اوسلو کی ڈیزائنر ثناء رضوی سے ملاقات

s & r 3....ثناء رضوی اوسلو میں بزنس کی دنیا کی ایک معروف اور کامیاب بزنس وومن ہیں ۔ان سے کی گئی دلچسپ گفتگو خاص طور سے اردو فلک کے قارئین کی نذر ہے۔
انٹر ویو شازیہ عندلیب
تعارف
ثناء رضوی سولہ سال سے ناروے میں مقیم ہیں۔ان کا تعلق ایک بزنس فیملی سے ہے۔انکا آبائی شہر کراچی ہے۔ وہیں سے تعلیم بھی حاصل کی۔شوہر شروع سے ہی کاروبار سے منسلک تھے۔ ثناء شادی کے بعد کراچی سے ناروے آئیں۔جب وہ یہاں آئیں اس وقت انکے شوہر ایک ریستوران گریٹ انڈیا کے نام سے چلاتے تھے ۔جس میں ثناء نے بھی بھرپور حصہ لیا۔انہوں نے بتایا کہ شروع میں یہاں ایڈجسٹ ہونے میں بہت ٹائم لگا۔وہ ریستوران چلانے اپنے شوہر کی مدد تو کرتی تھیں مگر انہیں شروع سے ہی گارمنٹس بوتیک کا بہت شوق تھا۔ پاکستان میں توانہیں اسکا موقع نہیں ملا ۔مگر پھر چھ ماہ پہلے انکا یہ خواب پورا ہوا اور انہوں نے اپنے شوہر کی مدد سے اوسلو کے ایک مصروف کاروباری مرکز گرن لاند میں گارمنٹس کی ایک بوتیک شروع کی۔انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر بوتیک کھولنے اور چلانے میں انکی بہت مدد کرتے ہیں۔آئیڈیاز بھی دیتے ہیں او ر تعاون بھی کرتے ہیں، گو کہ انکا اپنا الگ بزنس ہے۔
ناروے میں بزنس کا ماحول
ناروے میں خواتین کے لیے بزنس کے ماحول کا ذکر کرتے ہوئے ثناء نے کہا کہ رہن سہن کے لحاظ سے اوسلو کا ماحول کراچی کے ماحول سے ذیادہ مختلف نہیں ہے۔ کراچی ایک ماڈرن شہر ہے۔مگر اوسلو کے مقابلے میں بہت بڑا ہے وہاں کی آبادی بھی یہاں سے زیادہ ہے۔پورے ناروے کی آبادی ایک شہر کراچی کے برابرہے۔وہاں پر بزنس کا اپنا ایک الگ مزہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنا بوتیک شروع کرنے سے پہلے پورا کراچی وزٹ کیا۔مختلف ڈیزائنروں سے بات کی۔یہاں اوسلو میں بھی بزنس کا اچھا ماحول ہے۔اگر کسٹمر کو اچھی چیز ملے تو وہ پیسہ خرچ کرتے ہوئے نہیں گھبراتے۔میں مختلف ڈیزائنروں کو فالو کرتی ہوں۔ایک سوٹ کی تیاری میں تین چارلوگوں کے ہاتھ کام کرتے ہیں۔تب جا کر ایک اچھا سوٹ تیار ہوتا ہے۔مثلاً ایک کاکام سوٹ کا سکیچ بنانا، دوسرے کا کام ڈیزائن کرنا،پھر کڑھائی اور تب جاکر کہیں ٹیلر ماسٹر کی باری آتی ہے۔یہاں ناروے کی پاکستانی کمیونٹی بھی فیشن میں کراچی سے پیچھے نہیں۔آجکل لانگ اور شارٹ شرٹس اور فراک دونوں ہی چل رہے ہیں۔باقی تھوڑا بہت فرق ہے تو وہ ہے ترجیحات میں۔ جیسے لاہور اور کراچی کے فیشن ٹرینڈز میں فرق ہوتا ہے۔
فیشن ڈیزائنر کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ثناء رضوی نے بتایا کہ آجکل فیشن ڈیزائننگ میں ماریافیشن اور بی جی کا نام عام ہے۔لیکن میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ میں عام ڈیزائنروں کے لباس نہ رکھوں ۔وہ چیز جو ہر جگہ آپکو مل جائے ۔وہ میری ترجیح نہیں ہے۔بس لوگوں کو یہی دو چار نام آتے ہیں ۔میں مختلف ڈیزائنروں کے تیارکیے ہوئے منفرد لباس اپنی بوتیک پر رکھتی ہوں۔میرے پاس گارمنٹس کی بہت منفرد کلکشن ہے۔اگر کسی کو شادی کا ڈریس چاہیے تو وہ بھی آرڈر پہ منگوا دیتی ہوں مگر رکھتی نہیں کہ وہ بہت مہنگا ہوتا ہے اس لیے لوگ خریدتے نہیں ۔میرے پاس عام ڈریسز دو ڈھائی ہزار کراؤن سے ذیادہ قیمت کے نہیں ہیں کیونکہ یہاں کے کسٹمرز کی اتنی ہی قوت خرید ہے۔پچھلے دنوں میں نے ایک برائڈل ڈریس دس ہزارکراؤن کا سیل کیا تھا۔مگر وہ بھی ذرا ہلکا تھا کیونکہ کسی کو نکاح کے لیے چاہیے تھا۔
جدید برائیڈل ڈریسز
آجکل برائیڈل ڈریسز میں ہلکے رنگ ان ہیں۔وائٹ بہت مقبول ہے۔اس کے علاوہ لہنگا غرارہ،لمبی قمیضوں پر اور فراک وغیرہ بھی چل رہے ہیں۔یہاں مارچ سے شادیوں کا سیزن شروع ہو جاتا ہے اس طرح یہ ڈریس بوتیک کا ہائی سیزن ہوتا ہے۔مگر ماہ فروری میں کام بہت ڈاؤن تھا۔جبکہ باقی بزنس کا بھی یہی حال تھا۔کیونکہ فروری میں یہاں سخت سردی پڑتی ہے اس لیے یہ مقامی بزنس کا لو سیزن ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کام سلو ہو جاتا ہے۔عید اور تہوار وغیرہ ہائی سیزن کہلاتے ہیں۔ان مواقع پر لوگ بہت ذیادہ لباس خریدتے ہیں ۔مگر یہاں تہواروں پر بہت ذیادہ بھاری کامدانی کے ڈریسز نہیں چلتے بلکہ ہلکی پھلکی ایمبرائڈری اور ہلکا کام ہوتا ہے۔ہم بھی یہاں کے پاکستانیوں کے لیے اس سال عید پر خصوصی پیشکش کریں گے۔
نئے فیشن کے ڈیزائن اور ٹرینڈز کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آ جکل پاکستانی فلمیں تو نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ورنہ ذیادہ تر فیشن وہیں سے نکلتا تھا۔لیکن ٹی وی ڈراموں سے فیشن کے رجحان کا پتہ چلتا رہتا ہے۔وہ بھی پاکستانی ڈراموں سے ۔ جبکہ انڈین ڈراموں کے لباس کی ڈیزائننگ اتنی اچھی نہیں ہوتی۔ہماری بوتیک پر انڈین کسٹمرز بھی آتے ہیں اور وہ پاکستانی کپڑے کے لباس ڈیمانڈ کرتے ہیں۔بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں انڈین ڈریسز نہ دکھائے جائیں۔انڈین کسٹمرز میں پاکستانی کاٹن اور خاص طور سے اور چکن کی ورائٹی بہت مقبول ہے۔میں بمبئی بھی گئی تھی۔وہاں بھی پاکستانی کپڑے بہت مشہور ہیں۔جن میں کرتیز خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ کاروباری مشکلات میں کسٹمرز کے ساتھ ڈیل کرنا کبھی مشکل ہو جاتا ہے۔کچھ تو ایسے آتے ہیں کہ قیمت بالکل کم نہیں کرواتے جبکہ کچھ لوگ بالکل آدھی قیمت بتاتے ہیں ۔اگر سوٹ چار ہزار کا ہے تو دو ہزار قیمت لگائیں گے۔جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ کل لینے آئیں گے ۔مگر وہ دوبارہ نہیں آتے۔ایک لباس کی تیاری میں اسکی تیاری کے خرچ کے علاوہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات اور دوکان کا کرایہ اور ٹیکس بھی شامل ہوتا ہے۔تب کہیں جا کر گاہک کو تیار حالت میں ریڈی میڈ لباس ملتا ہے۔
سوشل میڈیا اور اردو فلک ثناء رضوی کی نظر میں
ڈیجیٹل میڈیا کی کاروباری اہمیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اپنے کام کی تشہیر کے لیے فیس بک تو استعمال کرتی ہوں اس کے علاوہ انسٹاگرام بھی اچھا ہے۔باقی رہا سوال آن لائن شاپنگ کا توا س میں وہ مزہ نہیں جو فزیکل خرید داری میں آتا ہے۔ کیونکہ یہاں ہم کپڑے پہن کر دیکھ سکتے ہیں جو کہ بالکل الگ نظر آتے ہیں۔آجکل کئی لوگ گھروں پر بھی کپڑے بیچتے ہیں مگر کافی کلائنٹس کہتے ہیں کہ ہم گھر جا کر کپڑے خریدنا پسند نہیں کرتے۔
اردو فلک ڈاٹ نیٹ کے بارے میں صنع رضوی نے بتایا کہ یہ ایک اچھا پلیٹ فارم ہے۔میں نے اسے وزٹ کیا ہے وہ لوگ جو ناروے میں نئے آئے ہیں اور نارویجن میں خبریں نہیں پڑھ سکتے،یا اردو کو ترجیح دیتے ہیں ان کے لیے بھی ویسٹرن خبروں کا اردو میں ترجمہ بہت اچھا لگتا ہے۔آجکل کا سوشل میڈیا ایک فرد کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔یہ ماڈرن دنیا کا ایک حصہ ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں