یوگی حکومت کو  احساس ہوگیا ہے کہ

یوگی حکومت کو  احساس ہوگیا ہے ک
اگر ریاست کی عوام نے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ووٹ کیا تو بی جے پی حاشیہ پر چلی جائے گی :
قاسم رسول الیاس
 
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس اور سماج وادی پارٹی کے سربرا ہ اکھلیش یادو کی ۲ ؍ اکتوبر کی ملاقات پر وزیر اعلیٰ یوپی کے ذریعہ سخت ردعمل سامنے آیا کہ’’ دیکھئے عمر خالد کے والد کس سےمل رہے ہیں ؟ وہ وہاں جاکر کہتے ہیں کہ ہم سماج وادی کو جتانے کے لئے سازشیں کریں گے ‘‘اس پر ویلفیئر پارٹی کے قومی صدر سے نہال صغیر کی گفتگو کے اہم نکات پیش ہیں ۔
 
سوال :ایس پی سربراہ اکھلیش سے ملاقات کا مقصد؟
*ہماری یہ تیسری ملاقات تھی جو ان کی دعوت پر ہوئی تھی۔ پہلی ملاقات فروری میں ، دوسری اگست میں اور اب یہ تیسری ملاقات تھی ۔اس سے قبل جب ہم ان سے دوسری بار ملے تھے تو ہم نے انہیں بتایا تھا کہ فاشسٹ قوتوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے ہمارے پاس ایک لائحہ عمل ہے،جس پر عمل کرکے آئندہ انتخاب میں سماج وادی ایک بڑے سیکولر محاذکی قیادت کرسکتی ہے ۔دوسری بات ہم نے ان سے کہی کہ اب تک سماج داج وادی پارٹی اور دیگر حکومتوں کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ ان کے اقتدار میں ایک خاص طبقہ ہی حکومتی اقدامات اور مراعات سے فیضیاب ہوتا رہا ہے مگر اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں ۔اب جو بھی حکومت بنے اس میں سماج کے ہر طبقہ کی حصہ داری ہونی چاہیے۔ اس سے سماج کے ہر طبقہ کو بطور خاص جو محروم و مظلوم لوگ ہیں ان کے مسائل حل ہونے چاہیے۔ آپ کی انتخابی ریلیوں اور انتخابی منشور اور آپ کے اسٹیج سے یہ پیغام جانا چاہیے۔ بہوجن سماج پارٹی آپ سے اتحاد نہیں کرنا چاہتی اور کانگریس کا ساتھ آپ لینے کو تیار نہیں ہیں، ایسی صورت میں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں جو سماج کے کسی طبقہ یا ذات سے تعلق رکھتی ہیں، آپ انہیں ساتھ لے کر ایک بڑا محاذ تشکیل دیں اور عوام میں یہ تاثر دیں کہ آئندہ جو حکومت بنے گی وہ سب کی مشترکہ حکومت ہوگی ۔اترپردیش میں ذات پات کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ ہر طبقہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ جب تک وہ شریک اقتدار نہیں ہوتے ، تب تک ان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ ویسے بھی حکومت کو مشترکہ ہی ہونا چاہئے ۔میرے ان مشوروں سے اکھیلیش یادو جی نے اتفاق کیا تھا اور کہا کہ ان فرقہ پرست اور فسطائی قوتوں کو روکنے کیلئے ویلفیئر پارٹی اور سماج وادی پارٹی مل کر نقشہ تیار کریں گے۔ اسی وقت انہوں نے ہماری تفصیلی ملاقات کے لئے۲؍ اکتوبر کا وقت طے کیا تھا۔ یہ ہماری تیسری ملاقات تھی ۔
سوال : کیا یوپی کے آئندہ ریاستی انتخاب میں سیٹوں کی تقسیم پربھی گفتگو ہوئی؟
*مذکورہ ملاقات میں ہم نے ان کے سامنے یہ خاکہ پیش کیا تھا کہ اتر پردیش کی ۴۰۳ سیٹوں میں سے ۱۵۰سیٹوں پر ہم کس طرح سماج وادی کے حق میں فضا سازگار بناسکتے ہیں ۔اس کے علاوہ فسطائی اور فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے ہمارے پاس کچھ اسٹریٹیجی ہے جو ہم نے ان کے گوش گزار کی۔کون کون سے مسائل ہیں اور انہیں کس طرح حل کیا جاسکتا ہے یہ بات ہم نے ان کے سامنے رکھی ۔ان کے ساتھ ان کے سکریٹری اور چار مشیر بھی تھے ۔جنہوں نے ہونے والی گفتگو کے اہم نکات نوٹ کئے ۔ اس مٹینگ میں پارٹی کی نیشنل اور اسٹیٹ ٹیم کے اہم ذمہ داران شریک ہوئے۔ اس ملاقات میں اکھلیش کی جانب سے کہا گیا کہ نو راتری کے بعد ہم پھر ملیں گے اور ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے اتحاد کا اعلان کریں گے ۔
سوال : آئندہ الیکشن میں سماج وادی کے کچھ بہتر کرنے کی امید ہے ؟
*اس وقت اتر پردیش کی عوام بی جے پی اور یوگی سرکار سے ناراض ہیں اور اپنا دامن جھٹکنا چاہتے ہیں، ان کے سامنے سماج وادی ہی ایک واحد متبادل ہے ۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی برسر اقتدار پارٹی ہے تو اسے اس کا فائدہ حاصل ہے مگر لوگ تبدیلی چاہتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لئے جائز ناجائز ہر حربہ استعمال کرے گی۔ سب سے بڑا حربہ اس کے پاس کمیونل کارڈ ہے۔ حالات کے پیش نظر ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم سماج وادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کی کوشش کریں گے ۔ بی جے پی ہر محاذ پر ناکا ہونے کے باوجود اپنی سوشل انجنیئرنگ کے ذریعہ ہر چھوٹے طبقہ اور کاسٹ کو اپنے ساتھ لینے کی کوشش کررہی ہے ۔ ابھی وزیر اعظم نے انتخابی مقاصد کے پیش نظر کئی اضلاع میں میڈیکل کالج کے قیام اور کئی فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا ہے۔ ایسے ہی بہت سارے اعلانات انہوں نے ۲۰۱۴ میں بھی کئے تھے لیکن بعد میں وہ انتخابی جملے ہی ثابت ہوئے ۔
سوال : آپ اور اکھلیش کی ملاقات پر وزیر اعلیٰ یوگی کی جانب سے شدیدتنقید کی وجہ ؟
*یوگی جی کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ ترقی اور وکاس کے محاذ پر پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں ۔ اب ان جھوٹے اور لچھے دار وعدوں پر وہ الیکشن نہیں جیت سکتے ۔ وہ عوام کی جائز توقعات پوری نہیں کرسکتے ۔ کووڈ کی وبا کے دوران گنگا میں بہتی لاشوں نے ان کی حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کو بے نقاب کردیا ۔ انہوں نے حقائق پر پردہ ڈالنے کیلئے بار بار یہ اعلان کیا کہ جو بھی آکسیجن کی قلت کی خبر سوشل میڈیا پر ڈالے گا اسے گرفتار کرلیا جائےگا ۔ اس طرح کے متکبرانہ رویے، بڑھتی ہوئی بے روزگاری و کمر توڑ مہنگائی ، خواتین کی عفت و عصمت پر پے درپے حملے، دلتوں اور آدیباسیوں کی حالت زار ، لا اینڈ آرڈر کی بد تریں صورت حال اور سرکاری غنڈہ گردی سے عوام تنگ آچکی ہے ،ایسی صورت میں یوگی حکومت کو انتخاب جیتنے کے لئے واحد راستہ نظر آتا ہے اور وہ ہے نفرت کی بنیاد پر ہندو مسلم پولرائزیشن کا راستہ ، جس پر وہ عمل پیرا ہیں ۔ دیکھئے یہ آبادی کنٹرول بل اور تبدیلی مذہب قانوں، تبدیلی مذہب کے نام پر مسلم علماء اور افراد کی گرفتاریاں ۔۔۔ یہ سب کیا ہے ہندو ووٹوں کو پولرائز کرنے کی ہی تو کوشش ہے ۔ اسی کوشش کا حصہ سماج وادی اور ویلفیئر پارٹی کے متوقع الائنس پر عمر خالد کے حوالہ سے تنقید بھی ہے ۔عمر خالد پر پولس نے ایک جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کیا ہے یہ دیش کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ یہ بات بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک عدالت سے کوئی فیصلہ نہ آجائے کسی کو محض پولس کی چارج شیٹ کی بنیاد پر مجرم نہیں گردانا جاتا ۔جے این یو کا مقدمہ چار پانچ سال پرانا ہے اور اس پر پولس نے اب تک چارج شیٹ تک دائر نہیں کی ہے ، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت کے مقاصد کیا ہیں۔ یوگی جی کا خیال ہے کہ وہ عمر خالد کا نام استعمال کرکے ہندو ووٹوں کو پولرائز کرلیں گے ۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ بوکھلا گئے ہیں ، انہیں احساس ہوگیا ہے کہ اگر عوام نے ترقی کی بنیاد پر ووٹ کیا تو ان کی حکومت کا خاتمہ یقینی ہے ۔اسی لئے وہ فرقہ وارانہ خطوط پر سماج کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں ۔ بی جے پی حصول اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے، مثال کےطور پر اگر پلوامہ کا درد ناک واقعہ نہ ہوتا تو ۲۰۱۹ کا الیکشن بی جے پی کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ یہ لوگ اقتدار کے لئے ملک کی سیکیوریٹی کو بھی داؤ پر لگا سکتے ہیں۔
سوال : اس ملاقات اور حمایت کے اعلان سے دیگر چھوٹی پارٹیوں کو سماج وادی کے قریب آنے میں مدد مل سکتی  ہے ؟
*دیکھئے ۴۱ ؍ پارٹیوں کا ایک اتحاد ہے جس میں سے ہم بھی ایک ہیں ۔اس میں دو تین ہی مسلم پارٹیاں ہیں باقی سب بیک ورڈ سماج کی سیاسی پارٹیاں ہیں ۔ ہم نے اکھیلیش سے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ایک بڑا اتحاد ہے آپ ان سے بھی ملاقات کرلیں اور دیکھ لیں کہ ان میں سے کتنی پارٹیوں کو یا پورے محاذ کو آپ اپنے ساتھ لے سکتے ہیں ۔اگر پورے محاذ کو ساتھ لے لیا جائے تو یہ تاثر جائے گا کہ سماج وادی کے ساتھ سبھی طبقوں کی نمائندہ سیاسی پارٹیاں ہیں ۔بات انہیں سمجھ میں تو آئی لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔سیاسی پارٹیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ جلدی نہیں کرتے ۔ ویلفیئر پارٹی کے ساتھ الائنس کے معاملہ میں انہوں نے کہا تھا کہ نوراتری کے بعد وہ اس کا اعلان ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کریں گے ۔جمہوریت کے مقابلے منفی فسطائی نظریہ، ترقی اور وکاس کے کسی بہتر ماڈل کی عدم موجودگی، ہر فرنٹ پر پسپائی کے باوجود بی جے پی کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ اس کا کمیٹڈ کیڈر ، کارپوریٹ ورلڈ کا غیر معمولی سپورٹ، گودی میڈیا کی بھرپور حمایت ، سوشل میڈیا میں بھرپور نمائندگی اور جھوٹ و افتراء پر مبنی اس کی انتخابی مہم میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ان سب ہتکھنڈوں کے باوجود بھی میرا ماننا ہے کہ اتر پردیش میں فی الوقت بی جے پی کے مد مقابل کسی پارٹی کیلئے زمین تیار ہورہی ہے تو وہ سماج وادی پارٹی ہے ۔
سوال : کیا موجودہ حالت میں پرینکا گاندھی کے سرگرم ہونے سے کانگریس کو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے ؟
*کانگریس پارٹی کے پاس اتر پردیش میں اب کیڈر نہیں ہے گو کہ پرینکا گاندھی کانگریس کے وقار کو بحال کرنے میں پوری تندہی سے جٹی ہوئی ہیں ۔لیکن ان کی محنت بے فائدہ ہے کیوں کہ بغیر کیڈر کے پارٹی کی حالت میں سدھار نہیں آسکتا ۔
سوال : سماج وادی پارٹی کے ترجمان راجیندر چودھری نے مذکورہ ملاقات سے عدم واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی کی تنقید کے تعلق سے کہا ’’وہ پولرائزیشن کی کوشش کررے ہیں‘‘۔ کیا محض اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے ۔ آخر اپوزیشن پارٹیاں پوری جرات سے بی جے پی کے حملوں کا دفاع کیوں نہیں کرتیں۔ بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے جاکر وہ بی جے پی کو پسپا کرنے کی حکمت عملی کیوں نہیں اپناتیں؟
*سیکولر پارٹیوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی ہمیں مسلم اپیزمنٹ کے نام پر گھیرنے کی کوشش کرے گی کہ یہ مسلمانوں کی پارٹیاں ہے ، مسلمانوں کے لئے کام کرتی ہیں ،اس لئے وہ کسی بھی طرح کے ردعمل میں کافی محتاط ہوتے ہیں ۔ہم نے اکھلیش جی کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آپ کا جو بنیادی ووٹ بینک ہے وہ ہے ساڑھے سات فیصد یادو جو اب تین حصوں میں تقسیم ہے ۔کچھ بی جے پی کے ساتھ ، کچھ آپ کے چچا کے ساتھ اور بقیہ آپ کے ساتھ ۔دوسرا بڑا ووٹ بینک ۱۹ ؍فیصد مسلمان ہیں ، اگر مسلمانوں کے ساتھ آپ کا رویہ یہی رہا جو ہے تو مسلمانوں کے سامنے ایم آئی ایم کی صورت میں نعم البدل موجود ہے۔آپ کے سرد رویوں کے سبب مسلم ووٹ آپ کو نہیں مل پائے گا ۔سماج وادی سمیت سبھی سیکولر پارٹیوں کو کھل کر میدان میں آنا چاہئے ورنہ جو ان کا ووٹ بینک ہے وہ بھی ان سے بدگمان ہوکر دوسری پارٹیوں کی جھولی میں چلائے گا ۔مجھے لگتا ہے سماج وادی یا کانگریس کے جو مشیر کار ہیں وہ انہیں یہ مشورہ دیتے ہیں آپ احتیاط سے کام لیں مسلمان کا تو ووٹ آپ کو مل ہی جائے گا، اس کے سوا ان کے پاس راستہ ہی کیا ہے ۔ یہ بہت ہی خطرناک سوچ ہے ۔اس سے انہیں نقصان ہی ہوتا ہے مگر ان کی یہ سوچ بن گئی ہے کہ عین الیکشن سے قبل مسلمانوں کے حق میں کچھ باتیں کہیں دیں گے تو مسلمان یک طرفہ طور پر انہیں ووٹ دے دیں گے ،یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ویسے ان کے موجودہ رویوں سے یہ محسوس ہوتا ہے اب انہوں نے بی جے پی کو کھل کر چیلنج کرنا شروع کیا ہے جس سے کچھ امید بندھی ہے ۔ اب سے پہلے تو ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ کوئی سخت مقابلہ کرپائیں گے ۔اب بھی اتنی قوت سے تو یہ بی جے پی کو چیلنج نہیں کررہے ہیں لیکن جسقدر بھی ہے غنیمت ہے ۔
سوال : ویلفیئر پارٹی کی فی الوقت کیا پوزیشن ہے تحصیل ، ضلع اور ریاستی سطح پر نیز کن ریاستوں میں اس کی بنیاد مضبوط ہے ؟آئندہ الیکشن میں ویلفیئر پارٹی کی جانب سے کتنے غیر مسلم امیدوار ہوں گے ؟
*ویلفیئر پارٹی سب سے اچھی پوزیشن بنگال میں ہے اس کے بعد کیرالا اور کرناٹک میں وہ بہتر پوزیشن میں ہے جبکہ مہاراشٹر میں بھی ہماری پوزیشن بہتر ہورہی ہے۔ کیرالا اور کرناٹک میں ہم لوکل باڈیز میں موجود ہیں ۔ اتر پردیش میں ہم ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہیں لیکن مغربی اور مشرقی اتر پردیش کے کچھ اضلاع میں اس حالت میں ہیں کہ کسی بڑی سیکولر پارٹی کے حق میں ووٹ ٹرانسفر کرواسکتے ہیں ۔ ہم یہ بات اس بنیاد پر کررہے ہیں کیوں کہ مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کے سبھی طبقات کا ہم پر اعتماد ہے اور اسی اعتماد کے سہارے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتر پردیش کی ۱۵۰ ؍ سیٹوں پر ہم کسی بھی سیکولر پارٹی کے حق میں ووٹ ٹرانسفر کرواسکتے ہیں ۔اتر پردیش میں پندرہ سے بیس فیصد غیر مسلم امیدوار کو بھی ٹکٹ دیں گے ۔
سوال : ایم آئی ایم کے تعلق سے آپ کیا کہیں گے ؟
*ایم آئی ایم کا اترپردیش میں کوئی انفرا اسٹرکچر نہیں ہے، وہ صرف مسلمان ووٹوں کو اپنے حق میں پولارائز کرسکتی ہے، اس کو بنیاد بناکر بی جے پی ہندو ووٹوں کو اپنے حق میں پولرائز کرلے گی ۔ ایم آئی ایم  مسلمانوں سے جذباتی اپیلیں کررہی ہے ، نیزانھیں سکیولر پارٹیوں سے بدظن کررہی ہے، س کے نتیجہ میںوہ چند سیٹیں تو حاصل کرلے گی مگر بی جے پی کی حکومت کو دوام بھی بخش دے گی ۔ جس طرح بنگال کے مسلمانوں نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیا ہے یہاں بھی مسلمانوں کو ایسا ہی کرنا چاہئے ۔اگردوبارہ بی جے پی کی حکومت بنی تو حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے ۔حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسیم نہ ہو ۔
سوال: ماضی میں سیمی سے وابستگی اور موجودہ حالات میں جماعت اسلامی اور مسلم پرسنل لابورڈ سے وابستگی سے آپ کی شخصیت پر منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوں گے ؟
*سیمی سے وابستگی کا معاملہ یہ ہے کہ میں ۱۹۸۵ میں سیمی سے ریٹائر ہوا ہوں اور بی ے پی حکومت نے اسے ۲۰۰۱ میں ممنوعہ قرار دیا ہے یعنی سولہ سال بعد ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ۲۰۰۱ تک سیمی پر یا سیمی کے کسی فرد پر کوئی مقدمہ نہیں تھا ۔ کسی حکومت کے ذریعہ کسی تنظیم کو یک طرفہ طور سے ممنوعہ قرار دینے سے کوئی تنظیم دہشت گرد نہیں ہوجاتی ۔ اس کے علاوہ سیمی کی طرف سے پابندی کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا  ہے لیکن سماعت ہی نہیں ہورہی ہے ۔ سیمی سے وابستگی کوئی جرم نہیں ہے ۔ رہی بات بابری مسجد مقدمہ کی تو یہ پوری امت کی لڑائی تھی اس کا ایک حصہ میں بھی تھا ۔ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے تمام آبزرویشن ہمارے حق میں تھے رام مندر کے حق میں فیصلہ ایک مضحکہ خیز اور ناقابل فہم فیصلہ ہے۔ جماعت اسلامی ہند اور مسلم پرسنل بور ڈ سے وابستگی میرے لئے ایک اعزاز ہے۔
اپنا تبصرہ لکھیں