ہشیار خبردار

 

 

ہشیار خبردار
تحریر شازیہ عندلیب
سگریٹ پینا منع ہے،کوڑا پھینکنا منع ہے۔بجلی چوری جرم ہے،رزق حلال عین عبادت ہے۔ یہ سب نصیحت بھری عبارتیں آپ کو  وطن عزیز میںسگریٹ کی ڈبیہ پر دیواروں پر، ٹی وی کی اسکرین پر اور کرنسی نوٹوں پر لکھی نظر آئیں گی۔مگر ان پر عمل کون کرتا ہے ؟ان پہ توجہ کون دیتا ہے؟اگر سگریٹ صحت کے لیے مضر ہے تو کیا لوگوں نے سگریٹ پینے چھوڑ دیے ہیں؟سگریٹ نوشی کی وجہ سے لوگوں کی صحت ختم ہو گئی ، پھیپھڑے ختم ہو گئے زندگیاں ختم ہو گئیں لیکن سگریٹ کا کاروبار تو ختم نہیں ہوا۔کیا فائدہ اس عبارت کا جو ہوا  سوالٹ ہوا؟؟
جس دیوار پہ لکھا ہے یہاں کوڑا پھینکنا منع ہے لوگ وہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگائیں گے۔لوگ دور دور سے اپنے گھر کی غلاظت وہیں ڈھیر کرنے آئیں گے۔جس نکڑ پہ جلی حروف پہ لکھا ہوتا ہے، یہاں پیشاب کرنا منع ہے، وہ دیکھو گدھاپیشاب کر رہا ہے، یہ بیت الخلاء نہیں لوگ وہیں پر یہ ممنوعہ کام کریں گے جیسے یہ عبارتیں کسی خلائی مخلوق کے لیے لکھی گئی ہیں۔اس طرح وہیں غیر رسمی بیت الخلاء کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا۔اس کے علاوہ آجکل ٹی وی پر بہت زور و شور سے بجلی چوروں کو پکڑنے کی مہم چلی ہوئی ہے۔بڑے چوروں کو کوئی نہیں پکڑتا۔سب چھوٹوں پر ہی ہاتھ ڈالتے ہیں۔حالانکہ اس اشتہار کی ادائیگی کرنے والے خود اسی قبیل کے لوگ ہیں۔آجکل بجلی اس قدر ناپید ہو گئی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا حال پوچھنے کے بجائے بجلی کا حال پوچھتے ہیں۔شاعر محبوبہ کے بجائے بجلی پر شاعری کرتے ہیں۔ٹی وی پر جس بجلی کے اشتہار چلتے ہیں وہ ٹی وی بھی خود بجلی سے چلتا ہے،جب بجلی ہی نہ ہو گی تو ٹی وی کیسے چلے گا ، ٹی وی نہیں چلے گا تو اشتہار کیسے چلے گا کون دیکھے گا ْ؟ْبچے اب بلی کے بجائے بجلی کی نظمیں پڑھتے ہیںجیسے ایک نرسری کا بچہ یایک نظم کچھ یوں یاد کر رہا تھا۔
بجلی ہوں میں بجلی ہوں
پانی سے میں بنتی ہوں
کبھی کبھی میں آتی ہوں
آ کے پھر چھپ جاتی ہوں
میں سب کو تڑپاتی ہوں
رزق حلال عین عبادت ہے ہر پاکستانی نوٹ پر درج ہے۔مگرحالات بالکل الٹ،ہر طرف حرام کمائی زور شور سے جاری و ساری ہے۔اس کے علاوہ چور بازاری رشوت ستانی اور ہیرا پھیری روزمرہ کے معمولات میں شامل ہیں۔ایسے حالات میں پاکستانی حکمرانوں یا قوم پر کوئی نصیحت کسی قیمت پر اثر کرنا ناممکن ہے۔جتنی نصیحتیں اور نیک عبارتیں ہیں ہر کام اس کے الٹ ہی ہو رہا  ہے یاگر کوئی موثر طریقہ ہے تو وہ ہے طنز و مزاح کا۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل مزاحیہ ادب  خوب پھول پھل رہا ہے۔ٹی وی چینلز پرطنز و مزاح کے پروگرا م  بیحد  مقبول ہو رہے ہیں۔بض لوگوں کو تو صرف ہنسنے کے ہی پیسے ملتے ہیں۔کچھ کو صرف ہنسانے کے۔گیتوں کی پیروڈیز نہائیت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں۔اس کے مقابلے میں نصیحت آمیز پروگراموں اور ڈراموں کے ناظرین نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔چنانچہ جدید ادبی ریسرچ کے بعد ماہرین و نقادں  تنقید نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ اگر عوام کو یا حکمران کو کوئی بات سمجھانی ہے تو اسے طنزیہ انداز میں سمجھایا جائے۔چنانچہ اسی جدید نظریہ کے تحت سسرال پر حکومت کے گر کے عنوان سے طنز و مزاح پر مبنی مضمون لکھا گیا۔ اکثریت پر اسکا خاطر خواہ اثر ہوا مگر کچھ قارئین نے اعتراض بھی کیا۔ اس آرٹیکل میں ساس اور بہو کا ایسا نقشہ کھینچا گیا تھا کہ اگر ساس پڑھ لے تو وہ آرام کرسی چھوڑ کر کچن کا چولہا سنبھال لے اور اگر بہو پڑھ لے تو اسکی دنیا سنور جائے مگر اس آرٹیکل کو پڑھنے سے نئے نویلے دولہوں کو منع کیا گیا تھا تاکہ ساس بہو آزادی کے ساتھ اپنا کام کر سکیں بغیر بیرونی مداخلت کے ۔لیکن وہ حکومت ہی کیا جس میں بیرونی عالمی طاقتوں کا ہاتھ نہ ہو۔ چنانچہ یہ نادر نسخہ جات کئی  مرد حضرات نے اپنی  دولہنوں تک پہنچنے سے پہلے ہی اچک لیے اور پھر اس پر مختلف اعتراضات اٹھائے گئے۔ ایک صاحب نے پشاور سے نہائیت فکر مندی سے لکھا کہ پلیز آپ ایسی نصیحتیں نہ کریں سچ مچ یہ لڑکیاں بڑی بیوقوف ہوتی ہیں یہ بالکل ایسے ہی کریں گی۔ایک اور صاحب نے ایک عرب ملک سے نہائیت بھنائے ہوئے لحجے میں لکھا کہ اگر میری عورت مرد کو بیوقوف بنائے تو میں اس کو ساری زندگی کے لیے مزہ چکھا دوں۔صاف پتہ چلتا تھا کہ انکا تعلق خاندان چنگیزی کے ظالموں سے رہ چکا ہے۔ انکے خاندان کی خواتین پر بہت رحم آیا۔اس آرٹیکل میں واضع طور پر کہا گیا تھا کہ بہو ساس کو کام کو ہاتھ بھی نہ لگانے دے چنانچہ گمان غالب یہی تھا کہ ساس ضد میں آکر خود کام کرے گی اور چست و چالاک ہو جائے گی۔اس لیے کہ ان گناہگار  آٔنکھوں نے ایک  سندھی ساس کو بہوئوں کی موجودگی میں خود کھانا بناتے دیکھا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ ساس صاحبہ بزور ڈوئی اور چمچہ گھر پر حکمرانی کرتی ہیں۔اور مزے کی بات یہ کہ کھانا بھی مزیدار اور گھر کا ماحول خوشگوار۔اس گھر پر ساس کے چمچہ ڈوئی کی حکمرانی تھی۔ ڈنڈے کی حکومت تو سنی ہوئی تھی مگر چمچے کی حکومت پہلی بار دیکھی اور  ڈوئی کی حکومت کا نسخہ پہلی بار ہاتھ لگا تھا سوچا قیمتی اور نایاب نسخہء حکومت نوبیاہتا دولہنوں کی نظر کردوںمگر یہ نسخہ کچھ دولہوں کی نظر میں آگیا۔مزے کی بات یہ ہے کہ جو آرٹیکل پڑھنے سے مرد حضرات کو منع کیا گیا تھا وہ انہوں نے نہ صرف نہائیت ذوقو شوق اور خضوع  کے ساتھ پڑھا بلکہ اعتراضات بھی اٹھائے اور کچھ نے تو چیلنج بھی کیا۔ پھر جب انہیں یہ معلومات پہنچائی گئی کہ
جس ملک کے مکیں ہم ہیں وہاں تو مرد عورت کے حقوق برابر ہیں اس اطلاع پر کچھ قارئین چراغ پا ہو گئے کہ وہ جو عورت کو کئی اہمیت نہیں دیتے اسے ایک ملک میں برابری کے حقوق کیونکر  حاصل ہیں۔
تجربات و مشاہدات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستانی قوم پر نصیحت کا الٹ اثر ہوتا ہے لہٰذا ان مشاہدات کی روشنی میں قوم سدھارنے کے لیے ایک نیا لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تحت تمام عوامی عبارتیں الٹ کر دی جائیں ۔ اس سے قوم کے ازہان پر خاطر خواہ اثر ہو گابالکل اس عورت کی طرح جس کے ذریعے باتیں پھیلانی  مقصودہوتی ہے کہ فلاں بات کسی کو نہ بتانا یا یہ کہ یہ راز اپنے تک ہی رکھنا۔ بس بات دو روز میں جنگل کی آگ کی طرح  ہر جانب پھیل جاتی ہے۔ پبلسٹی مفت کی ۔ورنہ آجکل پبلسٹی میں بھی  بہت اخراجات اٹھتے ہیں۔نئی عوامی عبارتیں یوں ہوسکتی ہیں۔
سگریٹ نوشی سے انجوائے کر
زندگی چار دن کی ہے
جی بھر کے تھوکیے
اپنا گھر سمجھ کر تھوکیے۔
رشوت سے پیٹ بھر
کسی سے نہ ڈر
خوب مزے کر
جی بھر کے کوڑا پھینکیے
مکھیوں کی یلغار دیکھیے
ایمانداری نہ کر
زمانے سے ڈر
بجلی چوری کر
کسی سے مت ڈر
ہم سب کا ہے بجلی گھر

2 تبصرے ”ہشیار خبردار

  1. main ap ki bat say 100% itafaq kerta hon.aj kal logo per nasihat ka assar ulta hi perta hai…………….or jo naseehat kerta wo khud hi sherminda ho jata hai……………….main aksar kahta hon..k aj k door main kabhi ki si ko naseehat mat karo…aqalmand ko zarorat nahi or baywakoof ko samaj hi nahi ani………………….kai bar kuch logo ko naseehat ki yeah wron ha ya jis say ap friendship kerrahay ho wo sincere nahi hai is ka ulta asser yeah hua k wo log mujay hi bura samaj nay lagtay hain……………..or main hi apni zaat main sherminda ho jata hon…………………………..good article

اپنا تبصرہ لکھیں