ہر دور کو ایک حسینؓ چاہیے !

farhan minhaj 01...محرم الحرام اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اس ماہ کے پہلے عشرے کی ابتداء خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت سے اور اختتام نواسہءِ رسول حضرت امام حسین ؓ کی ؑ عظیم شہادت سے ہوتا ہے ۔ دونوں ہستیاں اسلامی تاریخ میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں ۔ حضرت عمر فاروق کا نظام حکومت اور طرز حکومت رہتی دنیا تک ہر مذہب اور مکتبہ فقر سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
یزید کا طر زحکمرانی شاہانہ حکمرانی کا آغاز تھا ۔ حکومت میں عوامی خواہش کو بالائے طاق رکھ کر ذاتی خواہش اور پسند کے رواج کا آغاز تھا ۔ حکمرانوں کے طرز میں خادمیت کا نہیں حاکمیت کے تصور کی ابتداء دور یزید میں تھی ۔ آقائے دوجہاں ﷺ اور آپ کے بعد آپ کے چار خلفاءؓ نے جو طرز حکمرانی امت کو بتا یا تھا یزید کا دور اس کی نفی کر رہا تھا امام حسینؓ ایک ظالم ،فاسق اور فاجر کی بیعت کیسے کرسکتے تھے ؟ امام حسینؓ کی آنکھوں نے اپنے نانا کا انصاف دیکھا ہو ۔ اپنے بابا کی فقر دیکھا ہو ۔ابوبکرؓ کی صداقت کو دیکھا ہو جس فاروقی عدل کا ڈنکا دیکھا ہو جس نے عثمان ؓ کی سخاوت دیکھی ہو جس نے علیؓ کا تدبر دیکھا ہو ۔ یہ سب دیکھ کر امام حسین راشی، تکبر اورظلم کے نظام کی بیعت کیسے کر سکتے تھے ۔
یزید جب مسند اقتدار میں بیٹھا تب امام اعلی مقام مدینہ منورہ میں تھے یزید کا طرز حکومت اسلامی نظام حکومت کے منافی تھا یزید نے تمام علاقوں پر ایسے گورنر لگائے جو کہ آقا کریم ﷺ کے دیے ہوئے نظام اور اصول کے مطابق حکومت کرنے کے بجائے یزید کی خواہشات کے مطابق حکومت کر رہے تھے ۔ ہر دور میں باطل کو حق سے خطرہ رہتا ہے ایسا ہی خطرہ یزید کو امام حسینؓ سے تھا ۔ اسی وجہ سے یزید نے مدینہ کے گورنر کو سختی سے تاکید کی کہ امام حسینؓ نے بیعت لی جائے ۔ امام حسینؓ نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کردیا اور حج کی نیت سے مکہ مکرمہ کا سفر باندھ لیا اپنے ساتھ اپنے خانواد ے کو لیا اور مکہ مکرمہ کی طرف ہولیے ۔ امام حسینؓ نے جنگی تیاری کے بجائے امر بالمعروف کا رستہ اپنایا اور دعوت اور شعور کو اپنا شعار بنایا ۔ مسلم بن عقیل کو اسی ضمن میں کوفہ بھیجاکہ وہ کوفہ کے لوگوں کے شعور کو بیدار کریں اور اسلامی قدروں کی بحالی کے لیے وہ امام حسینؓ کا ساتھ دیں ۔ مگر جب قوم میں بے حسی راست ہوجائے اور باطل قوتوں سے قوم خوفزدہ ہوجائے تو اہل حق حسینؓ اب علیؓ کی طرح تنے تنہا باطل کو للکارتے ہوئے عظمتوں کے نشان بن جاتے ہیں اور اپنے کردار اور قربانی سے اگلی نسلوں کو جینے کا حوصلہ دے جاتے ہیں۔
امام حسین کو کوفہ والوں نے خطوط بھیجے اور اپنی رہنمائی کے لیے کوفہ آنے کی درخواست کی ۔ امام حسینؓ نے مکہ مکرمہ میں حج کے دوران یزید کے ارادوں کو بھانپ لیا تھا آپؓ مکہ مکرمہ میں کسی قسم کا تنازعہ نہیں چاہتے تھے اسی لیے آپ نے حج کیے بغیر کوفے کی جانب جانے کا ارادہ فرمایا ۔ اس موقع پر آپ سے بہت سے قبیلے والوں نے لشکر لے کر جانے کا کہا مگر آپؓ نے منع فرمادیا ۔ آپؓ امن کے داعی تھے اور امت مسلمہ میں امربالمعروف و نہی ان المنکر کی علامت تھے آپؓ نے دعوت حق کو ہی شعار بنایا کیونکہ جب تک قوم سے بے حسی اور خوف کی فضا ختم نا ہو کوئی بھی جنگ تبدیلی نہیں لاسکتی ۔ امام حسینؓ چاہتے تو مکہ مکرمہ اور مدینہ میں خلافت کا اعلان فرما دیتے اور یزید کے خلاف اعلان جنگ کر دیتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپ کا تعلق جس گھرانے سے تھا وہ گھرانہ سلامتی والا گھرانہ تھا آپ نے دعوت ہی کو مقدم جانا اور باطل کے آگے سر جھکانے کے بجائے اسے اپنے کردارسے للکارا ۔ باطل کو حق کی دعوت اور کردار کے اثر کا خوف ہوتا ہے اسی لیے وہ ہر وقت حق کا رستہ روکنے کے لیے کھڑا رہتا ہے ۔ یزید نے کوفہ میں خوف کا عالم ایسا بنایا کوفیوں نے اپنی حمایت دل میں ہی چھپا کر رکھ لی اور یزید نے قافلہ ءِ حسینؓ کو کربلا کے مقام پر روک لیا پھر تاریخ نے دیکھا ،کہ حسینؓ اور آل حسینؓ نے باطل کو اپنے خون سے رسوا کیا اور تادم دنیا اور عبرت اور لعنت کی علامت بنا دیا ۔ ننھے پھول آنکھوں کے سامنے کٹے مگر استقامت اور صبر کو بھی حسینؓ پر ناز آیا ۔ فرشتوں کو بھی آدم کو سجدہ کرنے پر ناز آیا ۔یزید فاتح بن کر بھی رہتی دنیا تک شکست کی علامت بن گیا ۔اور حسینؓ رہتی دنیا تک فتح و کامرانی کی علامت ٹہرے ۔
آج بھی ہر باطل ، ہر برائی او ر ہر گناہ یزیدیت سے عبارت سمجھی جاتی ہے اور اس کے خلاف آواز کو حسینیت کا صدقہ سمجھا جاتا ہے ۔ جس دور میں عدل ، مساوات اور امن نا پید ہوجائیوہ دو رحسینؓ کا منتظر رہتا ہے ۔
ہر دور کو ایک حسینؓ چاہیے ۔
ظلم کو پھر کوئی انکار چاہیے ۔
جبر کے سامنے کوئی للکار چاہیے
ہر دور کو ایک حسینؓ چاہیے ۔
فرحان منہاج
03003156203

اپنا تبصرہ لکھیں