ہم آپ کے دشمن نہیں ہیں!

ایم ودودساجد
اقوام متحدہ کی اسپانسر شپ میں چلنے والے ایک عالمی ادارہ (ایس ڈی ایس این)نے اپنی تازہ سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہندوستان ’’خوش‘وخرم ‘‘رہنے والے ممالک میں118ویں نمبرپر آگیا ہے۔اس ادارہ کے سربراہ پروفیسرجیفری ساش ہیں جو اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بانکی مون کے خصوصی مشیر بھی ہیں۔اس رپورٹ نے دنیا میں خوش رہنے والے ممالک میں سب سے پہلا مقام ڈنمارک کو دیا ہے۔ڈنمارک پچھلے سال تیسرے نمبر پر تھا۔جبکہ پہلے اور دوسرے نمبر پر بالترتیب سوٹزر لینڈ اور آئس لینڈ تھے۔ہم اس سلسلہ میں ڈنمارک کا مقابلہ تو نہیں کرسکتے جس نے خود کو تیسرے نمبر سے سدھارا اور پہلے نمبر پر لے آیا لیکن ہم ہندوستان کو117سے 116پر تو لاہی سکتے تھے۔خاص طورپر’’اچھے دنوں ‘‘کے دعویداراور ہمارے وزیر اعظم کے لمبے چوڑے وعدوں کے بعد کم سے کم اتنا تو ہونا ہی چاہئے تھا۔پچھلے سال اس عالمی رپورٹ کے مطابق ہندوستان 117ویں نمبر پر تھا۔لہذا اس سال وہ ایک نمبر اور آگے بڑھا اور اب 118پر آگیا ہے۔یعنی بجائے اصلاح وترقی کے ہم تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔
بظاہر نمبروں کا یہ کھیل بہت سوں کے لئے کوئی خاص دلچسپ نہیں ہوگا۔لیکن اس کھیل کااگر بغورجائزہ لیا جائے تو یہ نہ صرف دلچسپی سے خالی نہیں ہے بلکہ ایک سنجیدہ بحث کا بھی موضوع ہے۔ہم جیسوں کے لئے بھلے ہی اس کی کوئی اہمیت نہ ہو لیکن حکمران وقت کے لئے یہ شرمناک ہے۔اس لئے کہ عالمی پیمانہ پر جو اہمیت ایک نمبر گھٹنے کی ہے وہی اہمیت ایک نمبر بڑھنے کی بھی ہے۔اس کو یوں سمجھئے کہ مطمئن اور خوش رہنے والے ممالک میں ہندوستان کا مقام‘صومالیہ‘چین‘پاکستان‘ایران اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں سے بھی نیچے آگیا ہے۔کوئی ذی ہوش ہوگا جس کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ اس وقت کرہ ارض پر سب سے زیادہ مظلوم مخلوق فلسطین میں آباد ہے۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ضمن میں فلسطین بھی ہم سے بازی لے گیا۔یعنی ہندوستان ‘فلسطین سے بھی نیچے آگیا ہے۔فلسطین 108ویں نمبر پر ہے۔جبکہ ہندوستان اس سے 10پائیدان نیچے 118ویں نمبر پر ہے۔
اب یقین ہے کہ نمبروں کے اس کھیل کی کچھ اہمیت کا اندازہ ہمارے احباب کو ہو گیا ہوگا۔صومالیہ ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں بھوک‘افلاس‘فاقہ کشی اور سماجی بے اعتدالی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی‘فساداورفرقہ وارانہ کشمکش بھی جاری ہے۔الشباب جیسی دہشت گرد تنظیم بھی یہیں موجود ہے۔ایسا ملک بھی خوش اور مطمئن رہنے کے معاملہ میں ہم سے 37پائیدان اوپر ہے۔صومالیہ کا نمبر78بتایا گیا ہے۔اس سے بھی زیادہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ وہ نائیجریابھی ہم سے بہتر ہے جہاں بوکوحرام جیسی خطرناک ترین دہشت گرد تنظیم موجود ہے۔اس تنظیم نے داعش سے بھی پہلے قتل وغارت گری کے وہ ریکارڈقائم کردئے تھے کہ شیطان بھی تڑپ اٹھے۔چھوٹی چھوٹی عمر کی اسکولی بچیوں کے غول کے غول اس نے اغوا کئے اور پھر ان کے عوض سرکاری تاوان حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد ان کی نیلامی شروع کردی۔اس سب کے باوجودنائیجیریا کو افریقہ میں سب سے زیادہ خوش رہنے والے تین سرفہرست ممالک میں پہلا مقام حاصل ہے۔عالمی رینکنگ میں نائیجیریا 103ویں مقام پر ہے یعنی ہندوستان سے 15پائیدان اوپر۔
صومالیہ میں پچھلے 35-36سالوں سے سماجی کشمکش جاری ہے۔افریقہ میں یہ واحد ملک ہے کہ جس کے شمال‘جنوب اور مشرق میں الگ الگ سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کی شورش جاری ہے۔ وہاں 1980سے سیاسی عدم استحکام جاری ہے۔اس کے باوجود اس کا 78ویں نمبر پر آنا حیران کن ہے۔اسی طرح چین میں بھی کوئی خاص سماجی استحکام نہیں ہے۔وہاں کی آبادی پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اس کا ایک مکمل صوبہ سنکیانگ سیاسی اور سماجی شورش کا سامنا کر رہا ہے۔اور جو آزادی یہاں ہندوستان میں میسر ہے وہاں کے عوام کو وہ میسر نہیں ہے۔اس کے باوجودوہ 83ویں مقام پر ہے۔پاکستان کے احوال سے کون باخبر نہیں ہے۔وہاں جو مسلکی اور طبقہ وارانہ کشمکش ہے اس سے تو خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان محفوظ ہی ہے۔مگر پھر بھی وہ 92ویں نمبر پر آیا ہے۔ایران بھی جہاں عوام اورپریس کو بہت زیادہ آزادی حاصل نہیں ہے 105ویں نمبر پر ہے۔بنگلہ دیش میں جو سیاسی اور سماجی احوال ہیں ان سے بھی ہم بے خبر نہیں ہیں۔یہ ملک خوش رہنے والے ممالک میں 110ویں نمبر پر ہے۔حد تو یہ ہے کہ مسلسل اسرائیل جیسے جابر ملک کی زد میں رہنے کے باوجودفلسطینی عوام خوش رہنے کے معاملہ میں108ویں نمبر پر ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں ایسا کیا ہے کہ اس عالمی رپورٹ میں اس کا مقام117سے بڑھ کر 118ویں نمبر پر آگیا ہے اور بجائے اصلاح کے اس صورت حال میں خرابی آتی جارہی ہے۔اس کا تفصیلی جائزہ تو اس کالم میں ممکن نہیں ہے۔اس کے بہت سے پہلو ہیں لیکن یہ جاننا پڑے گا کہ عالمی ادارہ (ایس ڈی ایس این) نے کن کلیدی بنیادوں پر مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ادارہ کے سربراہ مسٹر ساش امریکہ کے شہری ہیں۔امریکہ کو50واں مقام حاصل ہوا ہے۔ ساش اپنے ملک کی نسبتاًاس بہتر حالت پر بھی مطمئن نہیں ہیں۔اب سنئے کہ وہ کیا کہتے ہیں:میرے ملک کے لئے اس رپورٹ میں ایک زبردست پیغام ہے‘وہ یہ کہ امیر سے امیر ترین ہونے کے باوجودامریکی عوام خوشی کے اولین پائیدان پر کیوں نہیں ہیں؟پچھلے پچاس برسوں میں امریکہ مسلسل ترقی کی جانب گامزن رہا ہے۔اس کے باوجودو خوش رہنے والے ممالک میں 50ویں مقام پر کیوں آیا؟‘‘۔معلوم ہوا کہ خوش اور مطمئن رہنے کے لئے معاشی آسودگی کافی نہیں ہے۔اگر اس میں معاش کا کوئی کردار ہوتا تو فلسطین کو تو سب سے نیچے آنا چاہئے تھا۔مگر وہ اس معاملہ میں ہندوستان سے بھی اوپر ہے۔فی کس آمدنی کے معاملہ میں ہندوستان بنگلہ دیش سے تو اوپر ہی ہے۔مگر خوش رہنے کے معاملہ میں بنگلہ دیش ہم سے اوپر ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری حکومت اور خاص طورپر ہمارے وزیر اعظم کو اس رپورٹ کا علم ہوا یا نہیں۔لیکن محض ڈیڑھ سال کی مدت میں دنیا کے شمال‘جنوب اور مشرق ومغرب کے چکر کاٹ ڈالنے والے وزیر اعظم کو اس سے ضرور باخبر ہونا چاہئے۔جس ملک کے عوام نے کاندھے سے کاندھا ملاکر جدوجہد آزادی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا تھا وہاں اگر سیاسی‘سماجی‘معاشی اورانسانی مساوات نہیں ہوگی تو کیا معاشرہ کا ہر طبقہ خوش وخرم رہے گا؟جہاں وی ایچ پی‘بجرنگ دل‘شو سینا‘آر ایس ایس‘ہندو سینا‘رام سینااورا سی جیسی دوسری سینکڑوں شدت پسند اور نفرت پھیلانے والی تنظیموں اور گروپوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگی وہاں معاشرہ کیسے خوش وخرم رہے گا؟بلاشبہ ان تنظیموں اور گروپوں کا نشانہ اس ملک کے 25کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں پورے سماجی ڈھانچے میں جو بے چینی اور جو اضطراب پھیلتا ہے اس سے صرف مسلمان ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ اس کا اثر سماج کے دوسرے کمزور طبقات پر بھی پڑتا ہے۔آج صورت یہ ہے کہ لب کھولتے ہوئے اور قلم پکڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔نہ جانے کس طرف سے ملک کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کا تیر آجائے۔جہاں سیاسی اظہار خیال کو بھی وطن کی مخالفت بتایا جائے اور خاموش رہنے کو بھی وطن سے غداری قرار دیا جائے‘جہاں ایک خاص انداز اور خاص الفاظ میں ہی وطن کی شان میں قصیدے پڑھنے کو وفاداری اور نہ پڑھنے کو غداری قرار دیا جائے اور جہاں اپنا مذہب ومسلک ترک کرنے کو دیش بھکتی اور مذہب پر عمل پیرا ہونے کو دیش دروہ قرار دیا جائے وہاں کون خوش رہ سکتا ہے؟جہاں گھر سے نکلنے کے بعد یہی امید نہ ہو کہ شام تک بخیر وعافیت واپسی ہوجائے گی اور جہاں گھر واپسی اسی کو کہا جائے کہ مسلمان ہندو مذہب اپنا لیں وہاں کون خوش رہ سکتا ہے؟جہاں ایک مخصوص جانور کا گوشت کھانے کے الزام میں ایک بے گناہ انسان کو موت کے گھاٹ اتاردیا جائے اور جہاں بی جے پی کا ایک ایم ایل اے ایک گھوڑے پر اپنا غصہ اتاردے وہاں کون خوش رہ سکتا ہے؟جہاں اسمبلی میں ایک مسلم ایم ایل اے پر نشانہ سادھ کر مسلمانوں کو کتا کہ دیا جائے اور اس میں نہ صرف بی جے پی بلکہ کانگریس اور این سی پی بھی شامل ہوجائے وہاں کون خوش رہ سکتا ہے؟ہم یہ نہیں کہتے کہ معاشرہ کا ہر طبقہ ایسا ہوگیا ہے۔بلکہ یہ اعتراف نہ کرنا نا انصافی ہوگی کہ ملک کے 95فیصد برادارن وطن سیکولر اقدار کے مضبوط ستون بنے کھڑے ہوئے ہیں۔لیکن جب محض پانچ فیصد شدت پسندوں کی طرف سے25کروڑ امن پسند معاشرہ کو کھلے عام پاکستان بھیج دینے‘کاٹ ڈالنے اورنپٹ لینے جیسی دھمکیاں دی جاتی ہیں تو ہمارے وزیر اعظم کچھ نہیں بولتے۔ان کی یہ خاموشی ایک طرف جہاں ہمارے حوصلوں اور امیدوں کو پست کرتی ہے وہیں دوسری طرف ان شدت پسندوں کے حوصلوں کو بڑھاتی ہے۔ایسے میں بھلا کون خوش وخرم رہ سکتا ہے ؟
وزیر اعظم صاحب! ہم آپ کے سیاسی مخالف ہوسکتے ہیں لیکن ہم آپ کے دشمن نہیں ہیں۔ہم آپ کی ہی رعایا ہیں۔ہم اس مذہب کے ماننے والے ہیں جو ہمیں اپنے ملک کے آئین کا احترام کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ہم اس مذہب کے ماننے والے ہیں جویہ کہتا ہے کہ ’’بادشاہ زمین پر اللہ کا سایہ ہوتا ہے۔‘‘یہ کیسا سایہ ہے وزیر اعظم صاحب کہ جس میں ہمیں ٹھنڈک کی بجائے تپش ملتی ہے‘عافیت کی بجائے زحمت ملتی ہے اور سکون کی بجائے بے چینی ملتی ہے؟وزیر اعظم صاحب 157ممالک میں ہم 117سے نیچے اور محض 39سے اوپر ہیں۔اور ان 39میں مڈگاسکر‘تنزانیہ‘لائیبیریا‘ٹوگواور برونڈی جیسے نامانوس ممالک شامل ہیں۔وزیر اعظم صاحب ہماری پوچھئے تو ہم اپنے وطن عزیز کو 118ویں نمبر پر پاکر بہت دکھی ہیں۔اسے ہم اوپر اٹھاکرپہلے نمبر پر لانے کے لئے اپنا خون دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ آپ بھی اسے اوپر لانا چاہتے ہوں۔

اپنا تبصرہ لکھیں