو وقت ٹہر گیا

ایک اور سال گزر گیا…….

اپنا تبصرہ لکھیں