کینیڈا کا یوم تشکر Thanksgiving Day

اور امریکہ کا یوم کولمبس Columbus Dayاز —

عابدہ رحمانی

امریکہ اور کینیڈا کا یوں سمجھیئے چولی دامن کا ساتھ ہے -پھر بھی فی زمانہ یہ دو الگ ملک ہیں کینیڈا کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی انفرادیت برقرار رکھے– اسپر امریکہ کو ہر گز کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ سیانوں کے مطابق امریکہ کو کینیڈا سے فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے–انکی چھٹیاں یا لمبے سہ روزہ ویک انڈ بیشتر ساتھ ہی منائے جاتے ہیں -اسکے نام البتہ مختلف ہوتے ہیں –کینیڈا میں یوم وکٹوریہ ہوگا تو امریکہ میں یوم صدر ہوگا– ابھی بارہ  اکتوبر کو کینیڈا میں یوم تشکر تھینکس گیونگ ڈے منایا گیا اور امریکہ میں کولمبس ڈے-

کینیڈا میں یہ دن اکتوبر کے دوسرے سوموارکو منایا جاتا جبکہ امریکہ میں نومبر کے آخری جمعرات پر –لیکن چاروں دانگ جو دھوم دھڑکا امریکی یوم تشکر کا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ اسکے اگلے روز کے سیاہ جمعے ( black Friday) کا ہوتا ہے کہ کافی سارے کینیڈین بھی اسکے دیوانے ہوتے ہیں– اسکے بر عکس کینیڈا کی تھینکس گیونگ خاموشی سے گزر جاتی ہے — نہ ہی وزیر اعظم یا گورنر جنرل کسی ٹرکی کی جان بخشی کرتے ہیں –نہ ہی کدو کا میٹھا( pumpkin pie) بنتی ہے کیونکہ ابھی تو سارے پمپکن ہالوین(Halloween) کے انتظار میں سجے ہوئے ہیں–

امریکی اور کینیڈین تھینکس گیونگ میں ایک ہی روایت کی پیروی کی جاتی ہے اور ایک ہی قسم کی اشیاء خورد و نوش تیار ہوتی ہیں — وہی ٹرکی یا فیل مرغ روسٹ کیا جاتا ہے اسکے ساتھ اسکے لوازمات بنتے ہیں آلو کا بھرتا ، گریوی ، کرین بیری کی میٹھی چٹنی وغیرہ وغیرہ–

اللہ بلا کرے مقامی باشندوں کا جنہوں نے دور دیس سے  آنے والوں کی خاطر تواضع کی انہیں کھلایا پلایا اپنے ہاں بسایا اور اسکے بعد کیا ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے —

کچھ وہی حال ہوا ہوگا —

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ– ہاۓ اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

یہ چھٹیاں جاتی ہوئی گرمیوں کی ، آتے ہوئے موسم خزاں اور سرد موسم کا پیغام دیتی ہیں —

جب اس خزاں کے آغاز میں درختوں کے رنگ بدلتے ہوئے پتے ایک سے ایک  حسیں پھب اور بہار دکھاتے ہیں–جب میپل کا پتہ سبز سے لال ، سرخ اور پھر پیلا ہوجاتا ہے اسطرح دوسرے پودوں اور درختوں کے پتے شوخ رنگوں میں ملبوس ہو جاتے ہیں –کیا دیوانہ کرنے والا منظر ہوتا ہے -سبحان اللہ

خِزاں کے دور میں لُطفِ بہار لیتا ہُوں

ریاستہاۓ متحدہ امریکہ میں  کولمبس ڈے منایا گیا- اسوجہ سے یہ سہ روزہ ویک اینڈ تھا  چونکہ یہ ایک وفاقی  چھٹی ہےاوریہاں کے معاشرے میں سہ روزہ ویک اینڈ کا بڑی شدت سے انتظار ہوتا ہے -یہاں کے کافی ریاستوں میں اسکے ساتھ موسم خزاں کی چھٹیوں کو ملا دیا جاتا ہے-کافی لوگ اس طرح کے ویک اینڈ پر سیر و تفریح کا پروگرام بنا ڈالتے ہیں – اور کچھ نہیں تو سٹوروں میں زبردست سیل لگ جاتے ہیں اور خریداری کا لطف اٹھایا جاتا ہے- کیونکہ آیئندہ thanksgiving اور کرسمس کے تحائف کی بھی خریداری کرنی ہے— یہ ساہوکاری اور کاروباری معاشرہ ہے ہمہ وقت سٹور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کب اور کیسے خریداروں کو نشانہ بنایا جاءے اسی کو ٹارگٹ مارکیٹنگ کہتے ہیں-

امریکہ کرسٹوفر کولمبس کا ممنون احسان ہے کہ اسنے اسے مغالطے میں دریافت کرلیا وگرنہ ابھی تک دنیا امریکہ سے محروم رہتی اور وہ کہیں گوشہ گمنامی میں پڑا رہتا-ذرا سوچئے اگر امریکہ اب تک دریافت نہ ہو چکا ہوتا تو کیا ہوتا شائد دنیا کا کچھ بھلا ہی ہوجاتا- جاپان، چین ،ویٹنام، عراق، افغانستان ،ایران ، پاکستان ، شمالی کوریا اور دیگر بے شمار ممالک چین کی بانسری بجاتے رہتے اور باقی دنیا میں بھی راوی چین ہی چین لکھتا- نہ ہی یہ دنیا ایک گلوبل ولیج بنتی نہ ہمیں ان کمپیوٹروں کی لت پڑتی –  پھریہ ڈھیروں ڈھیر سائینسی ایجادات کا کیا ہوتا؟ بقول حسن نثار کے” ہم تو اپنے پوتڑے بنانے کے قابل بھی نہیں” بہر کیف دنیا اسکے باوجود بھی چل رہی تھی لوگ زندہ تھے کھا پی رہے تھے اور خوب لڑ جھگڑ بھی رہے تھے- البتہ ہاں یہ ایٹمی دوڑ اور یہ ڈرون خدا کی پناہ—- امریکہ نے دنیا کا جانے انجانے میں وہی حشر کیا جو کولمبس نے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں کے مقامی باشندوں کا کیا –جسکی لاٹھی اسکی بھینس!

ہاں  دنیا کا بھلا ہوتا  نہ ہوتا امریکہ کا تو ہو ہی جاتا — ہر وقت امریکہ کو کتنی گالیاں پڑتی ہیں ، جھنڈے جلائے جاتے ہیں  صدر کے پتلے جلائے جاتے ہیں، شرم دلائی جاتی ہے لیکن امریکہ ایسا ڈھیٹ کہ ٹھس سے مس ہی نہیں ہوتا بلکہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے-پاکستان میں ہر جلوس میں نعرے بازی ہوگی” گو امریکہ گو اس سے ایک تو وہ دوبئی چلو والا قصہ لگتا ہے کہ جاؤ چلے جاؤ امریکہ چاہے جیسے بھی ممکن ہو ، دوسرےامریکہ میں یہ نعرہ کھیلنے والی  ٹیموں کو بڑ ھاوا دینے کے لئے کہا جاتا ہے  کہ “ گو گو “آگے بڑھو اور سب کو مات دو- نعرے بازی بھی ایک آرٹ ہے– لیکن پھر وہی امریکہ ہمارے ہر دکھ کا مداوا بھی ہے زلزلے آۓ ، سونامیاں آئیں ، سیلاب آئے ،ہر تباہی میں امریکی امداد پیش پیش ، پھر نہ ہمیں انکی امدادی ٹیمیں بری لگتی ہیں نہ انکے جہاز اور نہ ہی ہیلی کوپٹرجب انجیلینا جولی ہمارے کیمپوں کے دوروں پر ہوتی ہے تو ہمیں سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے- میرے ساتھ یہی تو مشکل ہے کہ موضوع سے بھٹک جاتی ہوں اور کہاں سے کہاں جا پہنچتی ہوں–

اسوقت امریکہ کا یہ حال ہے کہ ویزے کے لئے سب سے لمبی لائینیں اسی کی ایمبیسی میں لگی ہوتی ہیں ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ جائے ، کم از کم ایک مرتبہ تو جائےاور جس کو ویزہ نہیں ملتا وہی سب سے زیادہ برا بھلا کہتا ہے , ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے میرے والد صاحب مرحوم ایک مرتبہ میں نے مشورہ دیا کہ آپ امریکہ گھوم آئیے ، کہنے لگے اللہ تعالی مجھ سے یہ ہرگز نہیں پوچھے گا کہ امریکہ گئے تھے یا نہیں ؟–میں نے انکو قائل کرنے کی کافی کوشش کی کہ دیکھئے گا “فردوس گر بر روئے زمیں است –ہمیں است ہمیں است ہمیں است” لیکن وہ نہیں مانے ،اسی جنت کو تو بچانے کے لئے امریکہ ساری دنیا کو تگنی کا ناچ نچاتا رہتا ہے ہے–

اور یہ سب کولمبس کا قصور ہے نہ وہ امریکہ دریافت کرتا نہ ہی امریکہ کو یہ دن دیکھنے پڑتے-اب کولمبس نکلا تو ہندوستان کی تلاش میں تھا لیکن جا پہنچا امریکہ ، اب نجانے اسوقت امریکہ کا کیا نام تھا؟ وہ اپنے تیئں یہی سمجھا کہ وہ ہندوستان پہنچ گیا ہے کولمبس اطالوی نژاد ہسپانوی جھاز راں تھا اسوقت ہندوستان سونے کی چڑیا کہلایا کرتا تھا- کولمبس کو 1492 عیسوی میں باد شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے مالی امداد کے ساتھ اس مہم پر روانہ کیا، اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ کامیاب لوٹے گا تو اسکو امیرالبحر یا گورنر بنادینگے – فرڈیننڈ اور ازابیلا مسلمانوں کے جانی دشمن جنہوں نے اسپین سے اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانؤں کا مکمل خاتمہ کردیا تھا- جب مسلمان یورپ میں آئے اسوقت یورپ مکمل تاریکی میں تھا – یہ اسلام کا سنہری دور تھا وہ اپنے ساتھ علم و دانش، علوم و فنون لائے – اسپین میں اب بھی انکے سنہرے شاندار ماضی کے آثار نمایا ں ہیں- کولمبس پہلی مرتبہ تین جھازوں کے بیڑے میں جزیرہ بہاماس کے پاس اترا ان سب علاقوں میں قبائیلی اطوار تھے یہاں کے لوگ نسبتا پر امن تھے- کولمبس کو یہاں عیسائیت پھیلانے کے اور اپنی نو آبادیا ں بسانے کی کافی گنجائش نظر ائی اور اسکے بعد اسنے مزید تین سفر کئے اور کافی جہازوں کی معئیت میں ہر قسم کے آبادکاروں کو لایا جنمیں کسان ، تاجر ، کاریگر اور صناع شامل تھےاور یوں اپنی نو آبادیا ں بسا کر یہاں کا وائس رائے بن بیٹھا البتہ اسکے ظلم و ستم کی اتنی داستانیں بادشاہ کو پہنچیں کہ بالاخر بادشاہ نے اسکو پابہ جولاں داخل زنداں کیا جھاں 54 سال کی عمر میں وہ دار فانی سے کوچ کرگیا-

اس سارے قصے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کولمبس کا ذیادہ عمل دخل اور حاکمئیت جزائر غرب الہند اور کیوبا میں رہی  اور وہ مرکزی امریکہ میں جو اب ریاستہائے متحدہ امریکہ کہلاتا ہے میں کبھی داخل ہی نہی ہوا لیکن پھر بھی امریکہ والے اسکو اپنا سمجھتے ہیں اور اسکی اس دریافت پر فخر کرتے ہیں کیونکہ اسکے آنے کے بعد ہی یوروپی آباد کاروں کو امریکہ اپنے خوابوں کی منزل کی صورت میں نظر آیا اور شمالی امریکہ یوروپی سفید فام تارکین وطن کا نیا ملک بن گیا –جبکہ لاطینی امریکہ میں ہسپانوی نو آبادیا ں بنیں-

اسی خراج تحسین کی خوشی  میں نیویارک میں بہت بڑا کولمبس کا مجسمہ ایستادہ ہے اور وہ کولمبس اسکوائیر کہلاتا ہے-البتہ اس مجسمے پر دل جلے ریڈ انڈئینز   نے خوب سنگ باری بھی کی ہے اب کولمبس نہیں تو اسکا مجسمہ ہی سہی – سی این این پر دکھا رہے تھے کہ اب 550 سال کے بعد  ایک کولمبس اپارٹمنٹ بھی بن گیا ہے جس سے مین ہٹن کا بڑا خوبصورت نظارہ دکھائی دیتا ہے-شائد کولمبس کی روح اسمیں آکر قیام کرے–

ریڈ انڈئینز کو ہم لال ہندوستانی کہتے ہیں اسلئے کہ انکے سامنے اسطرح کہنا ایک نسلی گالی کہلاتا ہے جسے یہاں racial slur کہتے ہیں جیسے کسی سیاہ فام کو نیگرو یا نیگر کہنا اسکی توہین ہے اور وہ قا نونی چارہ جوئی کر سکتا ہے- کیا کہنے امریکہ کے قوانین اور قانونی چارہ جوئی کے ؟ لال ہندوستانی نام بھی کولمبس نے دیا ورنہ تو انکے بڑے بڑے قبائیل تھے جنکے کافی اچھے اچھے نام ہیں – چروکی ، اپاچی،نواؤ navajo  اب اپاچی،  ہیلی کاپٹر ہوگیا چروکی مشہور جیپ اور اسی طرح کے بیشمار نام – امریکن انکو عزت سے اب  نیٹؤ مقامی باشندے  بلاتے ہیں جبکہ کینیڈئین فرسٹ نیشن چلئے اسطرح ہی سہی کچھ عزت تو دی گئی ورنہ تو غالب, حملہ آور یوروپیئن اقوام نے مار مار کر ایک چوتھائی بھی رہنے نہ دیا–اور اب جو انکا حال ہے کہ عموما ایک نمائیشی حیثیئت ہے خوب نشے میں دھت رہتے ہیں جگر کے امراض کثرت شراب نوشی سے عام ہیں ، فربہی کی بیماری بہت عام ہے جسکی وجہ سے انمیں ذیابیطس بھی کافی پایا جاتا ہے -مختلف مواقع پر اپنے پروں والے لباس پہن کر ڈانس کرینگے –  انکی زمینوں پر جوۓ کی اجازت ہے اس بناء پر بڑے بڑے کسینو بناۓ گئے ہیں –سرخ ہندوستانیوں کا ذکر پھر کبھی تفصیل سے کرونگی –

اسوقت مجھے Macy’s جاناہے جہاں کولمبس ڈے کی زبردست سیل لگی ہوئی ہے—–

‘Abdul Mateen Muniri’ ammuniri@gmail.com [guzergah-e-khayal] guzergah-e-khayal@yahoogroups.com via returns.groups.yahoo.com

22.09 (for 15 timer siden)
til guzergah-e-kha.

محترمہ عابدہ رحمانی صاحبہ کینیڈا اور امریکہ کے قومی دنوں پر آپ کی تحریر بہت خوب اور معلوماتی ہے ۔

کینیڈااور امریکہ کی تلاش ہو، یا جزائر فلیپین اور انڈیا کی تلاش ، ان سب کی جڑیں اندلس میں مسلمانوں کے زوال سے ملتی ہیں ۔ اندلس سے مسلمانوں کے اخراج کے بعد جب پاپائے روم کی سرپرستی میں اندلس کو اسپین اور پرتگال کی حکومتوں میں تقسیم کیا گیا ، اور پرتگال کو  مسلم بندرگاہوں پر تسلط کی ذمہ داری سوپنی گئی تب اتفاق سے کولمبس امریکہ پہنچ گیا جہاں اندلس کے خانماں برباد یہودیوں اور چندمسلمانوں نے پہلے سے پناہ لے رکھی تھی ۔ ہندوستان کے مغربی ساحلوں اور فلیپین میں جو ظلم روا رکھا گیا اور کس طرح سوفیصد مسلم آبادی والے گوا اور فلیپن سے مسلمانوں کا مکمل انخلاء ہوا اس سے اردو لیٹریچر خالی ہے ۔ اس وقت اپنے ایک نامکمل مضمون کا ایک اقتباس  پیش خدمت ہے ۔ یہ معلومات ہم نے فاتح گوا افونسو ڈلبوقرق کے ریکارڈ سے لی ہے جس کا انگریزی اور عربی ایڈیشن ہمارے پاس محفوظ ہے ۔

” ڈلبوقرق نے اندلس کے متعصب صلیبیوں کی کوکھ سے  جنم لیا تھا۔  اس نے شاہ ایران اسماعیل صفوی  سے ہرمز پر تسلط  کے بدلے  مکہ مکرمہ پر حملہ اور کعبہ شریف  کو ڈھانے کیلئے کمک طلب کی تھی۔ ۱۵۱۳ ؁  ء  میں اس کا  ارداہ تھا  کہ حبشہ سے گھوڑے حاصل کرکے  پرتگالی  بحری بیڑے  کے چار سو  سواروں کو  ینبع کے راستے   مدینہ منورہ  بھیجے تاکہ مسجد نبوی  میں محفوظ اسلامی خزانوں کو لوٹیں اور قبر اطہر ﷺ سے جسد مبارک   نکال کر حجاز سے باہر لیں جائیں  ۔  پھر اس کے بعد  شاہ پرتگال  بیت المقدس میں واقع  کنیسۃ القیامۃ  اس کے قبضہ میں دینے کیلئے  مسلمانوں سے بھاؤ تاؤ کریں ۔ اس نے گوا کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت میں اسپین کے محاکم تفتیش کی یاد تازہ کردی۔  پرتگال کے سرکاری ریکارڈ سے لی گئی چند مثالیں پیش ہیں۔                 “پرتگالیوں میں سے جو لوگ  اسلام لاکر مسلمانوں سے مل گئے تھے۔ اس نے ان کا دایاں ہاتھ اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں کاٹیں، ان کے ڈاڑھی اور سر کے بال نچوائے،  اور جسم میں خالی جگہوں پر مٹی بھردی  ۔ڈلبوقرق نے تہیہ کرلیاتھا کہ گوا کی سرزمین پر کوئی مسلمان باقی نہیں چھوڑے گا ۔اس نے وہاں کے تمام مسلمانوں کوشہید کردیا۔ اس  کے حکم  سے گوا کے  مسلمانوں کو ایک مسجد میں  جمع کرکے جلادیا گیا  مسلمانوں کی قبریں  اور مقبرے کھود کر ان کے  پتھر قلعہ کی تعمیر میں لگوائے گئے  ۔

اس نے شاہ مانویل کو گوا کی فتح کے بعد جو خط لکھا تھا  تاریخ کی کتابوں میں اس کی عبارت یوں درج ہے :

” اس کے بعد میں نے شہر کو آگ لگادی ، ہر گردن پر میں نے تلوار رکھی ، کئی روز تک لوگوں کا خون بہتا رہا۔  جہاں بھی ہم نے  مسلمانوں کو پایا  ان کی کوئی عزت و  توقیر نہیں کی۔ ہم مسجدیں  ان سے بھر کر انکو  آگ لگادیتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم نے چھ ہزار مرنے والوں کے جسم دیکھے۔ میرے آقا یہ بہت عظیم اور شاندار کارنامہ تھا جس کا آغاز بہت خوب تھا  اختتام بھی بہتر ہی ہوگا  “۔

Abdul Mateen Muniri

www.bhatkallys.com

www.urduaudio.com. www.bhatkaltv.com

ammuniri@gmail.com

whatsapp : 00919008175269

From: guzergah-e-khayal@yahoogroups.com [mailto:guzergah-e-khayal@yahoogroups.com]
Sent: Sunday, October 11, 2015 10:20 AM
To: guzergah-e-khayal@yahoogroups.com
Subject: [Guzergah-e-Khayal] : کینیڈا کا یوم تشکر Thanksgiving Day اور امریکہ کا یوم کولمبسColumbus Day

__._,_.___

Posted by: “Abdul Mateen Muniri” <ammuniri@gmail.com>

Reply via web post Reply to sender Reply to group Start a New Topic Messages in this topic (2)

VISIT YOUR GROUP

PrivacyUnsubscribeTerms of Use

.

__,_._,___

Klikk her for å svare eller videresende

14 GB ( 82 %) av 17 GB er brukt

Administrer

VilkårPersonvern

Siste aktivitet på kontoen: for 1 time siden

Detaljer

Personer (3)
guzargah e khayal yahoo
Friends

Vis detaljer

اپنا تبصرہ لکھیں