پسند کی شادی

شازیہ عندلیب
چھوٹے ماموں اور ممانی لندن سے آئے ہوئے تھے بڑی پھپھو کے گھر خوب رونق تھی سارا خاندان ماموں سے ملنے پھپھو کے گھر جمع تھا۔چھوٹے ماموں جب بھی پاکستان آتے خوب محفل جمتی وہ جتنے دن پاکستان رہتے خاندان میں عید کا سماں ہوتا۔وہ تھے ہی خاندان بھر کے لاڈلے اور پسندیدہ انکل۔ انکی شادی بھی پسند کی تھی اس لیے بھی وہ خوش خوش رہتے تھے۔ممانی انکی بچپن کی پسند تھیں اس بات کا اظہار وہ بارہا کر چکے تھے۔موسم بہار کی آمد آمد تھی مارچ کا مہینہ تھا۔اسکولوں میں بچوں کو بہار کی چھٹیاں تھیں۔ہر طرف ایک بے فکری اور گہماء گہمی تھی۔ماموں بچوں کی پسندیدہ چاکلیٹس لائے تھے جو سب بڑے شوق سے لے رہے تھے۔صحن کے عین وسط میں پھپھو کا بڑا بیٹا کوئلوں کی انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر مرغ تکے اور سیخ کباب گرل کر رہا تھا۔پورے صحن میں تکے کباب کی اشتہاء انگیز خوشبو اور دھواں تو یوں پھیلا ہوا تھا جیسے بس ابھی میوزیکل کانسرٹ ہونے والا ہے۔ہر طرف قہقہے، بکھرے ہوئے تھے سب ایک دوسرے سے ہنسی مزاق کر رہے تھے۔چھوٹے ماموں سب کے ساتھ مل کر کوئی نہ کوئی چٹکلاء چھوڑ دیتے اور صحن میں قہقہے گونجنے لگتے۔
چھوٹے ماموں ورانڈے میں پڑے صوفے پہ اپنے بھانجوں بھتیجوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے اور ممانی صحن میں بچھی کرسی پر خواتین کی ٹولی کے ساتھ بیٹھی تھی جبکہ ان کے سامنے خاندان کا سب سے بڑا جگت باز اور حاضر جواب بھانجا بہرام اپنی ٹولی کے ساتھ ممانی کے ساتھ جگت بازی کا مقابلہ کر نے کو کوشش کر رہا تھا۔ وہ کافی دیر تک اسکی باتیں سنتی رہی جو کبھی اسکی کسی بات کا مزاق بناتا اور کبھی کسی بات کا جسے سب مل کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔چھوٹی ممانی ابھی تک اسکی کسی بات کا جواب نہیں دے پا رہی تھی۔جبکہ بہرام کی کوشش تھی کہ ممانی کوئی بات منہ سے نکالے اور وہ اسکا مزاقْ بنائے مگر وہ اسے موقع ہی نہیں دے رہی تھیں۔اسے بچپن سے ہی خاندان کی ممانیوں پھپھیوں اور خالاؤں کو تنگ کرنے اور چھیڑنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ سب اسکی باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور وہ سب کا فیورٹ بھی تھا۔ بہت ایڈونچر پسنداور بذلہ سنج۔ ہر سال دنیا کے مختلف ملکوں کی سیر کر کے آتا اور مزے لے لے کے وہ وہاں ے قصے کہانیاں سناتا۔جہاں جاتا وہاں محفل سجا لیتا۔جب ممانی اسکی جگتیں سن سن کر ٹس سے مس نہ ہوئی اس نے ایک زبردست ہربہ آزمایا کہ اب تو ممانی ضرور بولے گی بلکہ تپ کے بولے گی۔اس نے اسے تپانے کے لیے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہ مامی جی آپ بھی بڑی گپ باز ہیں اتنا جھوٹ لکھتی ہیں اپنے سفر ناموں میں تو بہ توبہ۔۔۔۔
ممانی یہ سن کر تڑپ گئی فوراً بولی اے اے کیا کہا۔۔جھوٹ لکھا میں نے۔۔بالکل غلط۔۔۔۔کیا جھوٹ لکھا میں نے بتاؤ۔۔۔
ساتھ ہی ممانی نے ہاتھ ہلا کر کہا
کہتی ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔۔۔یہ سن کر سب چونک گئے۔۔
چلو جی معرکہ شروع سب ہم تن گوش ہو گئے۔۔۔ہاں بتاؤ کیا جھوٹ لکھا ہے میں نے ممانی نے بہرام کو چیلنج کیا۔۔۔۔۔
بہرام بھی اب کوئی چھوٹا بچہ نہیں تھا ایک پڑھا لکھا بزنس مین تھا جس نے کئی گھاٹوں کا پانی پیا تھا اور کئی ملکوں کی سیر کر رکھی تھی وہ کہاں نچلا بیٹھنے والا تھا۔اس نے جو کہا اسے تو ثابت کرنا تھا۔بہرام نے کبھی ہار نہیں مانی تھی وہ جو کہتا تھا ثابت کر کے چھوڑتا تھا۔یہ ماموں اور ممانی کیا تھیاس کے آگے۔۔۔ ویسے بھی اس کے ماموں اس سے چند برس ہی بڑے تھے۔اسلیے وہ بزرگ کم اور دوست زیادہ تھے۔ماموں بھی بہت خوش مزاج تھے اور ممانی بھی انہی کی ہم مزاج تھیں۔
بہرام نے جھٹ کہا آپ نے سوات کے سفر نامہ میں لکھا تھا کہ میرے خاندان کے خوبصورت لوگ۔۔۔۔کتنا بڑا جھوٹ لکھا تھا آپ نے توبہ توبہ۔۔۔
ہوں ممانی نے اپنے اطراف کا طائرانہ جائزہ لیا۔۔۔اس وقت وہاں خاندان کے ہر رنگ و نسل کے افراد موجود تھے۔لڑکیاں اور خواتین تو خوبصورتی کے معاملے میں بیوٹی پارلرز اور بیوٹی ٹپس کی وجہ سے خاصی خود کفیل تھیں۔ان کے ہاں خوبصورتی کی کمی نہ تھی۔وہ موقع کی مناسبت سے سج کر اپنی خوبصورتی میں اضافہ کر لیتیں تھیں لیکن مرد حضرات کا معاملہ کچھ پیچیدہ تھا۔بس لے دے کے کوئی اچھا سا آفٹر شیو یا پھر بہت ہوا تو بالوں میں جیل وغیرہ لگا لی۔کیونکہ انہیں اس قسم کی سہولتیں اور ٹپس میسر نہیں تھیں۔لہٰذا وہ جس رنگ کے پیدا ہوئے تھے بڑے ہونے تک اسی رنگ کا نظر آنا ان بیچاروں کی مجبوری تھی جبکہ لڑکیوں کا معاملہ اسکے برعکس تھا۔
خیر چھوٹی ممانی نے کہا میں نے بالکل جھوٹ نہیں لکھا بھئی میرے خاندان کے لوگ تو واقعی خوبصورت ہیں سوائے ایک کو چھوڑ کے۔۔۔۔یہ کہ کر وہ ایک منٹ کے لیے رکی اور سب پر ایک نظر اور ڈالی۔۔۔۔ابھی جملہ پورا نہ ہوا تھا کہ سارے صحن میں واہ واہ کا شور مچ گیا۔ساتھ ہی کئی سیانوں کو فکر بھی لگ گئی دل ہی دل میں کہ یہ آخر وہ ایک ہے کون؟؟؟ واہ مامی کیا آپ نے تو تاک کے نشانہ لگایا ہے مزہ ہی آ گیا۔۔۔اب سب کو فکر لگ گئی کہ آخر وہ ایک کون ہے جو خوبصورت نہیں ممانی کا اشارہ آخر کس کی جانب تھا۔۔۔۔پھر کچھ توقف کے بعد سب کو پریشان کر نے کے بعد ممانی نے اپنا جملہ پورا کیا تو سب داد دئے بغیر نہ رہ سکے
ممانی نے کہا اور جو سب سے سوہنا تھا خاندان میں اس کو لے گئی میں ولائیت۔۔۔۔اپنے فیورٹ ماموں اور چچا کے لیے نرمین کے یہ ریمارکس سن کر سب بہت خوش ہوئے۔۔۔۔۔۔۔
بہرام دل ہی دل میں نرمین کو اگلی مرتبہ ہرانے کا عہد کر چکا تھا مگر اب تو وہ لا جواب ہو چکا تھا۔ اسی دوران گرما گرم تکے اور سیخ کباب تیار ہو گئے جو سب نے پودینے کی چٹنی کے ساتھ خوب مزے لے لے کر کھائے۔رات مزید گہری ہو گئی تھی اور نیند سب کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی، پھپھو بھی اب ایکشن میں آ چکی تھیں وہ بھی خواتین کی ٹولی کے ساتھ مل کر گپیں لگانے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے

اپنا تبصرہ لکھیں