ناروے میں دہشتگردی کی جڑیں ڈنمارک میں ہیں؟

روزنامہ پولیٹیکن میں شائع ہوئے عالمی شہرت رکھنے والے، فلم انسٹیکٹر، وون ٹریئر کے انٹرویو کا لب لباب یہی ہے کہ ڈینش پیپلز پارٹی اور اس کی رہنما پیا کھیآسگورڈ کے انسانی اقدار کے متعلق نظریات ان محرکات کا سبب بنے ہیں جن کے زیر اثر، بیرنگ بریوک نے اوسلو میں حکومتی مرکز اور جزیرہ یٹوٹا میں دہشگردی کی وارداتوں میں کثیر تعداد میں انسانوں ( نوجوانوں) کو بے رحمی سے گولیاں مار کر قتل ہے ۔

بھارتی رویہ : ڈنمارک کے لیے کئی بلین ڈالر کا نقصان

بھارت نے اگست کے مہینے میں خبردار کیا تھا کہ اگر ڈینش حکام نے ، اسلحہ کے سمگلر ڈینش شہری نیلس ھولک کو بھارت کے حوالے کیے جانے کے سلسلے میں، اس کے خلاف ڈینش سپریم کورٹ میں چلائے جانے والے مقدمے کے دوران تمام ممکنہ ذرائعے کو بروئے کار لاتے ہوئے نیلس ھولک کو بھارت کے حوالے کیے جانے کو ممکن نہ بنایا تو، بھارت، ڈنمارک کے ساتھ اپنا تمام تعاون و اشتراک اور سانجھ پن منجمد کر دے گا ۔

عمران خان نے پاکستان بد ل ڈالا

۔ عمران خان کی پارٹی نے پندرہ سال کی محنت کے بعد وہ ثمر پالیا ہے جس کے مدنظررکھ کر کپتان جی نے پارٹی بنائی تھی۔ اب اس حقیقت سے انکار کرنا لوہے کا چنا چبانے کے مترادف ہے کہ تحریک انصاف گیند بلے کی پارٹی ہے۔ الطاف حسین جیسا خود پرست لیڈر اگر عمران خان کو کامیاب اور تاریخی

نبض شناس دانشور اور قوم تحریر شازیہ عندلیب

امجد اسلام امجد آجکل پاکستان کے نادار مگر ذہین طلباء کے لیے دنیا بھر سے فنڈز اکٹھے کر رہے ہیں۔انہوں نے الفلاح اسکالرشپ تنظیم میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ اس سلسلے میں امجد اسلام امجد اور انور مسعود صاحب امریکہ اسپین اٹلی اور اب ناروے کے دوروں میں مصروف ہیں۔ یہ احباب یہاں پر چیریٹی مشاعرے کروا

ہیرو کہانی نویس اور سیاہ فام حسینائیں

س خاندانی فنکار کی فنکاری میں کوئی مضائقہ نہیں بے شک وہ چاکلیٹی ہیرو کی شکل والے والد کا ایسا بیٹا ہے جسے بلاشبہ ملک چاکلیٹ ہیرو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے فن کی بلندی میں تو کوئی شک نہیں لیکن مگر بیشتر ڈراموں میں اسے ایک عجیب افتاد کا سامنا

نارویجن سیاست میں پاکستانیوں کی اکثریت

ناروے میں بسنے والے پاکستانی بھی کئی مسائل کا شکار ہیں جن کے لیے نارویجن پاکستانی سیاستدان آواز اٹھا سکتے ہیں۔ ان مسائل میں پاکستانیوں کی بیروزگاری اور اسکولوں میں اردو زبان سکھانے کے بندوبست جیسے مسائل شامل ہیں۔اس ضمن میں اب تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ ان مسائل کے حل کے لیے سب پاکستانیوں کو منظم ہونا

بطور قوم زوال کی جانب سفر

زوال کا ایک سبب نہیں ہوتا بلکہ اسباب ہوتے ہیں یعنی یہ ایک چیز یا کسی چھوٹی سے حرکت سے نہیں آتا بلکہ اسکے پیچھے ایک لمبی مدت اور اسباب ہوتے ہیں جس کے آثار آہستہ آہستہ نمایاں ہوتے ہیں۔لفظ زوال کی وضاحت اس لئے ضروری تھی کیونکہ اوّل جب بھی کوئی قوم اسکی لپیٹ میں آتی ہے تو اسباب کے ساتھ اسکی تاریخ بھی رقم ہوتی ہے۔ بدقسمتی

ڈینش سفیر اور پاکستانی پولیس

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہمارے پڑوسی اور جنگجو ملک کا حکمران اپنی فوج کی پریڈ ملاحظہ کر ر ہا تھا۔اچانک کسی نے شرات سے کہ دیا کہ وہی آ گیا ہے ۔ حکمران بیچارہ ڈر کے مارے اپنی مسلح فوج کی پریڈ چھوڑ کر سر پہ پائوں رکھ کر میدان سے بھاگ گیا۔ یہ منظر دنیا کے تمام ٹی وی چینلز پر بڑے

پاکستان کی کہانی پاکستان کی زبانی

لیکن افسوس صد افسوس یہ صرف میری خوش فہمی اس وقت تک برقرار رہی جب تک قائد زندہ رہے وہ مجھے مضبوط و مستحکم کرنے پر کمربستہ رہے۔ یہ میری بد قسمتی کہ میرے محسن کی زندگی نے کچھ زیادہ وفا نہ کی اور مجھے تنہا چھوڑ گئے۔ بس پھر تو کیا بتائوں کہ مجھ پر کیا گیا گزری ،بجائے یہ کہ میری بنیادوںکو مضبوط سے مضبوط تر

ناروے مین الیکشن اور پاکستانی امیدوار

اس کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ بیشتر پاکستانی امیدواروں کا پاکستانی کمیونٹی سے رابطہ ہی کم ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستانی ووٹرز کے ووٹ تو پاکستانی امیدواروں کو ہی دیے جانے چاہیں۔لیکن شائید انہیں ایک دوسرے پر اعتبار ہی نہیں۔کیونکہ ایک تو پہلے سے موجود پاکستانی سیاستدانوںکا پاکستانی مسائل پر سرد رویہ اور