میں نے ایسا کیوں کیا؟ عمر ڈابا

سید محسن نقوی
کچھ خیالات کا لکھنا شاید آسان ہوتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں کچھ خیالات کا اظہار بہت مشکل ہوجاتا ہے، وہ مشکل اس لیے ہو جاتا
ہے، کیونکہ ان خیالات کے ساتھ بہت سارے جذبات بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ اس میں بہت سے بھی لوگ شامل ہوتے ہیں، اور ان تمام لوگوں کے الگ الگ خیالات اور اپنے اپنے جذبات ہوتے ہیں۔ میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ ہفتہ کے دن 16 نومبر 2019 کو کرسٹیئن سینڈ میں اوور ٹوروی میں جو واقعہ پیش آیا، اس کے بارے میں اپنے خیالات اور محسوسات بتاؤں۔

لیکن میں چاہتا تھا کہ کچھ وقت گزر جائے تاکہ جو کچھ ہوا، میں اس کے تاثر سے نکل جاؤں۔ کیونکہ میں کسی خاص اثر میں کچھ نہیں لکھنا چاہتا، میں جو بھی کہنا چاہتا ہوں اور جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں اس لیے کہ میں اس پر قائم بھی رہوں۔ یقینا یہ میرے لیے بہت اہم ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے ہفتہ کے روز اوور ٹورو میں “سی آئی اے این” SIAN یعنی (Stop Islamization of Norway) نامی تنظیم کے مظاہرے کے بارے میں میڈیا کے توسط سے سنا یا پڑھا ہوگا، میرے لیے اور بہت سے دوسرے مسلمان اور غیر مسلم کے لیے ضروری ہے کہ میں وہ پوری حقیقت بتاؤں جو کہ ناقابل یقین حد تک اہم ہے۔ اور میں اس کی وضاحت کی پوری کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے، آپ سب کا شکریہ جنھوں نے اپنے عمل سے بتایا کہ ہم اپنے شہر میں نفرت اور نسل پرستی کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ ان سب کا شکریہ جنھوں نے ہماری مدد کے لیے اس ہفتہ کے دن کا وقت ہمارے ساتھ گزارا، ان لوگوں کا شکریہ، آپ نے ہمیں جس محبت اور مدد کا مظاہرہ کیا اس کے لیے آپ کا شکریہ۔ سی آئی اے این کے اپنے الفاظ ہیں کہ انھوں نے اس مظاہرے کو “کرسٹیئنینڈ میں قرآن مجید جلانے کے لیے” شہر سیان اسٹینڈ کا نام دیا، اور یہ پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ ان کا منصوبہ بالکل یہی تھا، یعنی “قرآن جلانا”۔

مقامی سیاست دانوں نے اس مظاہرے کی اجازت دی، اس پر دوبارہ غور کرنے کا مطالبہ کیا گیا، جس پر انھوں نے اس کی اجازت واپس لے لی۔ بعد ازاں مقامی لوگوں نے ان سیاستدانوں اور پولیس پر یہ الزام لگایا کہ وہ آزادی اظہار رائے کو نظرانداز کرتے ہیں۔ اس پر ایک طویل بحث مباحثہ بھی ہوا، اور بالآخر مظاہرے کی اجازت کی صورت میں اس کا اختتام ہوا۔ لیکن سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر کسی بھی صورت قرآن مجید کو جلانے پر پابندی بھی لگا دی گئی۔ پولیس نے بہت وضاحت سے یہ بیان دیا کہ اگر CIAN نے مظاہرے کے دوران قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی تو وہ فوری طور پر مظاہرے کو روکیں گے۔ اس سے ہمیں اعتماد ہوگیا کہ اگر مظاہرین نے کسی بھی صورت قرآن مجید کو آگ لگانے کی کوشش کی تو پولیس خود سے مداخلت کرے گی۔ پولیس کی یقین دہانی کی بنیاد پر ہم پرسکون اور پراعتماد ہوگئے۔ جب سی آئی این کے لوگ اپنے مظاہرے کے لیے تیار ہو رہے تھے، انھوں نے قرآن مجید کو ایک ڈسپوزایبل گرل لگا دیا۔ پولیس نے مظاہرہ شروع ہونے سے پہلے ہی اسے ہٹا دیا تھا۔ متعدد جھنڈوں اور بینرز کو جن میں مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف لوگ بھی شامل تھے ان کو بھی وہاں سے ہٹایا گیا، کیونکہ فساد کی صورت میں ممکنہ طور پر خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔

یہ ایک قابل فہم تدبیر تھی اور ہمیں یقین تھا کہ پولیس مظاہرے کو پرامن طریقے سے لائے گی اور پولیس کا مکمل کنٹرول ہوگا۔ سیان کے رہنما ارن تیمر نے اسی صبح میڈیا کو بتایا تھا کہ کھلے عام قرآن کو جلانے پر پابندی کے باوجود، یہ ان کے پلان B میں شامل ہے، لیکن ہم پرسکون تھے کیونکہ پولیس نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کسی بھی ایسی صورت میں ضرور مداخلت کریں گے۔ سی آئی اے این کے مظاہرے کے پہلے 60 منٹ میں سے 45 منٹ ان کے پہلے کے کسی بھی دوسرے مظاہرے کی طرح ہی رہے۔ جن لوگوں کو سیان SIAN کی طرف سے تقریر کی دعوت دی گئی تھی، انہیں ایسا کرنے کی اجازت دی گئی کہ وہ احتجاج کرنے والوں کے نعروں کے جوابی نعروں سے مزاحمت کریں۔ سیان SIAN کو اپنا پیغام یا نعرے لگانے کی مکمل اجازت دی گئی، اور جوابی مظاہرین کو بھی ہماری حمایت میں نعرے لگابے کی اجازت دی گئی۔ ہم تب بھی چپ کھڑے رہے، جب ہم نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (معاذ اللہ) پیڈو فیلیا تھے۔
ہم تب بھی خاموش کھڑے رہے، جب ہم نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگجو تھے۔ ہم خاموش رہے جب وہ کہہ رہے تھے کہ تمام مسلمان خواتین مظلوم ہیں۔ ہم خاموش کھڑے رہے اور جب انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسلام ایک متشدد مذہب ہے، جس پر پوری طرح پابندی عائد ہونی چاہیے۔

جب مظاہرہ اختتام کے قریب پہنچا تو سیان کے رہنما ارنے تیمر نے قرآن مجید نکالا اور اعلان کیا کہ اب اس کو جلانے کا وقت آگیا ہے، تب بھی ہم پرسکون تھے۔ کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ اگر سیان نے واقعتا ایسا کرنے کی کوشش کی تو پولیس ضرور مداخلت کرے گی۔ کیونکہ اس بارے میں پولیس نے بہت وضاحت سے ذمہ داری لی تھی۔ اس وقت سیان رہنما ارنے تیمر قرآن ہاتھ میں لے کر کہا کہ پولیس نے ان پر قرآن مجید کو آگ لگانے پر سختی سے ممانعت کی ہوئی ہے اور وہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گا۔ یقینا اس وقت اس کے یہ الفاظ بھی ہمارے لیے شدید تکلیف دہ تھے اور ہمارے جذبات بھڑکانے کے لیے کافی تھے، یہ الفاظ سن کر کچھ لوگ چیخ اٹھے، کوئی نعرے لگانے لگا، حتی کہ اس وقت تک بھی فساد کے کوئی آثار پیدا نہیں ہوئے۔ اس وقت تک کسی پر بھی حملہ کرنے کا ذہن میں کوئی خیال نہیں آیا، جبکہ ہم بآسانی سے یہ کام کر سکتے تھے، کیونکہ ہمارے اور سی آئی اے این کے درمیان فقط 3 سے 4 میٹر چوڑا باڑ تھا، اور وہاں کھڑے دو پولیس افسران ہمارا نہیں، بلکہ سی آئی اے این کا سامنا کر رہے تھے۔ ہم اب بھی پرسکون تھے۔ یہ سوچنا ان کا مسئلہ تھا کہ اب مظاہرے کا اختتام تھا۔ یقینا اب وہ مظاہرہ اختتام تک لےجا چکے تھے، لیکن حقیقتا ایسا نہ تھا کہ مظاہرہ اختتام تک پہنچ گیا۔ انھوں نے مظاہرے سے پہلے ہی کہا تھا کہ ان کا ایک منصوبہ ہے۔ وہ قرآن مجید کو ہر قیمت پر جلائیں گے۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اتنا سمجھ سے باہر ہے کہ اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ سی آئی اے این رہنما لارس تھورسن اپنے ہاتھ میں قرآن کریم اٹھا کر پہلے سے طےشدہ منصوبے کے تحت چند قدم آگے بڑھاتا ہے اور قرآن کو آگ لگا دیتا ہے، اس کے آس پاس تقریبا 30 سے 40 وردی والے اور چند سویلین پولیس افسران اس وقت موجود تھے، میرے وہاں کودنے سے پہلے تقریبا قرآن مجید جلتا رہا، یعنی 7 سیکنڈ تک قرآن جلنے کے بعد میں نے حملہ آور ہوا، اس کے بعد آپ مجھے اس پر حملہ آور ہوتے دیکھ سکتے ہیں کہ میں اس پر پہلے ہاتھ سے اور پھر اسے لات مار رہا ہوں۔
تھارسن کے قرآن کو آگ لگانے کے قریب 9 سیکنڈ بعد پولیس نے مداخلت کی۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس نے قبول کیا کہ سی آئی این قرآن کو آگ لگائے۔ انھوں نے موقع دیا کہ کئی سیکنڈ تک آگ جلتی رہے۔ لیکن انھوں نے یہ قبول نہیں کیا کہ ہم جواب دے رہے ہیں۔ فیس بک، یوٹیوب اور دوسرے میڈیا پر واقعہ کی ان گنت ویڈیوز موجود ہیں جو واقعہ کو واضح طور پر دکھاتی ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تیمر اپنے ہاتھوں میں قرآن کریم کے ساتھ کھڑا ہوا تو ہم نے کارروائی نہیں کی، جب اس نے قرآن مجید کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تو بھی ہم نے کارروائی نہیں کی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تھورسن کو قرآن مجید کو آگ لگانے کی اجازت دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پر زور، پر تاثیر! – یوسف سراج
پولیس نے اپنے عمل سے ظاہر کیا کہ تھورسن کو بغیر کسی مداخلت کے جلتے ہوئے قرآن مجید کو لے کر گھومنے پھرنے کی اجازت تھی۔ انہوں نے ہمیں اس نوبت تک آنے کا موقع دیا کہ جب میں نے دوست سمیت حملے کا فیصلہ کیا، اس کے بعد ہی پولیس مداخلت کا فیصلہ کرتی ہے، جب میں نے سی آئی این لیڈر پر کود گیا۔ اس وقت قرآن کریم 9 سیکنڈ تک جل رہا تھا۔ 9 سیکنڈ لمبا وقت لگتا ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی نظریں اسکرین سے دور کریں۔ اب انہیں بند کردیں، اور 9 سیکنڈ گنیں۔ واقعتا یہ ایک بہت طویل وقت ہے۔ اس تحریر میں، جو میں لکھ رہا ہوں، اس سے میں اپنے لیے کوئی عذر نہیں تراش رہا، میرے کسی دوست کی طرف سے بھی اسے کوئی عذر نہ سمجھا جائے۔ میں اپنے اس عمل کے ساتھ 100٪ کھڑا ہوں، کیوں کہ میرا دل مجھے بتاتا ہے کہ یہ کرنا صحیح تھا۔ میں نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اور میں ایسے کسی وقت میں پھر یہی کام کروں گا۔ اس واقعے کے اگلے دن، میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے، کہ اگر پولیس کھلے عام قرآن کو جلانے پر عائد پابندی پر عملدرآمد کرتی جس کا انھوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ جو انھوں نے کہا ہے، وہ اس پابندی پر عملدرآمد کریں گے تو صورت حال کبھی بھی اس طرح نہیں بگڑسکتی تھی۔ اگر پولیس نےتھارسن کو اسی لمحے بھی روک دیا ہوتا جب انھیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ اس نے واقعی قرآن مجید کو آگ لگا دی ہے، تو ہمیں کبھی بھی مداخلت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

پولیس کے پاس وقت تھا۔ مجمع کے اسٹال تک جانے سے پہلے کنٹرول کرنے کا بہت وقت، لیکن انہوں نے مداخلت نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے قانون کو توڑنے کے لیے سی آئی اے این کو موقع دیا۔ پولیس نے خود حالات سے نمٹنے کے فیصلے سے سے پہلے ہمارے رد عمل کا انتظار کرنے کا انتخاب کیا۔

پوسٹ کی تحریر کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو ہوا، اس کے نتائج پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں۔ اس کا ایک واضح نتیجہ یہ ہے کہ اب بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان متشدد لوگ ہیں۔ تمام ویڈیوز واضح طور پر ہمیں سیدھے تھارسن پر دوڑتے ہوئے دکھاتی ہیں۔ ہاں، میں نے اسے لات ماری۔ اور میری ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی کہ اب تک جو میں نے کیا، اب میں اس کے لئے صفائیاں پیش کروں، یا اس کی وضاحت کروں۔ ویڈیو میں واضح طور پر یہ دکھایا گیا ہے کہ ہم متشدد انداز میں اپنا ردعمل ظاہر کررہے ہیں۔ لیکن اس سے ہم پرتشدد لوگ ثابت نہیں ہوتے۔ بلکہ حقیقتا اس سے ہم ایسے افراد بن جاتے ہیں جو ہر قیمت پر قرآن کی حفاظت کے لیے راضی ہیں، جو ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ کچھ لوگ جب میرے اس عمل کو دیکھیں گے تو وہ شاید مایوسی کا اظہار کریں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غصہ یا نفرت بھی کریں۔ لیکن میرے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ ان چند سیکنڈز میں اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ میں کون ہوں۔ وہ میرے عمل کے بارے میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر جس کی حفاظت کے لیے میں یہ سب کرنے کو تیار ہوں، وہ میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے حقیقتا بہت اہم ہے۔ لیکن وہ شاید میرے اس عمل کو بطور انسانیت قبول نہیں کرتے، اور میں اپنے اس ردعمل کے لیے کسی بھی قسم کی صفائی پیش کرنے کو ہرگز اہم نہیں سمجھتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اب بہت سارے لوگ میرے لیے یہ رائے رکھیں گے کہ میں ایک متشدد شخص ہوں، کچھ ایسی بات ہے جسے میں قبول کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ میرا دل کیا کہتا ہے، اور میرے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ میں متشدد شخص نہیں ہوں۔ ہم تو خود تشدد میں ڈوبے ہوئے ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے تھے، کیونکہ ہم ایک پرامن ملک میں رہنا چاہتے ہیں۔
اس واقعے کا سب سے تکلیف دہ پہلو اور میرے لیے پریشان کن معاملہ یہ ہے کہ اس کا اثر بہت سارے لوگوں پر پڑے گا، میں خود سے پوچھتا ہوں؛ جمعہ کو نیدرلینڈ پولیس کے بارے میں نئے آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کے خیالات کیا تھے۔ اور آج ان کے کیا خیالات ہیں؟ انھوں نے دیکھا ہے کہ پولیس کے ذریعہ دائیں بازو کے ایک انتہائی گروہ نے عوامی طور پر قرآن مجید کو جلا دیا۔ انھوں نے پولیس کو ان سے وعدہ کرتے ہوئے سنا ہے، اور انھوں نے انھیں اسی وعدے کو توڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ ناروے میں بچوں اور نوجوانوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ پولیس مضبوط، اور اعلی لوگ ہیں جو ہر قیمت پر ناروے کے شہریوں کی حفاظت کریں گے۔ ہم پولیس پر اعتماد کرسکتے ہیں۔ پولیس برے لوگوں کو پکڑے گی۔ اگر آپ پریشانی کا شکار ہیں تو، پولیس کے تحفظ میں آپ ہمیشہ محفوظ ہیں۔ اگر آپ کسی مشکل یا مصیبت میں تو پولیس آپ کی مدد کرے گی۔ ہم نے ہفتہ کے روز پولیس پر اعتماد کیا۔ لیکن انھوں نے ہم سے پیٹھ پھیر لی، اور ہمیں ایک غیرمتوقع صورتحال میں ڈال دیا۔

16 نومبر 2019ء کو ناروے کے کرسٹیئن سینڈ میں اور ٹورف میں اس واقعے کا لمحہ ایک ایسا ہی وقت تھا جیسے وقت ماضی کی طرف چلا گیا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ہم 1930ء کے اوائل کے جرمنی کے فاشزم کے دور میں لوٹ آئے ہیں۔ وہی وقت جب نسل پرستی کی ہنگامہ آرائیوں نے معاشرے پر خطرناک حد تک تسلط جما لیا تھا۔ جس کا آغاز گیس چیمبر سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا آغاز اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز باتوں سے ہوا تھا، اس کا آغاز جلتی ہوئی مذہبی کتابوں سے ہوا تھا۔ مجھے ناروے میں آزادی اظہار کا تصور بہت پسند ہے۔ یہ ملک اس تصور پر قائم ہے۔ لیکن یہ آزادی اظہار کی حد کیا ہے؟ ہمیں آزادی اظہار کے ذریعہ کس چیز کا تحفظ کرنا چاہیے؟ مذہبی تنقید کیا ہے اور طنز کیا ہے؟ عوامی تعلیم کو کیا سمجھا جانا چاہیے؟ اور نفرت انگیز باتیں کیا ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینا ناممکن ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مذہب کے بارے میں کھلے مباحثے صحت مند ہیں۔ اور مذہبی تنقید صحت مند ہے ، جب تک کہ یہ قابل احترام طریقے سے کی جائے۔ سی ائی اے این تنظیم کیا کر رہی ہے؟ یہ مذہبی تنقید نہیں ہے، یہ نفرت، اور اشتعال انگیزی ہے۔ اور میرے خیال میں اقلیتوں کے خلاف نفرت اور طنز، یا الفاظ جو لوگوں کو تکلیف دینے کے لیے بولے گئے ہیں، کو آزادی اظہار رائے کی آڑ سے محفوظ نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ناروے کا افسوسناک واقعہ کیوں پیش آیا – فضل ہادی حسن
ہر انسان سوچنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کے لیے آزاد ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ میں اسے قبول کرتا ہوں، اور میں اس حقیقت کا احترام کرتا ہوں کہ جو لوگ اسلام سے نفرت کرتے ہیں، یہ ان کا حق ہے۔ قرآن کریم بالکل واضح ہے کہ ہمیں دوسرے لوگوں کی مذہبی آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔ شام میں میرے ہمسائے عیسائی تھے۔ میں ان لوگوں کے بارے میں بھی جانتا تھا جو شیطان کی پوجا کرتے تھے۔ لبنان میں میں ایک گاؤں میں رہتا تھا، جہاں لوگوں کو حقیقت میں یقین تھا کہ خدا ایک آدمی ہے جو وہاں ان کے ساتھ رہتا ہے۔ ناروے میں میرے دوست ہیں جو ملحد ہیں۔ میرے ایسے دوست ہیں جنھوں نے اسلام قبول کرکے عیسائیت اختیار کی۔ میں نے ان کے انتخاب پر تنقید کرنے کی ضرورت کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ میں لوگوں سے دوستی کرتا ہوں، اور اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ان کا ایمان کیا ہے؟ ان کا مذہب، ان کا عقیدہ کیا ہے؟ مجھے ماننا ہے کہ مذہب ایک نجی معاملہ ہے، اور میں لوگوں کے مذہب کے انتخاب کا احترام کرتا ہوں۔
میں کھلے دل سے لوگوں کے اسلام کے بارے میں سوالات کرنے کو قبول کرتا ہوں۔ میں ان لوگوں کو قبول کرتا ہوں جو اسلام پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں، اور میں اسلام پر تنقید کرنے کو بھی قبول کرتا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان معاملات پر بات کرنے سے، مکالمہ کرنے سے، دیواریں ٹوٹ سکتی ہیں اور پل تعمیر ہوسکتے ہیں۔ لیکن بات چیت احترام پر مبنی ہونی چاہیے۔ اور ہاں! مجھے یقین ہے کہ تنقید بھی قابل احترام ہوسکتی ہے۔

ناروے آنے کے بعد جب میں نے پہلے دوسرے مذاہب اور خصوصا اسلام کے خلاف نفرت کا سامنا کیا۔ کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ سی آئی اے این جیسے دائیں بازو کے ایک انتہائی گروپ کو عوامی طور پر ان کی نفرت کی تبلیغ کرنے کی اجازت ہوگی، جیسا کہ میں نے اس پر امن ملک میں گذشتہ ہفتے دیکھا۔ اس سے مجھے واقعی شدید تکلیف ہوئی کہ ہم اس بات کا احترام نہیں کر سکتے ہیں کہ شام میں، جہاں عیسائی اور مسلمان دوست اور ہمسایہ تھے، اور جہاں مساجد اور گرجا گھروں کے ساتھ ساتھ تعمیر کیا گیا تھا، اسی طرح سے لوگ مختلف عقیدے کے مالک ہیں۔ پچھلے ہفتے کے دن سے میرا فون بجنا بند نہیں ہوا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا معاملہ بن گیا ہے، اور میں اس کو سمجھ سکتا ہوں۔ میں واقعی میں آپ کی اس حمایت کے لیے سب کا شکریہ ادا کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ میں اور میرا کنبہ اس کے بےحد شکرگزار ہیں۔ بہت ساری نجی تنظیموں نے جو مختلف قوانین توڑنے کے بدلے میں جرمانے کی ادائیگی کے لیے فنڈز فراہم کرتے ہیں، انھوں نے میرے اور میرے دوستوں کے لیے فنڈز کے حوالے سے ہم سے رابطہ کیا۔ یہ ہمارے لیے بہت حوصلہ افزاء تھا ، لیکن ہم احترام کے ساتھ تمام مالی مدد سے انکار کرتے ہیں۔ ہم نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کی ہیں ، اور ہم چاہتے ہیں کہ مقدمے کی سماعت میں جائے .

کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ پولیس کے پاس قرآن مجید کو جلانے سے روکنے کے لیے وقت اور موقع تھا، لیکن واضح طور پر انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ہم سب اس واقعے کے ردعمل پر ہرگز شرمندہ نہیں ہیں، اور ہم جرمانے ادا نہیں کریں گے۔ یقینا یہ عدالتی عمل ایک طویل سفر ہوگا، لیکن ہمیں لگتا ہے کہ یہ مقدمہ چلنا ایک اہم معاملہ ہے، اور ہماری امید ہے کہ مقدمے کا نتیجہ مستقبل میں ایسے ہی مظاہروں اور اقدامات کو سنبھالنے کے حوالے سے کچھ نکات طے کرے گا۔ اگر حکام ہمیں کسی بھی طرح سزا دینے کا انتخاب کرتے ہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ کیونکہ جمہوری معاشرے میں لوگ یہی کرتے ہیں۔ اگر کسی بھی مقدس صحیفے کو کل دوبارہ عوام میں جلانا ہے، تو میں نے جو کچھ کیا ہے، اسے دوبارہ کروں گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آیا وہ جلایا جانے والا قرآن، بائبل یا کوئی اور مقدس صحیفہ ہو، میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص ہر مذہب کا احترام کرے ۔

میں نہیں جانتا کہ اگلے ہفتوں اور مہینوں میں ہمارے لیے آگے کیا ہوگا؟ لیکن ہم نے اس مؤقف پر عدالت میں مقابلہ کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ میں اس موقع پر ایک اہم پیغام دنیا تک پہنچانا چاہوں گا، جو میرے لئے بہت اہم ہے: سی آئی اے این کسی بھی طرح ناروے کے عوام کی نمائندگی نہیں کرتی ہے۔ سی آئی این واقعی لوگوں کا ایک چھوٹا گروپ ہے، اور ہم یقینی طور پر ان سے کسی بھی طرح سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ یہاں کے لوگ مہربان اور قابل احترام ہیں، اور میرا خاندان اور میں، اور میرے دوست، ناروے کے عوام کے لیے شکرگزار ہیں، انھوں نے جس طرح سے ہماری مدد کی، وہ حیران کن ہے۔ یہ مسئلہ فقط مخصوص حلقوں کے سیاسی مفاد کا ہے اور یہ بہت ہی کم دائیں بازو کے چھوٹے چھوٹے گروپ ہیں۔ یہ مسئلہ مجموعی طور پر ناروے کے عوام کا نہیں ہے۔

(عمر ڈابا نے یہ تحریر اپنی فیس بک وال پر لکھی ہے۔ منصور ندیم نے اس کا ترجمہ کیا ہے)

اپنا تبصرہ لکھیں