انٹر ویو ڈاکٹر فوزیہ عابد

گفتگو شازیہ عندلیب

تعارف
ایک محب وطن پاکستانی خاتون ڈاکٹر فوزیہ سے گفتگو

ڈاکٹر فوزیہ کا بچپن ڈنمارک کے کیپیٹل سٹی کوپن ہیگن میں گزرا۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والدین کوپن ہیگن میں رہائش پذیرہیں ۔جب کہ ہم تین بہنیں ہی۔میرا آبائی شہر لاہور ہے۔جماعت سوم کے بعد میری فیملی ناروے سے ڈنمارک شفٹ ہو گئی ۔وہاں میں نے نائنتھ کلاس تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد باقی تعلیمی سفر پاکستان میں مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ میں نے اپنی بہن کے ساتھ مل کر کیا اور ہم اپنی نانی اماں کے پاس لاہور چلی گئیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔گو کہ میرابچپن بیرون ملک میں گزرا مگر مجھے ہمیشہ وطن کی یاد ستاتی رہی۔وطن سے محبت کی وجہ سے ہی میں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کافیصلہ کیا۔جبکہ ہمارے اکثر ملنے والوں کا خیال تھا کہ میںجلد ہی وہاں کے تعلیمی نظام سے گھبرا کر واپس بیرون ملک

dr fozia 2.1

زمانہ طالبعلمی کا یادگار گروپ فوٹو

لوٹ آئوں گی۔لیکن میں نے سخت محنت کر کے میرٹ پر راولپنڈی کالج میں داخلہ لیا ۔میڈیکل کے دوسرے سال میں میری شادی ہو گئی۔فائنل ائیر تک میںدو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔
میری شادی ایک کاروباری شخصیت سے گھر والوں کی باہمی رضامندی سے ہوئی۔ میری تعلیم کی تکمیل اور بچوں کی تربیت میں ان کے شوہر عابد نے بہت ساتھ دیا ۔یہ ان کے تعاون سے ہی ممکن ہو سکا کہ میں نے تعلیم مکمل کی ۔فائنل ائیر میں ان کی ٹرانسفر راولپنڈی کالج سے لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں ہو گئی۔عابد کے تعاون سے میںنے ہائوس جاب کا مرحلہ بھی کامیابی سے طے کر لیا۔جبکہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل ہسپتال میں جنرل پریکٹیشنر کے فرائض سر انجام دیے۔
ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ شادی کے و قت میرے شوہر نے میری والدہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ میری تعلیم مکمل کروائیں گے جو کہ انہوں نے پورا کیا۔میرے شوہر عابد حافظ قرآن ہیں۔انہوں نے نہ صرف اپنا وعدہ پورا کیا بلکہ میری زندگی میں بھر پور ساتھ دیا اور بچوں کی تربیت میں بھی میری مدد کی۔
میری والدہ کوپن ہیگن میں نرسری اسکول میں جاب کرتی تھیں۔انہوں نے اپنے بچوں کو بیرون ملک میں اردو زبان سکھائی اور اس کی وجہ سے انہیں پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دشوارنہیںہوئی۔میں نے ہر کام چھوڑ کر صرف پڑہائی کی طرف توجہ دی اور میڈیکل کالج میں میرا داخلہ میرٹ پر ہوا۔میڈیکل کا امتحان سن 1996 میں پاس کیا ۔ہائوس جاب دو بچوں کے ساتھ کی ۔
پچھلے سال میں بچوں کے ساتھ ناروے شفٹ ہوئی آجکل تعلیم منظور کروانے کے مرحلے سے گز رہی ہوں۔والدین سن1971 میں ناروے شفٹ ہوئے ۔اس کے بعد ڈنمارک چلے گئے ۔
وہاںہم دنوں بہنوں نے پاکستان شفٹ ہونے کا فیصلہ کیاجس میں ہمارے اوپر والدین کا کوئی دبائو نہیں تھا۔بس صرف وطن کی محبت تھی جو یہاں چین نہ لینے دیتی حالانکہ ہم لوگ یہاں پیدا ہوئے مگر پھر بھی اس ماحول میں خود کو اجنبی سمجھتے تھے۔پاکستان سے ایک نا معلوم سی انسیت کا احساس ہوتا تھا۔پاکستان اپنی سر زمین اپنا وطن لگتا تھا۔
پیشہ ورانہ اور کامیاب گھریلو زندگی
گو میں نے شادی کے بعد تعلیم مکمل کی لیکن میں نے اس سے یہ سبق سیکھاکہ لڑکیوں کو تعلیم مکمل کر کے عملی زندگی میں آنا چاہیے۔ میں نے شادی کے بعد تعلیم مکمل کی مگر یہ بہت مشکل زندگی تھی۔مجھے بہت کٹھن مراحل سے گزرنا پرا ۔میں نے بڑی قربانیاں دیں اپنی چھوٹی بڑی خوشیوں کی ۔میں اپنے خاندان سے کچھ عرصہ کے لیے کٹ کر رہ گئی۔اپنی دونوں بہنوں کی شادی میں نہ شریک ہو سکی ۔جس کا مجھے ہمیشہ افسوس ہے گا۔لیکن ان ساری مشکلوں میں میرے شوہر نے میرا ساتھ دیا۔ میںراولپنڈی میڈیکل کالج میں ہاسٹل میں جاتی تھی۔ فورتھ ائیر میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور میں مائیگریشن کرا لی ۔ہماری زندگی کی کامیابی میں ایک مرد کی بھی ذمہ داری شامل ہے۔ اور مرد بھی وہ جسکا تعلق اللہ سے جڑ اہو وہی عورت کی قدر کرنا جانتا ہے۔ وعدے کا پاس بھی ایسے مرد ہی رکھ سکتے ہیں۔کیونکہ اللہ کے ہاں اسکی پوچھ گچھ ہو گی ۔ایسے مرد دوسرے مردوں کے لیے رول ماڈل ہیں جن کی وجہ سے انکی زندگیاں خوش گوار گزرتی ہیں۔والدین کو چاہیے کہ وہ جب بھی بچوں کے لیے رشتہ دیکھیں ظاہری ٹی پ ٹاپ نہ دیکھیں ۔بلکہ کردار دیکھیں ۔زندگی کی کامیابی کا انحصار جس قدر اچھے کردار پر ہے اس قدر ظاہری شکل و صورت پر نہیں ہے۔پہلے کردار دیکھیں پھر،خاندان اور رہن سہن دیکھیں۔اس کے بعد مالی پوزیشن ۔جبکہ دین سے رغبت رکھنے والے رشتوں میں ہی برکت ہوتی ہے۔
ناروے واپسی
بچوں کی تعلیم کی وجہ سے بہتر مستقبل کے لیے ہمیں ناروے واپس شفٹ ہونا پڑا۔پاکستان کی تعلیم کی کوئی ویلیو نہیں اعلیٰ تعلیمی مستقبل کے لیے ناروے واپس آنا پڑا۔میں اپنے بچوں کے لیے ایسا ماحول دینا چاہتی ہوں جس میں مستقبل میں پاکستان سے تعلق جڑا رہے۔ میرے چار بچے ہیں دو بیٹیاں اور دو بیٹے بڑی بیٹی کا اسی سال اوسلو میڈیکل میں میرٹ پر داخلہ ہوا ہے۔اس سے چھوٹا بیٹا کالج میں پڑھ رہا ہے اور باقی دونوں بچے اسکول جا رہے ہیں۔ میرے مستقبل کے منصوبوں میں پاکستان میں امی کے نام سے ہسپتال بنانا ہے۔ہم لوگ یہاں رہ کر آسانی سے کام کر سکتے ہیں۔
میںسن 2007 سے وومن ویلفئیر آرگنائیزیشن کی ایکٹوممبر ہوں ۔اس کے تحت فری ڈسپنسری بنائی تھی ۔اس بلڈنگ میں کلاسز ہوتی ہیں۔ فری ڈسپنسری میں، میں خود بھی روز کام کرتی تھی۔ جبکہ پھر جگہ کی کمی کی وجہ سے پوری بلڈنگ میں ڈسپنسری ختم کر کے اسکول بنا دیا ۔اس تنظیم کا سارا خرچہ اپنے فنڈز سے چلا رہے ہیں۔ ناروے میںطیب صاحب ایک سیمینار میںملاقات ہوئی تو ہیں ان سے بہت متاثر ہوئی۔انہیں ایک با عمل شخصیت پایا ۔
پاکستانی خواتین کی صحت
خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی ذاتی مصروفیات میں مثبت سرگرمیاں شامل کریں۔جس میں
جسمانی مصروفیات بھی ہونی چاہیں۔پاکستانی خواتین سارا دن خود تو ٹی وی کے سامنے بیٹھی رہتی
ہیں اور کام ماسیوں سے لے رہی ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انکی صحت خراب ہوتی ہے ذیادہ بیٹھنے سے وزن بڑھ جاتا ہے۔یہاں بھی جو خواتین آئوٹ ڈور ایکٹیوٹی میں کم حصہ لیتی ہیں انہیں صحت کے مسائل کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ آئوٹ ڈور مصروفیات کو بھی ٹائم دینا چاہیے۔جو کسی بھی شکل میں ہو۔کار کے بجائے ٹرینوں یا بسوں میں سفر کر کے جاب پہ جائیں۔ایک اسٹیشن پہلے اتر جائیں تاکہ کچھ پیدل بھی چلیں۔ سائیکلیں چلائیں۔ہماری خواتین بیرون مل میں مغرب کی نقالی میں پینٹیں تو پہن لیں گی لیکن سائیکلیں نہیں چلائیں گی۔مجھے پیدل چلنا ٹرین میں اور بسوں میں سفر کرنا اچھا لگتا ہے۔خواتین کو جسم کومشقت کی عادت ڈالنی چاہیے۔ پرانے وقتوں میں لوگ جسمانی کام ذیادہ کرتے تھے اسی لیے ذیادہ چاک و چوبند رہتے تھے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان وہ ہے جو وہ کھارہا ہے۔ نارویجن لوگ مشقت کرتے ہیں۔ سمندروں پہاڑوں کو سر کرتے ہیں۔کھلی فضا میں جنگلوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اسی لیے انکی صحتیں قابل رشک اور زندگیاں طویل ہیں۔
مشہور فلاسفر ہپو کراٹسppocrates Hi نے کہا تھا کہ آپ خوراک سے اپنا علاج کریں۔موروثی بیماریوں پر کنٹرول کے بارے میںیک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ موروثی بیماریوں سے بچنے کا طریقہ اور علاج یہ ہے کہ جیسے ہی شروع ہو فوری ڈاکٹر کے پاس جائیں۔
ڈپریشن موروثی ہے اسکی علامات پتہ ہونا چاہیے اگر کوئی موروثی بیماری ہے تو اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں۔ اداسی ہے تو شروع میں ہی کنٹرول کریں۔
جب ان سے ان نکی اسمارٹنس کا راز پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میری اسمارٹنس کا راز مثبت ذہنی سوچ اور جسمانی مصروفیت ہے ۔ میں پچھلے بیس سال سے جسمانی ورزش کر رہی ہوں۔جس میں ایروبکس اور یوگا، میرے معمولات میں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ آپ ذہنی طور پر اپ ڈیٹ رہیں۔ اپنا میڈیکل کا لٹریچر پڑتی ہوں۔ نئی سے نئی طبی تحقیق میرے مطالعے میں شامل رہتی ہے۔ قرآن پڑہنا ااور سمجھنابھی ایک ذہنی مصروفیت ہے۔اسے شعوری طور پر پڑہیں اور سمجھیں نہ کہ لا شعوری طور پر۔اسی طرح نماز کو بھی پوری توجہ سے شعوری طورپرپڑہنی چاہیے۔
یادگار واقعہ
لاہور میںفری میڈیکل کیمپ میری زندگی کا یادگار واقعہ بن گیا۔اس میں سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ٹیم نے ان مریضوں کا چیک اپ کیا جو اتنے مہنگے ڈاکٹر افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ اس کیمپ میں چھ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ٹیم نے تین سو مر یضوں کا چیک اپ اتوار کے روز کیا۔ یہ ایک بہت محنت طلب اور چیلنج والا کام تھا۔میں نے بڑے بڑے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو اس کیمپ کے لیے گھر گھر جا کر تیار کیا۔کیونکہ یہ آسان نہیں تھاکہ چھٹی کے روز ان ماہرڈ اکٹروں کو فری کیمپ میں کام کے لیے آمادہ کیا جاتا۔میں نے خود شہر میں جا کرجگہ جگہ پر پوسٹرز اور بینرز لگوائے۔جس کے نتیجے میں تین سو مریض آئے اور انہیں تشخیص کے لیے ماہر ڈاکٹروں کی صحیح تشخیص کی سہولت بالکل مفت ملی۔یہ سہولت انہیں میسر نہیں تھی۔ اس میں ہم نے شوگردل گردے اور جگرکی بیماریوں کے چیک اپ کیے۔اس کیمپ کے ذریعے ہم نے ان لوگوں کو موقعہ دیا اچھے سے اچھیء اسپیشلسٹ سے چیک اپ کرائیں انہیں ماہر ڈاکٹروں کی رہنمائی میسر ہو۔ اس طرح ہم نے ایک ایک بیمار آدمی کو گائیڈ کیا۔ عام طور سے ہمارے ہاں بیماری کے علاج کے لیے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں تک مریضوں کو گائیڈ نہیںکیا جاتا ۔ جب تک مریض اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے۔بیماری بڑھ چکی ہوتی ہے۔
جنرل ڈاکٹر کی یہ پوری کوشش ہوتی ہے کہ خود ہی علاج کرے ۔مگر وہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ا گر ا س کی دوا سے آرام نہیں آ رہا تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ مریض کو گائیڈ کریں ۔ مگرپاکستانی ڈاکٹر چاہتے ہیں کہ مریض ہاتھ سے نہ جائے۔
پاکستانیوں کی کم اوسط عمر کی وجہ
اس اہم موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ نے بتایا کہ اس کی بڑی وجہ ہماری خوراک اور لائف
اسٹائل ہے۔ ہمیں چاہیے کہ بغیر سوچے سمجھے ہر چیز نہ کھائیں۔ ہمیشہ گاڑی میں سفر نہ کریں۔ہماری خوراک میں چکنائی کی ذیادتی کی وجہ سے لیسٹرول کا لیول جسم میں بڑھ جاتا ہے۔ ہماری کمیونٹی میں عورتیں یہ سوچتی ہیں کہ شوہروں کو اچھا کھلا پلا رہی ہیں۔ یہ نہیں دیکھتیں کہ صحیح خوراک بھی ہے یا نہیں۔آپ اپنی فزیکل ایکٹیوٹی کو بھی ٹائم دیں۔ ایک تو ہمیں ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔
لیکن ہمارے ہاں عموماًمیاں بیوی آپس میں خیر خواہی نہیں کرتے۔بیویاں شوہروں کا صحیح خیال نہیںرکھتیں۔عورت گھر کا ماحول بناتی بھی ہے اور بگاڑتی بھی ہیںہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے۔ جب کہ میرے شوہر اپنی صحت کی کمی کو کو بھی دور کرتے ہیں مجھے بھی ٹوکتے ہیں۔اس طرح ہماری صحت اور وزن کنٹرول میں رہتا ہے۔
دوائوں کا سائید افیکٹ
دوائوں کے سائیڈ ایفیکٹ کی کئی وجوہات ہیں جو مریض کی لا پر واہی سے بھی واقع ہوتی ہیں۔ایک تو کسی دوا کو خود سے بے جا استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔بعض مریض سوچتے ہیں کہ کسی خاص بیماری میں اگر ایک دوا استعمال کی تو دوبارہ بھی خود سے ہی وہی دوا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال کر لیتے ہیں جو کہ بہت
غلط اور نقصان دہ ہے۔ اور بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے استعمال کرنے سے بعض دوائیں انٹرکشن inter action بھی کرتی ہیں۔ یہ بات صرف ڈاکٹر کو پتہ ہوتی ہے کہ کس دوا کے ساتھ کون سی دوا دینی ہے۔سیلف میڈیکیشن self medication یعنی خود تشخیصی کے ذریعے دوا کا بے جاا ستعمال کرنے کی وجہ سے الرجی کڈنی پرابلم اور جگر پر برا اثر پڑتا ہے۔اس کے علاوہ ذائد لمعیاد دائوں کے استعمال سے بھی سائیڈ افیکٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

پاکستانی کمیونٹی کے نام پیغام
پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ ہم مسلمان بھی ہیں۔ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم سے ہر معاملے میں اللہ کی پوچھ گچھ ہو گی ۔
اسلام کو سمجھنا ،یکجہتی کے ساتھ ،قرآن سے جڑنا اور اس پر عمل کرنا اچھے اخلاق اپنانااور قرآن کی بات کو سمجھنا اور اسکو اہمیت دینا ہمارا اولین فرض ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے آپس میں اتفاق اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ایک دوسرے کی خیر خواہی پاکستانی ہونے کے ناطے اور مسلمان ہونے کے ناطے کریں۔
دیار غیر میں رہتے ہوئے ہم پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے اچھے طرز عمل سے غیر مسلموں کو دین اسلام کی جانب مائل کریں۔اس لیے کہ روز محشرانہوں نے یہ شکوہ کرنا ہے کہ ہم لوگوں نے ان لوگوں تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچایا ۔جب کہ ہم دکھاوا کر تے ہیں اور لڑتے جھگڑ رتے ہیں تو اس سے ہمارے بارے میں دوسری قوموں کو منفی تاثر ملتا ہے۔جبکہ انفرادی سطح ہمیں چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں سے ملیں۔ان سے بات چیت کریں۔ انہیںکھانے پینے کی چیزیںبھیجیں۔غیر مسلموں کو ملنے جلنے سے کوئی ہمارا دین نہیں چرا لے گا۔اپنی خواہشات میں ڈسپلن پیدا کریں ۔اللہ تعالیٰ نے
ہمیںجو حدود بتائیں ہیں انہیں ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان سے ملیں ۔ خود دین کا علم حاصل کریں ۔کم از کم بنیادی باتیں تو ہمیں معلوم ہونی چاہیں جو دین کا ستون ہیں۔میں ڈنمارک میں کپڑوں کی دوکاندار کی بیٹی کا انٹر ویو ٹی وی پردیکھ کر حیران ہو گئی۔وہ کہہ رہی تھی ہم لوگ قرآن کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ قرآن کی طرف پیٹھ نہیں کرتے۔ اصل اسلام یہ نہیں کہ ہم قرآن کو تاک میں سجا دیں۔قرآن کہتا ہے کہ مجھے اتنی عزت نہ دو کہ مجھے تنہا کر دو۔بلکہ قرآن حکیم تو عمل کے لیے اترا ہے۔سو ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔

2 تبصرے ”انٹر ویو ڈاکٹر فوزیہ عابد

اپنا تبصرہ لکھیں