گذشتہ ہفتے میرا ایک کالم اس مہلک بیماری کے حوالے سے کشمیر کے موقر روزنامہ کشمیر عظمی میں شائع ہواتھا۔ اور آج مجبوراً اسی طرح ملک کے درد انگیز حالات کودیکھتے ہوئے ایک اور مضمون کی صورت میں لکھنے پہ مجبور ہو گیا۔ ملکی حالات اس وقت قابل رحم بنے ہوئے ہیں، لاشوں کے انبار ایسے لگ گئے ہیں جیسے کسی ہول سیل دکان پہ لاشوں کی خریدوفروخت ہو رہی ہے۔ سب اپنے غم میں مبتلا ہو گئے ہیں، کوئی اپنے جوان بیٹے کی نعش اُٹھا رہا ہے تو کوئی بُزرگ اپنی بیوی کی نعش کو ایمبولینس نہ ملنے کے سبب اپنی سائکل پہ شمشان گھاٹ کی اورلے جا رہا ہے۔ کوئی آکسیجن کے لئے تڑپ رہا ہے تو کوئی اسپتال میں بیڈ نہ ملنے کے سبب سرِ راہ موت کی آغوش میں جا رہا ہے۔ غرض پورے ملک میں اس بیماری نے حکمرانوں کی بے حسی کے سبب تباہی مچا دی ہے۔ ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی غریب اور مجبور عوام ہوتی ہے، مجبوروں اور بے بسوں کو اس وقت خاصی پریشانیوں کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔ کچھ تو اپنی دوائیوں کے لئے ترس رہے ہیں اور کچھ اپنے روزگار کو چھن جانے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اس ساری درد انگیز کہانی کوبھارتی میڈیا کے ایک کرونا وائرس میں مبتلاہونے والے صحافی نوین کمارنے اپنے ایک ویڈیو میں کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ

’’انسانیت پر جو یہ حملہ ہوا ہے اس کی صورت آج نہیں تو کل بدلے گی، بدلنی چاہے، میںنے اس سے پہلے اس دیش کو اس طرح سے لاشوں کے ڈھیر میں نہیں دیکھا ہم اتنے’ آسہاے ‘(بے بس )کبھی نہیں تھے ایک دیش کے طور پر، انسان کے طور پر، ڈیموکریسی کے طور پر ہم پورے طریقے سے نکمے، بڑشٹ (جعلساز) اور’ بربر‘ ثابت ہوئے ہیں‘‘۔

مذکورہ صحافی کا اس ویڈیومیں وہ مزید کہتاہے کہ

’’ہم میں سے ہر ایک آدمی اپنی نظروں سے گرا ہوا ہے، ہم سب کسی ’آدرہش شکتی‘ (غیبی طاقت )کی مدد کی اُمید میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہاں کوئی سرکار نہیں ہے، یہاں کوئی پردھان منتری نہیں ہے، یہاں کوئی ’ووستا‘ (سہولیت) نہیں ہے، یہاں کوئی افسر شاہی نہیں ہے اور سب کو اپنے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ میں نے اس سے پہلے پچھلے چالیس پینتالیس سال میں ڈاکٹروں کو بلک بلک کر روتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ آپ کسی بھی ڈاکٹرسے بات کریں وہ کہتے ہیں کہ ہم کو میڈیکل پروفیش سے چڑ ہو گئی ہے ہم اس دن کے لئے تو اس پیشے میں نہیں آئے تھے۔ آکسیجن کے بنا اپنے مریضوں کا مرنا ڈاکٹروں کی نیند اُڑا رہا ہے۔ اور آپ یقین کریں مجھے ایسا لگتا ہے کہ آج سال بھرکے بعد ہمارے ڈاکٹر بہت ساری مانسک(نفسیاتی) بیماریوں سے لڑ رہے ہوں گے، جو موتیں وہ دیکھ رہے ہیں اور جتنے اسہاے(بے بس) وہ محسوس کر رہے ہیں اس کے بعد جس ٹروما میں وہ جائیں گے اس کا اندازہ ہم کو اور آپ کو نہیں ہے۔ اس دیش کو دوزخ بنا دیا گیا ہے اور ہم سب کو اتنا بیچارہ بنا دیا گیا ہے جیسے ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے۔ خیر یہ وقت شاید گُزرجائے گا اور جب یہ گزرا ہوا وقت ہمارے سامنے آئے گا مجھے نہیں معلوم میں رہوں گا نہیں رہوں گا مجھے نہیں معلوم ڈاکڑ منیش رہیں گے نہیں رہیں گے ڈاکٹر’ سونو‘ رہیں گے نہیں رہیں گے، لیکن جو لوگ بھی رہیں گے وہ سوچیں گے کہ اس دنیا کو اور بہتر رہنا چاہے وہ سوچیں گے کہ ہم کو ہماری آنے والی نسلوں کے لئے مندر اور مسجد کے جھگڑوں سے اوپر اُٹھنا چاہیے، وہ سوچیں گے اور سوچنا چاہیے کہ ہمارے دیش کو مندروں اور مزاروں، میناروں کی ضرورت نہیں ہے، اُن کو سوچنا چاہیے اس دیش کو اچھے اسپتالوں کی ضرورت ہے، اچھے اسکولوں کی ضرورت ہے اس دیش کو اچھے میڈیکل کالجوں کی ضرورت ہے، اچھے ڈاکٹر پیرا میڈیکل اسٹاف کی ضرورت ہے، دوائیوں کی ضرورت ہے، بستروں اور وینٹی لیٹروں کی ضرورت ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ اس دیش کے ہر مندر کی دولت کو اسپتالوں کے حوالے کر دیا جائے، ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ اس دیش کی ہر مسجد کو ہسپتال میں تبدیل کر دیا جائے، ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ اس دیش میں تب تک کوئی مندر نہیں اُٹھ(بن) سکے گاجب تک کہ اُس کے ساتھ سو بیڈ کا اسپتال نہیں بنایا جاتا اس کے ساتھ کوئی اسکول اٹیچ نہیں ہو گا، ہم کو سوچنا پڑے گا۔ ـــ‘‘( بشکریہ سوشل میڈیا)۔

یہ درد انگیز باتیں ملکی میڈیا کے ایک صحافی کی تھیں۔ اس سے محترم قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ملکی حالات اس وبائی بیماری اور حکمرانوں کے بے حسی کے سبب کس طرح سے بگڑ گئے ہیں۔

مجموعی طور مشاہدے سے لگ رہا ہے کہ بھارت میں یہ مہلک بیماری روز بروز طاقتور ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ ہفتہ تک یومیہ تین لاکھ کیسز رپورٹ ہوئے رہے تھے لیکن تادم تحریر پہلی بار بھارت میں تین لاکھ پچاس ہزار سے زائد کیسز مثبت آرہے ہیں جو کہ اب ایک عالمی ریکاڈ بن گیا ہے۔ جب کہ 4ہزار سے زائداموات بھی رپورٹ ہو رہی ہیں۔ اب تک بھارت میں کرونا متاثرہ افراد کی تعداد 2؍ کروڑ کے ہندسے کو بھی پار کر گئی ہے۔ اس ساری تشویشناک صورتحال کے بیچ چند ممالک نے بھارت سے آنے والے شہریوں پر پابندی عائد کر دی ہے جس میں سے سر فہرست امریکہ اور آسٹریلیا ہیں۔ آسٹریلیا نے بھارت سے آنے والے شہریوں کی واپسی اب جُرم قرار دے کر سخت سزاوئوں کا اعلان کیا ہے۔ امریکی ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کی ایک اہم رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزانہ اموات کی تعداد مئی کے وسط تک بڑھ کر یومیہ 13؍ہزار تک پہنچ سکتی ہے اور یہ تعداد آج کی تاریخ میں رپورٹ ہونے والی اموات کے مقابلے میں چار گناہ زیادہ ہے۔ اس رپورٹ سے یہ بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ رواںماہ کے وسط تک ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے دوسرے حصوں میں غیر معمولی اضافے کا باعث بنے گا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں کیسز اور اموات میں غیر معمولی اضافہ جاری ہے۔ حالاں کہ رپورٹس یہ بھی آ رہی ہیں کہ سرکار اصل تعداد کو چھپا رہی ہے۔ دلی سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ دعوت میں چھپے ایک مضمون میں مضمون نگارنے حکومت کے اس دھوکہ دہی کے کھیل کو کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہوے کہا ہے کہ’’احمد آباد میں حکومت نے اعلان کیا کہ کل 20؍لوگ کوویڈ سے ہلاک ہو گئے جب کہ صرف 17؍گھنٹوں کے اندر ایک کوویڈ اسپتال سے’’ سندیش اخبار‘‘ کے نامہ نگار نے 63؍لاشوں کی گنتی کی۔ اسی طرح سے امبانی کے جام نگر میں گرو گوبند اسپتال سے اپریل 10؍اور 11؍کو 100؍لاشوں کو نکلتے دیکھا گیاجب کہ حکومت کے بیان کے مطابق کوئی موت نہیں ہوئی تھی۔ سورت سے انہی تاریخوں میں 22؍اموات یومیہ کا سرکاری عدد تھا جب کہ شہر میں ایک دن کے اندر 700؍لوگوں کے آخری رسومات کی گنجائش ہے اور وہاں آگ ٹھنڈی ہی نہیں ہو پائی یہاں تک کہ بھٹی کی مسلسل گرمی سے لوہے کی سلاخیں تک مڑ گئیں۔‘

اس ساری صورتحال میں جو سب سے زیادہ مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں وہ مجبور اور لاچار عوام ہے۔ بڑے لوگوں نے تو آکسیجن کے سلینڈر تک خرید کے رکھے ہیں خرد و نوش کی تو بات ہی نہیں۔ لیکن مجبور، لاچار، مزدور طبقہ چھوٹے موٹے کاروباری خاصے پریشانی کے عالم میںچلے گئے ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے تو چند زندہ دل لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کے لئے اُٹھ کھڑا ہو جانا چاہے۔ جہاں بھارت کی اکثر ریاستیں اس مہلک بیماری کی چپیٹ میں آگئی ہیں وہیں مرکزی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی صورتحال انتہائی تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں اپنے اپنے گائوں کی سطح پہ بیوت المال کا قیام عمل میں لاناچاہیے یا جہاں یہ بیوت المال کا قیام ہے وہاں اسکی مضبوطی کے لئے ہر طرح کے اقدام کرنے چاہیں، اِن ہی بیت المالوں کے ذریعے سے اس وقت ہمیں مدد کے لئے اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے، بلکہ آکسیجن کی فراہمی کے حوالے سے بھی تدابیربنانی چائیں۔ ماہرین کے مطابق اگر بھارت میں یہی صورتحال رہی تواگلے چند ہفتوں کے اندر عوام کوشدید قسم کی بہرانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جب ہر قسم کا کاروبار اور مزدوری ختم ہو گئی ہو، کارخانے اور فیکٹریوں میں کام کرنے والا مزدور طبقہ، دہاڑی کے مزدور اور مفلوک الحال کہاں جائیں۔ اب ضرورت ہے کہ ہم اس عالم نفسانفسی میں ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کریں۔ ضرورت ہے ہم غم خوار بن جائیں، مدد گار اور انسانیت کے ہمدرد ہونے کا ثبوت پیش کریں۔ ملکی سطح پہ بھی جماعت اسلامی بھی خدمت خلق کے لئے خاصی متحرک ہے جس نے اپنی چند مساجد کو بھی اسپتالوں میں تبدیل کر نے کے علاوہ کووڈ مریضوں کے علاج کی سہولتوں کے حوالے سے ایک مثال قائم کر دی ہے، اسی طرح سے جموں کشمیر میں صوبہ جموں میں ابابیل کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم خاصی متحرک ہے جو اس وبائی صورتحال میں ایک اہم رول اد کر رہی ہے اسی طرح سے اتھ رُوٹ، یتیم فائونڈیشن اور دیگر نجی تنظیمیں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم کسی حکمران سے خیر کی تو قع نہیں کرنی چاہے، کیوں کہ اکثرحکمران حق پرست اور غمخواری کی صفات سے متصف نہیں ہوتے۔ جن حکمرانوں کو اس وبا ء کی پہلی لہر کے بعد ایک سال کا وقفہ ملا تھا لیکن اس ایک سال کے بعد بھی وہ اس مہلک بیماری کو روکنے اور مریضوں کے علاج کے لئے کوئی خاص قدم اُٹھانے میں ناکام ہو گئے ہیںجس کے سبب آج ملکی عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اگر اس ایک سال میں ان حکمرانوں نے اپنے مفادات اور انتخابی ریلیوں کو کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دیا ہوتا اور آکسیجن و اسپتالوں کا انتظام کیا ہوتا تو شاید آج ملکی عوام کو یہ حال نہیں دیکھنا پڑتا۔ اب ہمیں چاہیے کہ ہمیںاپنے بل بوتے پہ عوام کی مدد کے لئے آگے آئیں۔ نوجوانوں کو خصوصا َاپنے اپنے محلے میں بیوت المال کا قیام عمل میں لانا چاہیے کیوں کہ ان حالات کے ہوتے ہوے بیوت المال کی اہمیت اور افادیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بیت المال ایک ایسا ادارہ ہے جہاں سے بے بسوں او ر مجبوروں کی داد رسی بلا کسی مسلک و جماعت ہوتی ہے۔ ہمارے علماء کرام کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کو اس حوالے سے تیار کریں اور عوام کو بیوت المال کے قیام پر اُبھاریں جہاں جہاں پہ قائم ہیں وہاں لوگوں کو ان اداروں کی مدد پہ اُبھاریں۔ ایسے حالات کے سبب ملک کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی ضرورت مندوں، مسکینوں، بیماروں کی ایک فوج تیار ہو گئی ہے۔ جو بغیر کسی سہارے کے درد رکی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہیں۔ جن کو اپنے علاج کے لئے پیسے نہیں، جن کو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سماجی تنظیموں کو بھی اب اس حوالے سے خاصا متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس مجبور و محکوم قوم کی بر وقت داد رسی ہو۔ رابطہ 9906664012

اپنا تبصرہ لکھیں