23قسط نمبر مصحف

تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجد

فرشتے چلی گئی اور وہ شاپر اٹهائے خود کو گھسيٹتی باہر نکلی-

ساتھ والےکهلے گیٹ میں اندر جاتی گاڑی لمحے بهر کو رکی- شیشہ نیچے ہوا- سر پہ کیپ اور وجیہہ چہرے پہ ڈارک گلاسز لگائے اس نے اسے دیکها تها جو گیٹ کے سامنے کهڑی آنکهیں سکوڑے اسے ہی دیکھ رہی تهی- وہ چوکیدار کو کچھ کہہ کر گاڑی زن سے اندر لے گیا-

چوکیدار بهاگتا ہوا اس کے قریب آیا-

” صاحب کہہ رہا ہے، آپ کو اندر ڈرائینگ روم میں بٹهائے، وہ آتا ہے-”

” تمہارے صاحب نے سوچا بهی کیسے کہ میں اس سے ملنے آئی ہوں- مائی فٹ- یہ پکڑو،اور اپنے صاحب کے منہ پہ مارنا-” غصے سے اس کی آواز بلند ہونے لگی- سارا کیا دهرا اسی شخص کا تها، اسے اس پہ بے طرح غصہ تها- اس نے شاپر اسے تهمایا-

اسی پل وہ کیپ ہاتھ میں لیے تیزی سے چلتا ان تک آیا-

” خان! گیٹ بند کر دو اور بتول سے کہو، چائے پانی کا بندوبست کرے، مہمان ہیں ، اور آپ پلیز اندر آ جائیں-” شائستہ و ہموار لہجہ، وہ قطعا مختلف لگ رہا تها-

” مجهے اندر آنے کا کوئی شوق نہیں ہے-”

” لیکن آغا فواد کے باہر آنے کی خبر سننے کا تو ہو گا-” اور وہ متذبذب سی سوچتی رہ گئی تو ہمایوں نے مسکرا کر سر جهٹکتے راستہ چهوڑ دیا-

دن کی روشنی میں اس کا لاؤنج اتنا ہی نفیس تها جتنا اس رات لگا تها-

اونچی دیوار گیر کهڑکیوں کے ہلکے سی گرین پردے نفاست سے بندهے تهے، سنہری روشنی چهن کر اندر آ رہی تهی- کونوں میں بڑے بڑے مغلیہ طرز کے سنہری گملوں میں لگے پودے بہت تروتازہ لگ رہے تهے” بیٹهئے-” وہ ہاتھ سے آشارہ کرتا سامنے صوفے پہ بیٹها- اس کے چہرے پہ کهڑکی سے روشنی سیدهی پڑ رہی تهی-

” تهینک یو-” وہ ذرا تکلف سے بیٹهی- اس کا صوفہ اندهیرے میں تها- ہمایوں کو اس کا وجود بهی اسی تاریکی کا حصہ لگا تها-

” آپ نے جو بهی کہنا ہے، ذرا جلدی کہیے-”

” ڈر گئی ہیں؟” وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکهے ٹیک لگائے محفوظ سا مسکرایا تها-

” میں ڈرتی نہیں ہوں، بلکہ آپکو بےحد ناقابل اعتبار سمجهتی ہوں-”

“شوق سے سمجهیں، مگر میں نے آپ کو اغوا نہیں کیا- آپ کورٹ میں میرے خلاف بیان نہیں دے سکتیں-”

” آپ کو کس نے کہا کہ میں آپ کے خلاف بیان دے رہی ہوں؟”

“آپ کے تایا نے-”

محمل نے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکها- بات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی تهی-

” وہ کہہ رہے تهے کہ آپ کورٹ میں یہ بیان دیں گی کہ میں نے آپ کو حبس بےجا میں رکها اور یقینا وہ آپ پر اس کے لیے دباؤ ڈالیں گے-”

” آپ کو کیوں لگا کہ انہیں مجھ پر دباو ڈالنا پڑے گا؟” وہ اب مطمئن سی ٹانگ پہ ٹانگ رکهے، پاوں جهلا رہی تهی- انداز میں ہلکا سا طنز تها- ہمایوں ذرا چونک کر سیدها ہوا-

” کیا مطلب؟”

” حبس بےجا میں تو آپ نے مجهے رکها تها آےایس پی صاحب-”

“مس محمل ابراہیم! اتنی آسانی سے اتنے بڑے بیان نہیں دیے جا سکتے- حالانکہ آپ جانتی ہیں کہ میں بےقصور ہوں-”

” بےقصور؟ اگر آپ مجهے گهر جانے دیتے تو میں یوں بدنام نہ ہوتی-”

” پہلے آپ بیہوش ہوئیں، حالانکہ اس وقت آپ ایک اےایس پی کی تحویل میں تهیں، ہمایوں داؤد کی نہیں- اگر آپ مسجد کی دیوار نہ پهلانگتیں تو میں رات ہی آپ کا بیان لے کر اکیلے آپکو گهر چهوڑ آتا-”

” مجهے کمرے میں بند کرتے وقت تو آپ نے کسی بیان کا ذکر نہیں کیا تها-”

” مجهے قانون مت سکهائیں- وہ میری تفتیش کا طریقہ تها-”

” تو آپ کے اس طریقے میں بهلے کوئی بدنام ہو جائے؟”

” تو ہو جائے- مجهے پرواہ نہیں ہے-”

“آپ……” اسکا دل چاہا، وہ گملے اس کے سر پہ پهوڑ دے-

” میم! اس وقت آپکو آپکے گهر نہیں چهوڑا جا سکتا تها- ہم فواد کو ڈهیل دے رہے تهے- میں جانتا تها، آپ مسجد گئیں ہیں اور فجر سے پہلے مسجد کے دروازے نہیں کهلتے، سو میں اذان سنتے ہی آپ کو لینے آ گیا تها-”

” مجهے آپ کی کہانی نہیں سننی-” وہ پیر پٹختے اٹهی- وہ ابهی تک تاریکی میں تهی جس سے اس کے چہرے کے نقوش مدهم پڑ گئے تهے-

” نہ سنیں- مگر میرا کارڈ رکھ لیں- ہو سکتا ہے آپ کو میری مدد کی ضرورت پڑے-” اس نے ایک کارڈ اس کے ہاتھ میں گویا زبردستی رکهنا چاہا-

” مجهے ضرورت نہیں ہے؛” اس نے پکڑ تو لیا، مگر جتانا نہ بهولی اور پهر اسی طرح کارڈ پکڑے باہر نکل گئی-

وہ لاؤنج میں تنہا کهڑا رہ گیا- کهڑکی سے چهن کر آتی روشنی ابهی تک اس کے چہرے پہ پڑ رہی تهی-

لاؤنج میں سب بڑے موجود تهے- وہ سر جهکائے’ کارڈ کو احتیاط سے پاکٹ میں چهپا کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی-

“محمل!” غفران چچا نے قدرے رعب سے پکارا- آغاجان نے تو اسے دیکهتے ہی منہ پهیر لیا تها- وہ اس دن سے اس سے مخاطب نہیں ہوئے تهے-

” جی؟” وہ ناگواری سے رکی-

” کدهر سے آ رہی ہو؟”

” پرچہ کٹوانے گئی تهی تهانے!”

” واٹ؟” غفران چچا غضب ناک سے اس کی طرف بڑهے-

” جی آپ کے فواد آغا کے خلاف پرچہ کٹوانے گئی تهی- کیوں؟ نہیں کٹوا سکتی ؟” وہ ان کے بالکل سامنے کهڑی بلند آواز میں بد لحاظی سے بولی تهی- ” اور مجھ سے سوال جواب مت کیجئے گا، میں جدهر بهی جاؤں میری مرضی-

آپ لوگ ہوتے کون ہیں مجھ سے ……..”

چٹاخ کی آواز کے ساتھ اس کے منہ پر تهپڑ لگا تها-

وہ بےاختیار دو قدم پیچهے ہٹی اور چہرے پہ ہاتھ رکهے بےیقینی سے غفران چچا کو دیکها-

” پرچہ کٹواؤگی تم ؟ ہاں-” انہوں نے اس کو بالوں سے پکڑ کر زور سے جهٹکا دیا-

” ہاں ہاں کٹواؤں گی- مجهے نہیں روک سکتے آپ لوگ-” وہ حلق پهاڑ کر چلائی تهی-

دوسرے ہی لمحے اسد چچا اٹهے اور پهر ان دونوں بهائیوں نے کچھ نہیں دیکها- تابڑ توڑ اس پہ تهپڑوں کی بارش کر دی-

آغاجان بڑے صوفے پہ خاموشی سے ٹانگ پہ ٹانگ پہ چڑهائے بیٹهے اسے پٹتے دیکهتے رہے تهے- تائی مہتاب، فضہ اور ناعمہ چچی بهی قریب ہی بالکل خاموشی سے بیٹهی تهیں- سامیہ کچن کے کهلے دروازے میں کهڑی تهی- اوپر سیڑهیوں سے ندا جهانک رہی تهی-

وہ اسے بری طرح گالیاں بکتے مارتے چلے گئے- وہ صوفے پہ بےحال سی گری چیخ چیخ کر رو رہی تهی، مگر ان دونوں نے اسے نہیں چهوڑا-

” بول ‘ کٹوائے گی پرچہ؟” وہ دونوں بار بار یہی پوچهتے، یہاں تک کہ نڈهال سی محمل میں جواب دینے کی سکت نہ رہی تو انہوں نے ہاتھ روک لیا- صوفے کو ایک ٹهوکر مار کر غفران چچا باہر نکل گئے-

” امی، امی-” وہ صوفے پہ گری منہ پہ بازو رکهے گهٹی گهٹی سسکیوں سے رو رہی تهی- مسرت ادهر کہیں بهی نہیں تهیں- آہستہ آہستہ سب بڑے ایک ایک کر کے اٹھ کر چلے گئے- سیڑهیوں سے لگی تماشا دیکهتی لڑکیاں بهی اپنے کمروں کو ہو لیں-

” مر جاؤ تم سب اللہ کرے تمہارے سب کے بچے مر جائیں، چهت گرے تم لوگوں پہ…… گردن کاٹ دوں میں تمہارے بچوں کئ…..” وہ ہچکیوں سے روتی گهٹ گهٹ کر بد دعائیں دیتی جا رہی تهی-

کتنی ہی دیر بعد لاؤنج کا دروازہ کهلا اور دن بهر کا تهکا ہارا حسن اندر داخل ہوا- کوٹ بازو پہ ڈالے، ٹائی کی ناٹ ڈهیلی کرتا وہ “ممی، ممی” پکارتا ذرا آگے آیا تو ایک دم ساکت رہ گیا-

کارپٹ پہ بکهرے کشن اور ایک صوفہ جسے ٹهوکر مار کر جگہ سے ہٹایا گیا تها- اس پہ عجیب طرح سے گری محمل- بکهرے بال، چہرے پہ نیل- بازوؤں پہ سرخ نشان- وہ بازوؤں سے آدها چہرہ چهپائے سسکیوں سے رو رہی تهی-

وہ متحیر سا چند قدم آگے آیا-

” محمل!” وہ بنا پلک جهپکے اسے دیکھ رہا تها- ” کس نے……. کس نے کیا ہے یہ سب؟”

” مرجاؤ تم!” ایک دم بازو ہٹا کر اس نے حسن کو دیکها اور پهر چلائی تهی- ” خدا کرے تم سب مر جاؤ، یتیموں پہ ظلم کرتے ہو، خدا کرے تمهارے بچے مر جائیں – سب کے-”

” محمل! مجهے بتاؤ ، یہ کس نے کیا ہے ؟ میں-”

” مر جاؤ تم سب-” وہ پوری قوت سے چلائی ، پهر یکدم بلک کر رو دی اور اٹھ کر لڑکهڑاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی-

اپنا تبصرہ لکھیں