“نہیں، قرآن نہ سنو”

Abda Digital Hasnat London: ایک تحریر??
میری ایک جاننے والی غیرمسلم خاتون کو اسلام سے کافی دلچسپی ہے۔ وہ ایک بیوٹی تھیراپسٹ ہے۔ اور مساج وغیرہ بھی کرتی ہے۔ وہ اسی سلسلہ میں جب میرے گھر آئی تو ٹریٹمنٹ کے دوران میں نے قرآن کی تلاوت آن کردی جو اسے بہت اچھی لگی۔
اس بات کو کافی عرصہ گزر گیا اور ایک روز میری اس سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو بتانے لگی کہ میں نے اپنے بیوٹی کلینک میں قرآن کی تلاوت لگانا شروع کردی تھی جو مجھے اچھی لگی تھی۔ کسی نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا یعنی کسی غیرمسلم نے لیکن جتنی بھی پاکستانی خواتین اسکے کلینک گئیں انہوں نے اسے منع کیا کہ چونکہ قرآن کی تلاوت سنتے ہوئے توجہ دینا ہوتی ہے تو تم یہ نہیں لگاؤ۔ اسکا کہنا ہے کہ جب بار بار ایک ہی بات مختلف مسلمان لوگوں نے دہرائی تو اس نے قرآن لگانا بند کردیا اور معمول کی طرح وہاں اب میوزک چلتا ہے۔
اسی طرح میں ایسے جوان لڑکے اور لڑکیوں کو جانتی ہوں جنہوں نے اذان یا تلاوت کو اپنے موبائل میں رنگ ٹون کے طور پر رکھ لیا تو ان کو پاکستانی یا عرب لوگوں کی طرف سے بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور فتووں کے ٹیکسٹ آنے لگےتو وہ ہٹ گئے اور واپس میوزک پر آگئے یعنی وہ جو ایک لمحہ نیکی میں گزر سکتا تھا وہ اس سے محروم کردیے گئے قرآن کے “احترام “میں۔
“جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی کا حکم ضرور ہے لیکن ایسی توجہ مطلوب نہیں جو ممکن ہی نہیں۔ آپ جب تروایح میں قرآن سنتے ہیں تو کیا ہم میں سے کوئی یہ دعوی کرسکتا ہے کہ اسکی توجہ کبھی نہیں بھٹکتی اور پورا گھنٹہ فوکس رہ پاتا ہے؟ اگر نیکی کے لیے فوکس یا خشوع شرط رکھ دیا جاتا تو پھر تو ہماری نماز بھی رہ جاتی کہ چونکہ میں پوری توجہ نہیں رکھ پاتی تو مجھے نماز چھوڑ دینی چاہیے؟؟؟ یعنی اگر ہم نیکی کی یہ شرط رکھ دیں تو نیکی کرنا مشکل ہوجائے گا جبکہ دین کی تعلیمات تو یہ سکھانی ہیں کہ نیکی کا ایک لمحہ بھی بھاری ہے اور اللہ کے ہاں اس پراجر ہے۔ اللہ نے perfection نہیں مانگی بلکہ کوشش کرنے کو کہا ہے اور یہ ہماری ٹوٹی پھوٹی کوششیں ہی مطلوب ہیں ورنہ “حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا”
اگر کسی کا دل ایک لمحہ کے کیے قرآن سے جڑتا یا متاثر ہوتا ہے یعنی پورا گھنٹہ میں محض وہ سیکنڈ جس میں دل پرکوئی کیفیت طاری ہوئی تو وہ ان تمام لمحوں پر بھاری ہے جو نیکی سے خالی تھے۔ تاریخ نے بار بار ثابت کیا کہ دل بدلنے یا ہدایت کے لیے بعض اوقات ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے تو ایسے میں کسی کو اس لمحے سے محروم کردینا کونسی نیکی ہے؟ پیارے نبی نے تو ساری زندگی لوگوں کو قرآن سے اور اللہ سے جوڑنے میں گزاری اور ہم لوگوں کو ان مواقع سے محروم کیوں کرہے ہیں جس سے شاید انکی زندگی بدل جاتی؟؟؟
اسی طرح کسی کو یہ کہنا کہ چونکہ تم نیکی کا حق ادا نہیں کرسکتے تو نیکی نہ کرو یعنی حج پر نہ جاو اگر نماز نہیں ادا کرتے اور اگر حجاب یا نقاب پر استقامت نہیں دکھا سکتے تو محروم ہی رہو۔ کیونکہ جب تک تم ایک نیکی میں اچھے نہیں ہوجاتے اگلی نیکی نہ کرو” یہ کونسی شرطیں ہیں جو ہم نے بنا ڈالیں؟
ہونا تو چاہیے تھا کہ ہم اس ٹکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے اور قرآن اب ہر بس یا ویگن میں ،آفس میں، جم میں، اسکولوں میں اور کچن میں لگتا لیکن چونکہ ہم نے نیکی کی ایسی شرائط رکھ دیں تو اتنا اہم موقع ضائع ہوگیا۔
ابھی بھی دیر نہیں ہوئی کہ نیکی نہ کرسکیں ابھی بھی اگر آپ یہ میسج پڑھ رہے ہیں تو مطلب کہ سانس باقی ہے۔ گھر میں کام کاج کرتے ہوئے تلاوت لگا لیں اور اگر آپ ہفتہ میں ایک دن حجاب لے سکتی ہیں تو آج ہی ابتدا کردیں۔ اگر صرف ایک ہی دن نقاب کرسکتی ہیں تو کرلیں اگر ایک ہی دن تئجد پڑھ سکتی ہیں تو کرلیں۔ اللہ کی فرمانبرداری میں گزرا ایک لمحہ پوری زندگی پر بھاری ہے اس سے خود کو یا دوسروں کو محروم نہ کریں۔ اگر کوئی روکنا چاہے یا فتوی دینا چاہے تو بحث مت کریں بس یہ یاد رکھیں کہ وسوسے ڈالنے والے یا نیکی سے روکنے والے شیاطین
“من الجنہ والناس” انسانوں میں سے بھی ہوسکتے ہیں تو ایسے میں نیکی سے نہ رکیں۔ خواہ وہ کسی بھی درجہ کی ہو۔ ایک روپے کا صدقہ بعض اوقات کروڑ پر بھاری ہوجاتا ہے محض اچھی نیت کی وجہ سے۔ رب تعداد نہیں نیت کو دیکھتا ہے۔
“یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے،
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات”
عابدہ بانو

میری ایک جاننے والی غیرمسلم خاتون کو اسلام سے کافی دلچسپی ہے۔ وہ ایک بیوٹی تھیراپسٹ ہے۔ اور مساج وغیرہ بھی کرتی ہے۔ وہ اسی سلسلہ میں جب میرے گھر آئی تو ٹریٹمنٹ کے دوران میں نے قرآن کی تلاوت آن کردی جو اسے بہت اچھی لگی۔
اس بات کو کافی عرصہ گزر گیا اور ایک روز میری اس سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو بتانے لگی کہ میں نے اپنے بیوٹی کلینک میں قرآن کی تلاوت لگانا شروع کردی تھی جو مجھے اچھی لگی تھی۔ کسی نے اس بات پر اعتراض نہیں کیا یعنی کسی غیرمسلم نے لیکن جتنی بھی پاکستانی خواتین اسکے کلینک گئیں انہوں نے اسے منع کیا کہ چونکہ قرآن کی تلاوت سنتے ہوئے توجہ دینا ہوتی ہے تو تم یہ نہیں لگاؤ۔ اسکا کہنا ہے کہ جب بار بار ایک ہی بات مختلف مسلمان لوگوں نے دہرائی تو اس نے قرآن لگانا بند کردیا اور معمول کی طرح وہاں اب میوزک چلتا ہے۔
اسی طرح میں ایسے جوان لڑکے اور لڑکیوں کو جانتی ہوں جنہوں نے اذان یا تلاوت کو اپنے موبائل میں رنگ ٹون کے طور پر رکھ لیا تو ان کو پاکستانی یا عرب لوگوں کی طرف سے بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور فتووں کے ٹیکسٹ آنے لگےتو وہ ہٹ گئے اور واپس میوزک پر آگئے یعنی وہ جو ایک لمحہ نیکی میں گزر سکتا تھا وہ اس سے محروم کردیے گئے قرآن کے “احترام “میں۔
“جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی کا حکم ضرور ہے لیکن ایسی توجہ مطلوب نہیں جو ممکن ہی نہیں۔ آپ جب تروایح میں قرآن سنتے ہیں تو کیا ہم میں سے کوئی یہ دعوی کرسکتا ہے کہ اسکی توجہ کبھی نہیں بھٹکتی اور پورا گھنٹہ فوکس رہ پاتا ہے؟ اگر نیکی کے لیے فوکس یا خشوع شرط رکھ دیا جاتا تو پھر تو ہماری نماز بھی رہ جاتی کہ چونکہ میں پوری توجہ نہیں رکھ پاتی تو مجھے نماز چھوڑ دینی چاہیے؟؟؟ یعنی اگر ہم نیکی کی یہ شرط رکھ دیں تو نیکی کرنا مشکل ہوجائے گا جبکہ دین کی تعلیمات تو یہ سکھانی ہیں کہ نیکی کا ایک لمحہ بھی بھاری ہے اور اللہ کے ہاں اس پراجر ہے۔ اللہ نے perfection نہیں مانگی بلکہ کوشش کرنے کو کہا ہے اور یہ ہماری ٹوٹی پھوٹی کوششیں ہی مطلوب ہیں ورنہ “حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا”
اگر کسی کا دل ایک لمحہ کے کیے قرآن سے جڑتا یا متاثر ہوتا ہے یعنی پورا گھنٹہ میں محض وہ سیکنڈ جس میں دل پرکوئی کیفیت طاری ہوئی تو وہ ان تمام لمحوں پر بھاری ہے جو نیکی سے خالی تھے۔ تاریخ نے بار بار ثابت کیا کہ دل بدلنے یا ہدایت کے لیے بعض اوقات ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے تو ایسے میں کسی کو اس لمحے سے محروم کردینا کونسی نیکی ہے؟ پیارے نبی نے تو ساری زندگی لوگوں کو قرآن سے اور اللہ سے جوڑنے میں گزاری اور ہم لوگوں کو ان مواقع سے محروم کیوں کرہے ہیں جس سے شاید انکی زندگی بدل جاتی؟؟؟
اسی طرح کسی کو یہ کہنا کہ چونکہ تم نیکی کا حق ادا نہیں کرسکتے تو نیکی نہ کرو یعنی حج پر نہ جاو اگر نماز نہیں ادا کرتے اور اگر حجاب یا نقاب پر استقامت نہیں دکھا سکتے تو محروم ہی رہو۔ کیونکہ جب تک تم ایک نیکی میں اچھے نہیں ہوجاتے اگلی نیکی نہ کرو” یہ کونسی شرطیں ہیں جو ہم نے بنا ڈالیں؟
ہونا تو چاہیے تھا کہ ہم اس ٹکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے اور قرآن اب ہر بس یا ویگن میں ،آفس میں، جم میں، اسکولوں میں اور کچن میں لگتا لیکن چونکہ ہم نے نیکی کی ایسی شرائط رکھ دیں تو اتنا اہم موقع ضائع ہوگیا۔
ابھی بھی دیر نہیں ہوئی کہ نیکی نہ کرسکیں ابھی بھی اگر آپ یہ میسج پڑھ رہے ہیں تو مطلب کہ سانس باقی ہے۔ گھر میں کام کاج کرتے ہوئے تلاوت لگا لیں اور اگر آپ ہفتہ میں ایک دن حجاب لے سکتی ہیں تو آج ہی ابتدا کردیں۔ اگر صرف ایک ہی دن نقاب کرسکتی ہیں تو کرلیں اگر ایک ہی دن تئجد پڑھ سکتی ہیں تو کرلیں۔ اللہ کی فرمانبرداری میں گزرا ایک لمحہ پوری زندگی پر بھاری ہے اس سے خود کو یا دوسروں کو محروم نہ کریں۔ اگر کوئی روکنا چاہے یا فتوی دینا چاہے تو بحث مت کریں بس یہ یاد رکھیں کہ وسوسے ڈالنے والے یا نیکی سے روکنے والے شیاطین
“من الجنہ والناس” انسانوں میں سے بھی ہوسکتے ہیں تو ایسے میں نیکی سے نہ رکیں۔ خواہ وہ کسی بھی درجہ کی ہو۔ ایک روپے کا صدقہ بعض اوقات کروڑ پر بھاری ہوجاتا ہے محض اچھی نیت کی وجہ سے۔ رب تعداد نہیں نیت کو دیکھتا ہے۔
“یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے،
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات”
عابدہ بانو

اپنا تبصرہ لکھیں