ہم دفاع کی قیمت چکا رہے ہیں

ہم دفاع کی قیمت چکا رہے ہیں

تحریر شازیہ عندلیب
ہر داستان خونچکاں کے پیچھے کچھ خفیہ ہاتھ،کچھ باغی اور کچھ میر جعفر ہوتے ہیں۔اس یوم دفاع کے موقع پر ایک سوال اٹھتا ہے کیا ہم واقعی اپنے ملک قوم اور سرحدوں کا دفاع کر سکتے ہیں ؟اگر ایسا ہے تو پھر یہ غیر ملکی فوجیں ،ہمارے ملک میں کیا کر رہی ہیں؟زمانے بھر کے جاسوس ہمارے وطن میں کیا پکنک منا رہے ہیں وہ حکام کی نگاہوں سے کیوں اوجھل ہیں؟ڈرون حملے کیوں ہو رہے ہیں کیا وہ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں سرزمین وطن پر؟یوم دفاع کا دن ہم سب سے یہ پوچھتا ہے کیا ہمارا وطن واقعی محفوظ ہے؟کیا ہمارا مذہب ہمارا کلچر ہماری تنصیبات ہماری انرجی سب کا ہم لوگ دفاع کر سکتے ہیں؟اگر ایسا ہے تو پھر وطن عزیزکے سربراہوںکی آنکھوں کا پانی،ملک میں صاف پینے کا پانی،بجلی گیس پٹرول اور گیس سب کاہاں گئے ۔کس نے چوری کر لیے۔پاکستانیوں کا چین کون چرا کر لے گیا۔تحفظ کیوں نہیں ہو سکا؟یہ سب مال و دولت ملکی خزانہ،اسٹیل مل،مزدور کی روزی روٹی کپڑا اور مکان کون لے اڑا؟کیا میر ا ملک واقعی آزاد ہے؟ محفوظ ہے؟جواب دو اے قوم کے سپوتوں فوج کے سپاہیوں جرنیلوںْجواب مانگتی ہیں آج تم سے شہیدوں کی روحیں ،مجاہدین کی جانیں،علامہ اقبال اور قائد اعظم کی روحیں آج ہر محب وطن پاکستانی کے ضمیر کے سامنے سراپاء سوال بن کر کھڑی ہیں۔انہیں جواب چاہیے قربانیوں کا ،لہو کا حساب چاہیے۔ہے کوئی جو یہ بتائے کہ اگر آج ہماری قوم آزاد ہے ہم اپنے مذہب کا اپنی قوم کا تحفظ کر سکتے ہیں دفاع کر سکتے ہیں تو پھر ہم غیروں کے غلام کیوں؟ہم دوسروں کے محتاج کیوں؟
ہم دشمنوں کے فرمانبردار کیوں؟ہماری سوچیں، ہماری خواہشیں،ہمارے حقوق،ہماری تعلیمی پالیسیاں،ہمارے مالیاتی ادارے،ہمارے نظریات،کیا یہ سب آزاد ہیں کیا ہم ان کا تحفظ ان کا دفاع کر سکتے ہیں عملی طور پر؟
یوم دفاع تو ایک ایسایادگار دن ہے جس روز پوری قوم دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو گئی تھی۔اس لیے کہ ہمارے پاس ایمان کی طاقت تھی۔سچے کھرے حب الوطنی میں گھلی جذبے  تھے۔ایسی طاقت تھی جو کسی بھی بڑے سے بڑے دشمن  کے آگے سینہ سپر ہو جائے تو اس کے وجود کو پاش پاش کر دے۔اس وقت ہمیں کسی دنیاوی طاقت کی اورسہارے کی ضرورت نہیں تھی۔مگر آج ہمارے لیڈروں کو طاقت کے خاص کیپسولوں کے ساتھ ساتھ فلمی اداکاروںاور موسیقی کے ساتھ ساتھ مغربی طاقتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔آج ہمارے لیڈر قوم کی عزتوں،جوانوں اور ناموس کی حفاظت نہیں کر سکتے ۔وہ فوجس کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا تھا اس کے سربراہ نے قوم کی ایک بیٹی کو دشمنوں کے حولے کر دیابلکہ لال مسجد کو بھی قوم کی بے گناہ بچیوں کے خون سے سرخ کر دیا۔یہ وہی بہادر فوج تھی جس نے جب سن پینسٹھ کی جنگ لڑی تو ایک جوان مغنیہ نورجہاں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بناء اگلے مورچوں میں جا کر قومی ترانے گائے۔اس کے ترانوںنے فوجیوں میں جذبوں کی ایسی آگ بھر دی کہ پھر فتح ہمارا مقدر بنی تھی۔اسی فوج کے ایک جرنیل نے اپنی قوم کی ایک بیٹی کو غیروں کے حوالے کر دیا۔ایسے میں یوم دفاع کیا منائیں ۔جبکہ یہاں نعرے لگانے والے دعوے کرنے والے،ایٹم بم بنانے والے مہمات سر کرنے والے  اور سیاسی میدانوں کے فاتح سب اپنا اپنادفاع کر رہے ہیں۔ایسے میں یوم دفاع کے کیا معنی ہیں۔
وہ دن بھی کتنا یادگار تھا جب وطن عزیز کے ایک جری اور بہادر قومی لیڈر نے پوری دنیا کے سامے سینہ سپر ہو کر ملک کو ایٹمی طاقت بنا دیا تھا۔تب پورے عالم نے دیکھا کہ پاکستان جیسیی کمزور مملکت نے اپنے دشمن کو بتا دیا کہ اگر اس نے اس طرف نگاہ غلط دالی تو ہم بھی اینٹ کاجواب پتھر سے دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ہم بھی کسی سے طاقت میں کم نہیں۔تب دشمنوں کے چھکے چھوٹ گئے۔بڑے بڑے طاقتور حکمرانوں کی گرہیں کھل گئیں،گریباں چاک ہو گئے،مخالفوں کے ارمانوں کا خون ہو گیا۔جب ہمارے پروسی ملک نے ایٹمی دھماکہ کیا وہاں کے لوگوں کے ناک اور منہ سے خون نکل آیا اور جب وطن عزیز میں دھماکہ ہوا زمین نے سونا اگل دیا ۔مگر حیف ہے ہمارے سربراہوں پر جنہوں نے اپنی اتنی قیمتی سونا اگلنے والی سر زمین غیروں کے ہاتھوں اپنوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے لیے دے دی۔ہمارے ملک میں خون اس قدر ارزاں ہے ایک انسانی جان کی ایک زندگی کی کوئی قیمت کوئی اہمیت ہی نہیں وہاں انسان مارنا تو ایسا ہے جیسے کسی مچھر یا مکھی کو مار دیا جائے۔ایٹمی دھماکہ ہوا  پاکستان جیسی کمزور قوم ایٹمی طاقت بن گئی اور اس کے بعد ہمارے قوم کے سپوت نہ جانے کہاں جا چھپے۔وہ کن مورچوں میں جا بیٹھے ہیں کہ ملک کا دفاع ہی نہیں ہو رہا جس کا جی چاہتا ہے ملک میں گھس جاتا ہے۔بس صرف قومی تہواروں پہ عسکری طاقت کے مظاہرے ہوتے ہیں فوجی پریڈ ہوتی ہے سلیوٹ لیے دیے جاتے ہیں ۔اس ے بعد کوئی رعب و دبدبہ نہیں کوئی تحفظ نہیں آخر کیوں ؟کئی مکاتب فکر کے لوگ وطن عزیز میں بد امنی کو غیروں کی سازشوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ بد امنی ہم پر مسلط کی گئی ہے اس لیے کہ ہم بھی ایٹمی طاقتوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ہمارے وطن پر ظلم کی کالی آندھی ،اور خون کی ہولی زبردستی بھیجی گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے تحفطات سے دست بردار ہو جائیں۔اپنے ضمیر مردہ کر لیں۔ اپنی ترجیحات اپناکلچر اپنا رہن سہن  اپنے مذہبی اور معاشرتی نظریات اور تمدن تبدیل کر لیں۔تاکہ دشمنوں کے لیے تر نوالہ بن جائیں۔اپنے ضمیر مردہ کر لیں،تباہ ہو جائیں برباد ہو جائیںکیا کوئی باضمیر اور اہل ایمان مرد مومن مرد مجاہد اس جبر و قہر کے لیے تیار ہو سکتا ہے؟اگر وطن عزیز قائم ہے تو اہل ضمیراور انصاف پسندعدالتوں کی وجہ سے میڈیا کے سچے کھرے لکھاریوں اور انصاف پسند سیاسی جماعتوں کی وجہ سے۔ابھی میرے وطن کی مٹی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی ابھی انصاف کرنے والوں کی بدولت اس کی شمع پھر سے روشن ہو گی ضرور بس لوگوں کو کھلی آنکھوں اور حاضر دماغی سے نئی قیادت کو منتخب کرنا ہے جس کی اساس انصااف پر ہو آپ لوگ پہچان گئے ہوں گے میں کس کی بات کر رہی ہوں ۔اس وقت تحریک انصاف ہی ایسی قیادت ہے جو ملک کی  ڈگمگاتی نائو کوکنارہ دے سکتی ہے۔سب مل کر آگے بڑہیں اور ہاتھوں میں چپو تھام لیں تاکہ یہ نیا کنارے سے لگے اور ہم سب مل کر ملک کا دفاع کریں اور اسے ایمان فروشوں کے چنگل سے بچائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں