ناروے۔ناروے میں سیاسی پناہ گزینوں کے لیے سخت قوانین منظور

Khari khari baat final..1اوسلو(عقیل قادر)ناروے کی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کر کے سیاسی پناہ سے متعلق ملکی ضوابط کو سخت ترین بنا دیا ہے۔نئے قوانین کے تحت حکام کے لیے نہایت آسان ہو گیا ہے کہ وہ کسی شخص کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر کے اسے ملک بدر کر دیں۔اس قانون میں یہ بھی درج ہے کہ جنگ زدہ ممالک سے آنے والے اگر کسی شخص نے ناروے پہنچنے سے قبل کسی ایسے ملک میں کچھ عرصہ سکونت اختیار کی ہو جو محفوظ تھا تو اسکی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر دی جائے گی۔اس شق کو شامل کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ روس کی سرحد سے جو لوگ ناروے میں داخل ہو رہے ہیں انکو روکا جا سکے ، روسی سرحد سے گذشتہ چندہفتوں میں ہزاروں کی تعداد میں افغانی باشندے ناروے میں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس قانون میں درج مختلف شقوں کے مطابق غیر ملکی شہریت کے حامل افراد کو ایسی صورت میں حراست میں بھی لیا جا سکتا ہے جب یہ گمان ہو کہ ان کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو جائے گی۔سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے افراد کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے مختص کردہ جگہ یا علاقے سے باہر جاتے ہوئے حکام کو مطلع کریں۔اس قانون کی ان پارٹیوں نے بھی حمایت کی ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کی حامی ہیں، پارٹی سربراہاں کا کہنا تھا کہ موجوہ حالات ایسا تقاضا کر رہے ہیں کہ ایسی قانون سازی کی جائے تاکہ ناروے سیاسی پناہ گزینوں اور مہاجرین کے لیے پرکشش ملک نہ رہے۔واضح رہے کہ ناروے کی موجودہ مخلوط حکومت کو تارکین وطن کے بحران کے تناظر میں سخت تنقید کا سامنا ہے اور خصوصاََ تارکین وطن مخالف پارٹیوں کی عوامی حمایت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یادرہے کہ موجودہ حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ایف آر پی حکومت کا حصہ ہے اور اسکی پالیساں ہمیشہ سے تارکین وطن کے خلاف رہی ہیں۔ ایف آر پی کی مقبولیت میں دن بدن مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ بھر کی طرح ناروے میں بھی بڑی تعداد میں شامی مہاجرین کے علاوہ افغانی، ایرانی،عراقی اور ایری ٹریا کے لوگ شامل ہیں۔میں نے اوسلو میں پناہ گزین مہاجرین کی رجسٹریشن کیمپ کا دورہ کیا اور وہاں رضاکارانہ طور پر موجود محسن راجہ، بریرہ نواب لطیف اور وی بیکے(Vibeke) سے خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے مہاجرین اور سیاسی پناہ گزینوں کے مسائل سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ناروے دنیا کا امیر ترین ملک ہونے کے باوجود سیاسی پناہ گزینوں اور مہاجرین کی اچھی طرح دیکھ بھال نہیں کررہا جبکہ وہ تقریباََ تین ماہ سے روزانہ کی بنیاد پر سیاسی پناہ گزینوں کے لیے کھانے، پینے، کپڑے اور دیگر ضروریات کی اشیاء لوگوں کی مدد سے مہیاکر رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ رضاکارانہ طور پر اگر یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو حکومتی ادارے ایسا کیوں نہیں کر سکتے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں