گذشتہ سے پیوستہ حصہ دوم

باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
گذشتہ سے پیوستہ حصہ دوم

افتخار چوھدریبے جی کا تکیہ کلام او جانے بڑا مشہور تھا
۔کسی بھی قسم کی زیادتی کاواقعہ

ان کے سامنے لایا جاتا تو او جانے کوئی بات نہیں اللہ بہتر کرے گا کہہ کر اگلے کو تسلی دے دیتی تھیں ہمارے ایک دوست چودھری اعظم جدہ میں ہوتے ہیں زہرہ ہوٹل کے مالک ہیں بڑی پیاری چیز ہیں انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک گاؤں میں ایک بڑھیا تھی وہ کسی کو بھی برا نہیں کہتی تھی تین چاردوستوں نے سوچا بڑھیا کسی کو برا نہیں کہتی آج ان سے بات کرتے ہیں۔ایک نے اماں جی سے کہا ماں جی دیکھیں یہ شیطان بڑی بری بلا ہے ہمیں نیکی سے منع کرتا ہے میں صبح سویرے اٹھتا ہوں نماز پڑھنے کے لئے اٹھنا چاہتا ہوں تو مجھے منع کرتا ہے ادھر ادھر کے ڈراوے دکھلاتا ہے کہتا ہے منہ اندھیرے نکلو گے کتا کاٹ لے گا سردی لگ جائے گی دیکھیں نہ کتنا برا ہے یہ شیطان آپ اس کے بارے میں کچھ مذمتی کلمات ادا کریں۔دوسرا بولا ماں جی یہ صیح کہتا ہے میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے ظہر کی نماز پڑھنے نکلوں تو گرمی دھوپ اور سو طرح کے وسوسے ڈالتا ہے عصر اور مغرب پر بھی میرے ساتھ سفاکانہ سلوک کرتا ہے ماں جی بولیں نا اس کی مذمت کریں دوسرے نے کہا۔تیسرے نے تو حد کر دی شیطان کی ہزار ہا بد خوئیاں کیں اور
آ خر میں اماں جی سے شدید مطالبہ کر ڈالا کہ آپ پر لازم ہے اس کے خلاف اظہار رائے کریں۔
تینوں ہمہ تن گوش تھے اور بوڑھی اماں سے شیطان کے بارے میں سننے کے لئے بے تاب ہو گئے۔ تینوں کی طرف ٹھنڈی سانس بھر کر دیکھا اور کہا اللہ اسے ہدایت دے لیکن دیکھو محنتی کتنا ہے صبح سے لے کر رات تک اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔بس اس کو برا مت کہو اس کے لئے دعا کرو اللہ اس مردود کوہدائت بخش دے جس دن یہ دعا قبول ہو گئی دنیا سنور جائے گی۔اور اللہ کے نام لیوا اگر اس سے آدھی محنت بھی کریں تو دنیا سنور جائے گی۔تینوں اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئے۔
بے جی اس دنیا کے تمام شیطانوں کے لئے ہدائت طلب کر تی رہیں۔کبھی کسی کے لئے بد دعا نہیں کی۔
وہ موضع لسن ایبٹ آباد کے چیچی گجروں کے ہاں پیدا ہوئیں ہم انہیں پیارسے تنگ کرتے اور کہتے چیچی پیچی تو چوہانوں کے بارے میں دلچسپ باتیں بتاتیں۔
بے جی کب پیدا ہوئیں ان کی ڈیٹ آف برتھ کیا تھی کچھ معلوم نہیں مگر تقریبا ۵۷ سال عمر پائی اور اس عمر کا سراغ بھی ہم نے اپنے کزن کی تاریخ پیدائش سے لگایا جو بتاتے ہیں کہ چچی جب ہمارے گھر آئیں تو ان کی عمر پندرہ کے قریب تھی اور میں کوئی پانچ سال کا۔
ہزارہ،جہلم چکوال کشمیر اور دوسرے بارانی علاقوں کی مائیں اس لحاظ سے بد قسمت ہوتی ہیں کہ وہ انہیں جنم تو دے دیتی ہیں مگر ان بچوں ک کی جوانیاں پردیس میں گزر جاتی ہیں بعض تو وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں وہیں مر کھپ جاتے ہیں۔ اس لئے کہ فوجی نرسری کے علاقوں میں جان بوجھ کر گوروں نے انڈسٹری نہیں لگائی تا کہ کہیں یہ اپنے ہی گھروں میں روٹی پر نہ لگ جائیں۔میں نے دیکھا ہے ایک بار عرب کے دوسرے بڑے صحراء ربع الخالی میں ۷۷۹۱ میں کام کے سلسلے میں جانے کا موقع ملا۔جس جگہ ارگاس کمپنی کا کیمپ تھا وہاں ہمیں جاناتھا میں کمپنی کے ڈی سی تھری ۸۴۹۱ مارکہ جہاز میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ تلاش رزق کے لئے کہاں کہاں کی ٹھوکریں نصیبوں میں لکھ دی گ
ئی ہیں میرے ساتھ ایک اور پاکستانی تھے فرانسیسی پائیلٹ اور ہم دو نصیبوں مارے وہاں ریتلے رن وے پر اترے ایک بار تو جہاز کے پر نہ کھل سکے دوسری بار خدا خدا کر کے ہمارا تعلق زمین سے جڑا میں اپنے آپ کو صحرا کے اس گوشے میں سلطان قاضی کے بعد
دوسرا شخص سمجھ رہا تھالیکن کیمپ میں پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ یہاں اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔۴۰۰۲ میں ملائیشیا گیا تو وہاں ہمیں جنگ عظیم دوم کے شہداء کی قبور پر لے جایا گیا اس یاد گار میں مدفون میرداد کالا خان شیر خان سب ہی ہمارے اپنے تھے۔واہ او روٹیے۔
میرے بزرگ بھی داخلی ہجرت کرتے ہوئے گجرانوالہ آن پہنچے۔مختلف محلوں میں کرائے دار کی حیثیت سے رہنے کے بعد خدا نے ہمیں محلہ باغبانپورہ میں اپنی چھت دے دی۔میری مدر اپنے کم سن بچوں کے ساتھ وہیں ٹک گئیں۔کہتے ہیں گھر عورتیں بناتی ہیں۔چڑیا کی طرح تنکہ تنکہ کر کے گھونسلہ بنتا ہے۔خاتون خانہ اگر سگھڑ نہ ہو تو عرب کے تیل کے کنویں بھی آپ کے ہوں تو آپ آخر عمر میں مفلس ہی مرتے ہیں۔
ماں جی نے اپنے خاوند کو دیہاتی سے شہری بننے میں بڑی دلیری اور جانفشانی سے سہارا دیا۔والد صاحب نے مختلف مراحل جن میں کامونکی میں چاولوں کی آڑھت بعد میں کچے دروازے میں فیروز خان میٹل ورکس میں شراکت کے بعد چوہان میٹل ورکس کے نام سے ایک چھوٹا سا کارخانہ بنا لیا جس میں ایلومنیم کے برتن بنایا کرتے تھے۔والد صاحب خود بھی کام میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔بے جی نے پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ گاؤں سے آنے والے ر شتے داروں کو بھی سنبھالا دیا۔کس طرح ہماری پرورش کی آج اگر اپنے بچوں سے بات
کریں تو ہیئیں کہہ کر حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں گرمیوں میں ہم گاؤں چلے جایا کرتے تھے وہاں جا کر دوسرے ہی دن سے جنگل سے لکڑیاں وغیرہ اور گھر گرہستی میں مصروف ہو جایا کرتی تھیں۔دلیر اتنی کے سانپ وغیرہ کو آسانی سے مار دیتی تھیں
میں نے زندگی میں بے جی کو کبھی بھی سکون اور ترتیب سے نہ کھانا کھاتے ہوئے دیکھا اور نہ ہی سوتے،تھوڑی سے اونگ سے کام چلا لیتی تھیں اکثر سجدے میں سو جاتی تھیں جب ہم تھپ تھپ کرتے تو جاگ کر نماز مکمل کرتی تھیں۔گھر کا آخری فرد ہوتی تھیں سونے میں اور پہلا فرد اٹھنے میں۔نماز تو نماز تہجد تک نہیں چھوڑتی تھیں۔ایک بار عزیزم عارف جو تنظیم اسلامی کے ذمہ دار ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ بے جی کو پریشان دیکھ کر میں نے پوچھا کیا بات ہے فرمایا میری تہجد چلی گئی۔ بے جی محلے کو وہ ہردل عزیز ماں تھی جنہیں ہر کوئی بے جی کہہ کر پکارتا چھوٹی موٹی چیزیں ایک دوسرے کے گھر بھیجا کرتیں کہتیں اس سے تعلق اور بھائی چارہ بڑھتا ہے۔میں نے دیکھا ہے کی نوجوان مائیں بچوں کے اس طرح لاڈ نہیں لڈاتیں جیسے بزرگ عرتیں کیا کرتی تھیں۔میرے چھوٹے بھائی سرفراز جو آج کل اڈالی دینہ میں ہے وہ گھر میں گھستا تو پوچھتا کی آج کیا پکا ہے۔ایک دن پوچھا کہ بے جی کیا پکا ہے انہوں نیکہا گاجراں۔روز ای روز ڈاگراں۔موصوف غصے کے کافی تیز تھے۔دراصل اس دن بھنڈیاں پکی ہوئی تھیں۔بے جی نے کہا کہ سامنے کے گھر بھنڈیاں پکی ہیں لادوں؟اس نے کہا بلکل بھنڈی اچھی سبزی ہے وہی کھاؤں گا۔وہ اپنے سفید دوپٹے کے نیچے پیالے میں بھنڈیوں کا سالن ڈالتیں اور سامنے کے گھر سے واپس آ کر جناب سرفراز کی شکم سیری کرواتیں۔بلیوں سے برا پیار کرتی تھیں،ان کا جب انتقال ہوا تو ایک بلی ایک ماہ تک منڈیر پر انہیں پکارتی رہی اور پھر کہیں غائب ہو گئی۔ایک بار محلے میں میرے دوست کے بچوں کو گھر لے آئیں ان کے حالات خراب تھے گھر میں دیگر بچوں کے ساتھ ان کی ذرا نہیں بنی تو بچوں کو سمجھایا کرتیں کی بچو!مہمان اللہ کی نعمت ہیں۔پندرہ بیس روز تک انہیں گھر رکھا پھر راضی نامہ کروا کے گھر بھیج دیا۔
ماں جی چرخہ کات کے بڑی بہن کے لئے کھیس بناتی تھیں۔کسی کے گھر چلی جائیں تو ان کے گھر کے کاموں میں مدد کرنا ان کا مشغلہ تھا۔

اپنا تبصرہ لکھیں